عثمان  کاکڑ کا قتل کیوں ضروری تھا؟

بصیر نوید

ملک کی سیاسی صورت حال میں ایک بہت بڑا سانحہ ہوگیا، کہنے کو تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد یہ دوسرا سانحہ ہے مگر اب معاملات بدلتے دنوں کے ساتھ گھمبیر سے گھمبیر ہورہے ہیں۔

عثمان کاکڑ کے قاتلوں نے جنہیں تقریباً پورا پاکستان جانتا ہے بہت ہی نفاست کے ساتھ قتل کیا جس میں پکڑائی دینا مشکل ہوگا۔ اس موقع پر مجھے عمر اصغر خان کے قتل کی واردات سے مماثلت یاد آتی ہے جنہیں انکی اپنی رہائش گاہ میں قتل کرنے کے بعد پھانسی کے پھندے سے لٹکا دیا گیا تھا اور پھر کوئی کھرا چھوڑا نہیں گیا۔ یہاں بھی تمام تر شواہد کے باعث سینیٹر کو انکے گھر کے ڈرائنگ روم میں سر پر کاری وار کرکے تڑپتا ہو چھوڑ گئے اور کسی کو کافی دیر تک پتہ نہ رہا کہ اندر کیا ہوگیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ انکے باتھ روم میں نل کی ٹوٹی سر پر لگنے سے گہرا گھاؤ ہوا جس کے باعث وہ وہیں گر پڑے اور بہت زیادہ خون بہہ جانے سے انتقال ہوا۔

مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انکے زخمی ہونے کی خبر کو کیوں خفیہ رکھا گیا؟ دوئم وہ اپنے ڈرائنگ روم کے کارپٹ پر زخمی حالت میں تھے تو پھر یہ نلکا کہاں سے آگیا؟ سینیٹر کاکڑ نے محترمہ شہید کی طرح پیشگی اطلاع دی تھی کہ ان کو جانی نقصان پہنچایا جائے گا، اس سلسلے میں انہوں نے سینیٹ کے پورے ایوان کو گواہ بنا کر کہا تھا کہ ان کو اور انکے بچوں و خاندان کو نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، اگر ان کو یا ان کے خاندان کو کوئی نقصان پہنچا تو انٹیلیجنس کے دو ادارے ذمہ دار ہوں گے۔ انہوں نے اداروں کا نام تو نہیں لیا لیکن ہر شخص جانتا ہے انٹیلی جنس کے ان دونوں اداروں کا تعلق ملٹری سے ہے،۔

دھمکیوں میں یہ بھی شامل تھا کہ حقوق، جمہوریت، قوموں کے حقوق اور حق خود اختیاری کے بارے میں اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بات نہ کیا کریں۔ پاکستان میں اسپتال اور انکا عملہ حکومت خاص کر انٹیلیجنس ایجنسیوں کی ماتحتی میں کس طرح کام کرتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ اسپتال والوں نے جلد بازی میں پوسٹ مارٹم رپورٹ تیار کرکے کہہ دیا کہ موت برین ہیمریج یعنی دماغی شریان کے پھٹنے سے ہوئی ہے اور اسکے ساتھ بہت ساری باتیں پوشیدہ کردی گئیں۔

پاکستان کے عوام کسی صورت ان کی موت کو طبعی موت تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ سب پر واضح ہے کہ جب سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے توسط سے حکومت پر قابض ہوئی ہے اس وقت سے تواتر کے ساتھ اہم شخصیات یا یوں کہیئے کہ جو بھی فوج کے بارے کھل کر بات کرتی ہیں انکو پر اسرار طور پر قتل کردیا جاتا ہے اور بہت واضح پیغام دیا جاتا ہے کہ ملٹری کسی قسم کی تنقید یا اسکے راز فاش کرنے یا اس پر غلط فیصلہ کرنے والوں کو جانی نقصان پہنچائے گی۔

مثال کے طور پر؛ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ کو جنہوں نے سابق صدر جنرل مشرف کو غداری کے مقدمے میں ایک سے زائد بار پھانسی دینے کی سزائیں سنائی تو عسکری اسٹیبلشمنٹ کیلئے غصے اور انتقام کا سبب بنا، پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ کسی اور مرض میں اسپتال میں داخل تھے وہیں انکو موت سے ہم کنار کرکے اعلان کردیا گیا وہ کرونا کے باعث انتقال کرگے۔ اس طرح نہ پوسٹمارٹم ہوتا ہے نہ کسی کو میت کے قریب آنے دیا جاتا ہے۔ انکا تو قصور ہی یہ تھا کہ انہوں نے فوج کے سابق سربراہ کو ملک کا غدار ٹھرایا تھا یہ فوج کو برداشت نہ تھا۔

اسی طرح نواز شریف کو فوج کے دباؤ کے باعث لمبی سزا سنانے والے جج ارشد ملک نے جب راز کھولا کہ انہوں نے فوج اور عدلیہ کے دباؤ کے باعث نواز شریف کو سزا دی تو پھر انکو بھی اسپتال میں ڈال کر کرونا کے مرض کا سہارا لیا گیا اور وہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ابھی معاملہ ختم نہیں ہوا جب مولانا خادم حسین رضوی نے دھمکی دی کہ وہ یہ راز کھول دیں گے کہ انکے دھرنے کے پیچھے کون سے فوجی جرنیل تھے تو بس فوری فوری انکو کرونا کہہ کر اسپتال میں داخل کیا گیا اور اتنی ہی جلدی میں انکا انتقال ہوگیا۔ حالانکہ کہ وہ بہت تندرست اور مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔

ابصار عالم،مطیع اللہ جان، اسد علی طور، حامد میر، سلیم شہزاد، اور بہت سارے صحافی ایسے واقعات کی مثالیں ہیں جنہیں انٹیلیجنس ایجنسیوں نے اپنے انتقام کا شکار بنایا ہے۔ اب لگتا ہے ایک کوئی بڑا سیاسی قدم اٹھانے سے قبل ایک یا دو اہم شخصیات کو نشانہ بنایا جائے گا۔ یہ بڑا قدم کیا ہے؟ شاید اس کے تجزیے میں ہمیں اس سوال کا بھی جواب مل جائے کہ سینیٹر کو کیوں قتل کیا گیا؟

کچھ سیاسی رہنماؤں اور تجزیہ دانوں نے اس بڑے قدم کا اشاروں میں ذکر کیا ہے۔ ابھی حال میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میاں رضا ربانی نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک بڑی شخصیت کو ایک بھاری آئینی ذمہ داری دینے کیلئے آئین میں تبدیلی کی جائے گی۔ اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں کو پیغامات پہنچائے گئے کہ اگر ایسے اقدام کی حمایت نہیں کی گئی تو بھاری سیاسی نقصان اٹھانا پڑے گا۔

یہ سیاسی قدم یہ ہوگا کہ سب مل کر فوج کو سیاست میں آئینی زمہ داری یا برابر کا حصہ دیں، وہ اس طرح کہ صدر مملکت، وزیر اعظم اور آرمی چیف پر مشتمل ایک آئینی کمیٹی ہو جو پارلیمنٹ کے امور کی نگرانی کرے اور ریاستی امور میں نہ صرف تجاویز دے بلکہ فیصلے بھی کرے جنہیں عدالتیں بھی چیلنج نہیں کرسکتی ہیں۔ یعنی پارلیمنٹ سے بھی بالا ادارہ ہو جسکے فیصلوں کی پارلیمنٹ توثیق کرے گی۔ برما جسے میانمار کہتے ہیں جیسا ماڈل اپنانے کی تیاری ہے جس کے انعام کے طور پر عمران خان کو اگلے پانچ سال کی حکومت دیئے جانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں کوئی ایسی تجویز کی مخالفت کریں گی یا نہیں؟ مگر پارلیمنٹ سے ایسی تجویز منظور کرانے کیلئے یہ ضروری ہے کہ ان آوازوں کو دبا دیا جائے جو فوج کو سیاست میں کسی بھی قسم کا کردار دینے کو تیار نہیں ہیں۔ شاید لندن سے اسکی تصدیق بھی آ جائے۔ ابھی اور ایسے پراسرار واقعات آئیں گے جن میں لوگ اچانک غائب بھی ہوں گے اور قتل بھی ہوں گے۔

Comments are closed.