کیا پاکستان مذہبی قانون سازی کو ختم کرنے پر تیار ہے؟

جون 2018 میں فیٹف(فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس)نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا تھا کیونکہ پاکستان مسلسل دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں محفوظ ٹھکانے بھی مہیا کیے ہوئے ہے۔

فیٹف کی گرے لسٹ میں ڈالنے سے پاکستان کی مالی امداد بند ہے صرف پچھلے قرضے ادا کرنے کے لیے نئے قرضے دیئے جاتے ہیں۔ اور ان قرضوں کا بڑا حصہ بھی دفاعی اخراجات کی نذر ہورہا ہے۔فیٹف نے پاکستان کو 27 نکات پر مشتمل مطالبات کی فہرست   دی ہے جس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھا گیا ہے۔

لیکن پاکستانی ریاست حیلے بہانوں سے کام لیتی چلی آرہی ہے، اور دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کاروائی میں سنجیدہ نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ لشکر طیبہ اور جیش محمد اور دوسری تنظیمیں فی الحال ہائبر نیشن میں چلی گئی ہیں لیکن فاٹا میں طالبان اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سندھ میں ہندو لڑکیوں کا اغوا مسلسل جاری ہے ۔ بلوچستان میں دور دراز کے علاقوں میں صرف مذہبی جماعتوں کو فلاحی کام کرنے کی اجازت ہے جبکہ کوئی بین الاقوامی تنظیم وہاں فلاحی کام نہیں کر سکتی۔شمالی علاقہ جات جو دنیا بھر میں سیاحت کے لیے مشہور ہیں وہاں بھی مذہبی انتہا پسندی اتنی بڑھ چکی ہے کہ پاکستان میں کوئی سیاح بھی آنے کو تیار نہیں۔

چاہیے تو یہ تھا کہ پاکستان فیٹف کے مطالبات پر عمل کرتا لیکن الٹا انتہا پسند قوتوں کو ملک میں پھلنے پھولنے کے مواقع دیئے جارہے ہیں۔ریاستی اداروں میں اقتدار کے لیے جاری جنگ میں مذہبی انتہا پسندی کو استعمال کیا جارہا ہے۔ جس کی واضح مثال تحریک لبیک کے مختلف شہروں میں پرتشدد ہنگامے ہیں۔ حکومت نے شاید دنیا کو دکھانے کے لیے تحریک لبیک کو کالعدم قرار دیا لیکن دوسری جانب وہ انتخابات میں بھی بھرپور حصہ لے رہی ہے۔ توہین مذہب کے قانون کو اقلیتوں اور کمزور افراد کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔حال ہی میں لاہور کے ذہنی امراض کے ہسپتال میں واقع چرچ میں مسلمان نرسوں نے جو تماشا کیا ہے اسے پوری دنیا نے دیکھا ہے۔

امریکہ نے تو طالبان کی حمایت کرنے اور انہیں محفوظ ٹھکانے مہیا کرنے پر پاکستان کی امداد بند کررکھی ہے۔اب فیٹف کے ساتھ ساتھ یورپی یونین نے بھی علیحدہ سے اقدامات اٹھانے شروع کردیے ہیں اور پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ توہین مذہب جیسے قانون کا خاتمہ کیاجائے لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی ریاست کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ماہرین کے مطابق پاکستان ہر سال یورپی یونین سے تین ارب ڈالر کی تجارت کرتا ہے جو کہ خطرے سے دوچار ہے۔

پاکستان کے پاس سنہ 2010 میں ایک سنہری دور آیا تھا جب اٹھارویں ترمیم کے ذریعے مذہبی انتہا پسندی پر مشتمل قانون سازی کو ختم کیاجا سکتا تھا۔ پیپلز پارٹی ، اے این پی سمیت باقی گروپوں نے مذہبی انتہا پسندی پر مبنی قوانین کے خاتمے کی حمایت کی تھی لیکن نواز شریف کی مخالفت کی وجہ سے یہ قانون سازی نہ ہو سکی تھی۔ نواز شریف یا کسی بڑے سیاسی رہنما کو تو شاید کوئی فرق نہ پڑے لیکن پاکستانی عوام ان رہنماؤں کی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔

محمد شعیب عادل

Comments are closed.