بلوچ طالب علم اب اپنے گھر نہیں جا سکتا

کراچی یونیورسٹی کا طالب علم حیات بلوچ جسے پاکستان آرمی نے اس کے والدین کے سامنے گولی مارد ی تھی


حبیب کریم

 میں جب بھی مجبوراً اسلام آباد سے گھر آتا ہوں تو اس کی واحد اہم وجہ یہی ہوتی ہے کہ گھر میں ایک ماں اپنی پلکیں بچھائے انتظار کر رہی ہوتی ہے۔ اب گھر نہ آؤ تو کرب اور آؤ بھی تو یہاں زندگی عذاب ہے۔ یہ تقریباً ہر اس بلوچ طالبعلم کی داستان ہے جو والدین کی امّیدوں کا مان رکھنے اور ایک بہتر مستقبل کے حصول کے لیے تعلیم کے واسطے دیارِ غیر کی خاک چھان رہا ہے۔

ایسے بلوچ طلبا اسلام آباد، لاہور، کراچی وغیرہ جیسے شہروں میں بکثرت ملیں گے جن کو گھر گئے ہوئے دو، تین حتی کہ چار، پانچ سال تک بھی ہو گئے ہیں۔ مگر وہ چھٹیوں میں بھی بدحالی، غربت اور مسلسل فاقہ کشی کے باوجود امیر شہروں میں سر چھپانے کو کوئی چھت ڈھونڈ کر کسی طرح سے مفلسی کی زندگی گزار لیتے ہیں۔

اس کی وجہ یہی ہے کہ ایسے طلبا گھر پہنچ کر ہمیشہ کے لیے ماں باپ کی نظروں سے اوجھل کر دیے جانے کے خوف سے پردیس کو نسبتاً زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔ یہی سوچتے ہیں کہ بھلے دور ہیں مگر سلامت تو ہیں۔ اگر ان میں سے وہ طلبا جو ایسے کسی نادیدہ خوف کا شکار نہ بھی ہوں تو بھی وہ دورانِ تعلیم اپنے علاقوں میں آ کر یہاں کے کربناک حالاتِ زندگی کا بوجھ نفسیاتی طور پر برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

یوں گھر سے باہر گھر والوں کی فکر۔ گھر کی طرف نکلیں تو سفر میں جگہ جگہ نسب اور شناخت ثابت کرتے رہنے کی تکلیف۔ اور گھر پہنچیں تو کسی ہمسایے، دوست، عزیز، رشتہ دار وغیرہ کے اچانک غائب کیے جانے کی خبریں۔۔۔ گھر گھر میں ماتم، دُہائیاں۔۔۔ جگر گوشوں کی بازیابی کے لیے ماؤں کی سنائی دیتی سسکیاں۔۔۔ ہر سُو ایک انتظار کی کیفیت__ کہیں کسی مردہ جسم کا انتظار تو کہیں کسی زندہ لاش کا۔۔۔ انتشار، تذبذب، بے چینی، غیریقینی صورتحال وغیرہ۔۔۔ ان سب اذیّتوں کو جھیل کر بھی جو پڑھتا ہے، وہ بلوچ نوجوان ہے۔

سو، پچھلے سال جب میں گھر آیا تو ہماری عید ہمارے دوست ثناء بلوچ کی رہائی کے لیے دُہائیاں دیتے اور ماتم کرتے گزری۔ اِس بار آیا تو یہ عید اس ماتم کو میرے گھر تک لے آیا۔ رمضان میں کچھ قریبی رشتہ داروں اور محلّے داروں کے اٹھائے جانے کے بعد ان کی واپسی کی خوشی منانے ہی لگے تھے کہ 15 مئی کی رات گھر سے میرے اٹھارہ سالہ کزن سفیان کو جبراً اغوا کر لیا گیا۔ اب دوبارہ ھم سفیان کی رہائی کے لیے در در جا کر ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔ منّت سماجت کر رہے ہیں کہ خدا کے لیے اِس کمسن بچّے کو لوٹا دو۔

اس کی ماں فریاد کر رہی ہے کہ اسے واپس کرو تو میں اسے سینے سے چِمٹا کر رکھونگی۔۔۔ کمرے سے باہر جھانکنے تک نہیں دونگی۔۔۔ خزانے کی طرح چھپا کر رکھوں گی۔ بس ایک بار تو رحم کھاؤ۔۔۔ کم از کم پتہ تو بتا دو اس کا کہ کہاں ہے؟ کس حال میں ہے میرا لختِ جگر؟ یہ بچّہ جسے اتنے ناز و نعم سے پالا ہے میں نے، تمھارے ہولناک تشدد کو سَہے گا یہ کیسے؟

کیا کہیں اِس ماں سے؟ کیسے دلاسہ دیں ھم اسے؟ کالج کے طالبعلم اور ساتھ گھر میں ٹیلر کی دوکان کھول کر درزی کا کام کرنے والے اِس جواں سال بچّے کا جرم ہے کیا آخر؟ اس کمسنی میں اس نے کونسا ایسا ناقابلِ معافی جرم کر لیا کہ کسی کو خبر بھی نہیں اور ایسی بدترین سزا بھی دی جا رہی ہے؟ ایسا کونسا قصور تھا اس کا کہ رات گئے گھر کی چادر و چار دیواری پامال کر کے اسے گھسیٹتے ہوئے ماورائے عدالت اغوا کیا گیا؟ کوئی اشتہاری مجرم ہے؟ کئی قتل کیے ہیں اِس بچّے نے؟ ڈاکے ڈالے ہیں؟ مگر ایسے بڑے مجرموں کے لیے بھی تو عدالتیں ہوتی ہیں۔ تھانے جیل ہوتے ہیں۔ ٹرائل ہوتا ہے۔ قانون ہوتا ہے۔ مگر یہ کیا؟

یہ کونسا جرم ہے کہ جس کی ایسی بھیانک سزا کہ اسے یہ واپس لوٹا بھی دیں تو اس کی زندگی اب غرق۔ ناقابلِ بیان جسمانی اور ذہنی تشدد کے بعد بچے گا کیا اس بچّے میں؟ محنت مزدوری تو اپنی جگہ، پڑھے گا کیسے؟ اس ٹراما سے کبھی نکل بھی سکے گا یہ کمسن طالبعلم؟ واپس آئے گا بھی تو کب؟ کوئی وقت؟ کوئی تاریخ؟ ان کے پاس کوئی عدالت نہیں ہوتی جو تاریخ دے۔ کوئی جج نہیں ہوتا جو جرم بتاۓ۔ کچھ ہے تو صرف تاریکی۔۔۔ غیر یقینی صورتحال۔۔۔ اذیّت۔۔۔ کرب۔۔۔ انتظار۔۔۔

Comments are closed.