ملالہ کا بیان اور تبدیل ہوتا ہوا عالمی سماج

سبط حسن گیلانی

شادی قدیم ترین تہذیبوں اور ان کے رسم و رواج کا اہم ترین جزو رہا ہے ۔ اس کی تاریخ بلا شبہ ہزاروں سال پر محیط ہے ۔ آج کل مروج جتنے بھی مذاہب ہیں ان میں زیادہ قدیم یہودیت ہے جن کا کلینڈر 5000 سال سے پرانا ہے ۔ اور ہندو ویدک مذاہب ہیں جن کی مقدس کتب محققین کے نزدیک کتاب مقدس سے بھی زیادہ پرانی ہیں ۔ پھر پارسی ہیں، جینی ہیں بدھ ہیں، ان کے بعد عیسائیت ہے اور پھر اسلام جن کی تاریخ 1400 اور 2000 برسوں پر محیط ہے۔

بر صغیر کا سب سے کم عمر مذہب جس کے بانی بابا گرو نانک دیو جی ہیں سکھی ہے جس کی عمر ابھی 600 سال نہیں ہوئی ۔ ان سب مذاہب کے نزدیک نکاح ایک مسلمہ حقیقت کا نام ہے ۔ مگر ان میں سے کوئی ایک بھی نکاح یا شادی کا موجد یا بانی نہیں ہے ۔ سب نے پہلے سے موجود اس رسم میں اپنے اپنے رنگ بھرے ہیں ۔

اسلامی نقطہ نظر یہ ہے کہ اسلام نے تمام مذاہب کے نکاح کو خوش دلی سے قبول کیا ہے ۔ مثلا کسی بھی دوسرے مذہب کا کوئی انسان اسلام قبول کرتا تو اسلام اس کے سابقہ مذہب کے مطابق انجام پائے ہوئے نکاح پر کوئی اعتراض نہیں کرتا نہ اپنے مذہب کے مطابق تجدید نکاح پر اصرار کرتا ہے ۔ اسلام کے شروع میں ازدواجی رشتہ دو طرح کا تھا ۔ایک نکاح کا دوسرا نکاح کے بغیر ۔

لونڈیوں کنیزوں کا حصول دو طریقوں سے ہوتا تھا ، نمبر ایک آزاد غلام منڈی سے خریدی ہوئی عورتیں نمبر دو جنگ کے بعد مال غنیمت میں حاصل ہونے والی عورتیں ۔ ان عورتوں سے رسم نکاح کے بغیر مالک کو ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی شرعی و سماجی اجازت تھی ۔ ہمارے بڑے بڑے ائمہ آکابرین و خلفا کنیزوں کے بطن سے تھے ۔ مگر زمانہ آگے بڑھنے کے بعد عام آدمی کے لیے لونڈی اور کنیز رکھنے کا سلسلہ متروک ہو گیا ۔( مندرجہ بالا تمام مذاہب سمیت اسلام کا نکاح بارے مشترکہ نقطہ نظر ہے اور وہ ہے رشتے کا اعلان ۔ خفیہ رشتے کو کسی بھی مذہب نے تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے) ۔

لیکن ماضی سے لیکر حال تک مسلمان حاکموں نے کبھی زمانے کے ساتھ خود کو نہیں بدلا ۔ آج بھی ان کے حرم آباد ہوتے ہیں جہاں درجنوں عورتیں ہوتی ہیں ۔ یہی حال ہندو عیسائی سکھ اور دوسرے مذاہب کے حاکموں کا رہا ہے ۔ تقسیم سے قبل بر صغیر پاک و ہند میں ہر مذہب کے راجوں مہاراجوں اور نوابوں کے حرم ہوا کرتے تھے انہیں سرکاری و سماجی حیثیت حاصل تھی بے شک ان کے مذہب کی رائے یا حکم اس سے مختلف ہی کیوں نہ ہو۔

رہی بات رجسٹرڈ نکاح کی تو پاکستان میں 1962 تک پیدا ہونے والی نسل کے والدین کا نکاح رجسٹرڈ نہیں ہے موقع پر موجود لوگ ہی گواہ ہوتے تھے ۔ یہی حال یورپ کی عیسائی دنیا کا تھا ۔ مگر آج یورپ اور مغرب بدل چکا ہے ۔ اچھی خاصی تعداد میں لوگ رسم نکاح اور اس کی رجسٹریشن کے بغیر اکٹھے زندگی گزارتے ہیں بچے بھی پیدا ہوتے ہیں اور معاشرہ و قانون اس بات کی اجازت دیتے ہیں اور تحفظ بھی مگر شادی کے بغیر اس رشتے کو مغرب میں آج بھی وہ تکریم حاصل نہیں جو شادی کے رشتے کو حاصل ہے ۔ مثلا کوئی بھی جوڑا اکٹھے زندگی گزارنے کے کئی سال بعد بھی جب شادی و نکاح کی رسم کا اعلان کرتا ہے تو خاندان قبیلے والے اور دوست احباب خوشی خوشی اس تقریب میں شرکت کرتے ہیں تحفے دعائیں اور مبارک باد دیتے ہیں کہ تم لوگوں نے اپنے رشتے کو مزید مضبوط اور معزز بنایا ہے ۔

یورپ اور مغرب کے علاوہ ایشیا اور بر صغیر کے بڑے شہروں میں بغیر نکاح کے ساتھ رہنے کا رواج بڑھ رہا ہے ۔ مگر آج بھی یورپ و ایشیا میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو اس رشتے کو تسلیم نہیں کرتے ۔جن میں ہمارا شمار بھی ہوتا ہے ۔ہم ملالہ کی راے سے اتفاق نہیں کرتے مگر اس کے تعلیم کے میدان میں نمایاں کام اور عالمی مقام کا احترام کرتے ہیں۔

Comments are closed.