چین اپنا یار ہے، اس پر جان نثار ہے۔

بیرسٹرحمیدباشانی

چین کی کمیونسٹ پارٹی نے حال ہی میں اپنی تشکیل کی صد سالہ تقریبات منعقد کی ہے۔  صد سالہ جشن میں شرکت کے لیےچین نے دنیا بھر کی پانچ سو زائد سیاسی پارٹیوں کوزوم کے ذریعے شرکت کرنے اور اپنے خیالات کے اظہار کی دعوت دی۔  اتنی بڑی تعداد میں دعوت کا مطلب تھا کہ گویا دنیا بھر میں کسی قابل ذکر پارٹی کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔ اگر کوئی استشناء تھا تو وہ خود چین کی اپنی چیندہ پارٹیاں تھیں۔  لیکن اس پر کچھ زیادہ ردعمل نہیں ہوا۔  اس کی وجہ یہ عام خیال ہے کہ چین میں تو یک جماعتینظام ہے۔ یہ  درست ہے کہ چین کے اندر عملی طور پر ایک پارٹی کی حکمرانی ہے، مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ باقی پارٹیوں کا وجود ہی نہیں ہے۔

چین کے اندر کمیونسٹ پارٹی آف چین کے علاوہ بھی دوسری چند پارٹیوں کا وجود ہے۔ یہ باقاعدہ بطور سیاسی پارٹیاں ہیں، جو چین کے اندر رجسٹر ہیں۔ اور سالہا سال سے چین کی سیاست کے اندرمختلف طریقوں سرگرم ہیں۔ کچھ پارٹیاں کھلے عام اور قانونی طور پر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہیں۔ اور کئی ایک کالعدم ہیں، جو یا تو زیر زمین کام کرتی ہیں۔ یا دوسرے ممالک سے ہو کر چینی سیاست کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔ جو پارٹیاں قانونی طور پر کھلے عام چینی سیاسی نظام میں سرگرم ہیں، ان کی تعداد آٹھ  ہے۔ ان پارٹیوں  نے  باہم مل کرایک متحدہ محاذ بھی تشکیل دیا ہوا ہے۔

مگر ان پارٹیوں کی مجبوری یہ ہے کہ ان کو کمیو نسٹ پارٹی آف چین کے لیڈنگ رولیعنی رہنمائی کے کردار کو تسلیم کرکے چلنا پڑتا ہے۔ اس باب میں  دلچسب اور مفید معلومات چین بمقابلہ مغربنامی کتاب میں موجود ہے۔ یہ کتاب سن 2011 میں جان ویلی اینڈ سنز نے چھاپی تھی۔ ہیومن رائٹس واچ بھی بڑی تفصیل سے اس موضوع پر ایک رپورٹ چھاپ چکی ہے۔ اس تنظیم کا خیال ہے کہ  چین کے نظام میں ان پارٹیوں کا کردارحزب مخالف  کے بجائے مشاورتی ہے۔ لیکن ان کے وجود اور سرگرمی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں سے کچھ پارٹیوں کو چین کی نیشنل پیپلز کانگرس میں بھی شرکت کا موقع دیا جاتا ہے، جسے چین کا ایک نمائندہ ادارہ تصور کیا جاتا ہے۔

اگرچہ ناقدین کا خیال ہے کہ یہ موقع حاصل کرنے کے لیے کمیونسٹ پارٹی کی جانچ پڑتالکلئیرنس اور سفارش ضروری ہے۔ لیکن پارٹیوں کی تشکیل اور ملکی سیاست میں حصہ لینے کے حق کو چین کے آئین میں تسلیم کیا گیا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے آئین کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ کثیر الجماعتی تعاون اور مشاورت کا نظام کمیونسٹ پارٹی کی رہنمائی میں جاری رکھا جائے گا۔ ان پارٹیوں میں سب سے اہم ترین  پارٹی چائینا زی گونگ پارٹی ہے۔ یہ پارٹی کمیونسٹ پارٹی آف چین کے بعد سب سے قدیم پارٹی ہے۔ اس پارٹی کو چینی نظام کے اندر کام کرتے ہوئے تقریباً پچانویں برس ہو چکے ہیں۔ دوسری اہم ترین پارٹی چائنیز کسان اینڈ ورکرز ڈیموکریٹک پارٹی ہے۔ یہ پارٹی 1930 میں قائم ہوئی تھی، اور نوے سال سے چینی سیاست میں کسی نہ کسی شکل میں سرگرم ہے۔ اس پارٹی کے ڈیڑھ لاکھ کے قریب ممبر ہیں۔ اس کے سربراہ پروفیسر چن زو ہیں، جو مزدوروں اور کسانوں میں  کافی مقبول ہیں۔ چائینا ڈیموکریٹک لیگ بھی ایک سرگرم پارٹی ہے، جس کے تین لاکھ کے قریب ممبر ہیں۔

اس طرح دیگر پانچ پارٹیاں ہیں ، جن میں ہانگ کانگ میں سرگرم چینی انقلابی کمیٹی جیسی پارٹیاں شامل ہیں، جن کی لاکھوں میں ممبرشپ ہے اور یہ اپنے اپنے دائرے میں سرگرم ہیں۔  اس کے علاوہ کالعدم پارٹیوں کی ایک بڑی تعداد ہے، جن میں کمیونسٹ پارٹی آف چین مارکسسٹ لیننسٹ، مزدور کسان کمیونسٹ پارٹی، اور چند ایک ڈیموکریٹک پارٹیاں شامل ہیں۔ اس طرح چین میں قانونی اورکالعدم شدہ دونوں قسم کی پارٹیاں موجود ہیں، لیکن عملی سیاست میں ان کا کردار کیا ہے، یہ ایک الگ سوال ہے، جسکے کئی جوابات ہیں۔

بہرحال بات یہ ہو رہی تھی کہ صد سالہ جشن کے موقع پر زوم کے ذریعے ہونے والی عالمی کانفرنس میں ان پارٹیوں کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو ان کا حق بنتا تھا، یا جو دنیا کی پانچ سو زائد پارٹیوں کو دی گئی۔ ان پارٹیوں میں انواع و اقسام کی پارٹیاں شامل ہیں۔ ان میں اسلامی بنیاد پرستوں سے لیکر، کمیونسٹ، لبرل اور دائیں بازوں کی قدامت پرست پارٹیوں تک ہر قسم کی پارٹیاں ہیں۔ اسلام پسند پارٹیوں میں وہ پارٹیاں بھی شامل ہیں،  جن کی سیاست کا اوڑھنا بچھونا ہی اشتراکیت، کمیونزم، سوشلزم، جوچے ازم اور اس قبیل میں شامل ہر قسم کے نظریات کی مخالفت رہی ہے۔

مگر چین کی سرکاری دعوت کے بعد ان کے رویے بدل گئے اور انہوں چینی نظام ، جس کو چین  چینی طرز کا مارکسزم قرار دیتا ہے، کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے۔ اس باب میں پاکستان کی مذہبی پارٹیوں کے رہنماؤں کے خیالات کے اظہار پر مبنی وڈیوز سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں کی دلچسپی اور طنز و مزاح کا موضوع بنی ہوئی ہیں۔ لیکن اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ۔ ان مذہبی سیاسی جماعتوں کے رہنما ماضی میں چین کےکامیاب دورےکر چکے ہیں، اور چینی نظام کو قابل تقلید قرار دے چکے ہیں۔ البتہ یہ پہلا موقع ہے کہ انہوں نے چین کے اخلاقی نظام کو بھی قابل تعریف قرار دیا ہے، جو اس اخلاقیات سے متصادم ہے، جو یہ لوگ پاکستانی عوام پر نافذ کرنے کے خواب دیکھتے اور دکھاتے رہتے ہیں۔

معاشی، سیاسی اور اخلاقی نظام کے بارے میں کچھ مذہبی رہنماؤں کا یہ رخ پہلے بھی سامنے آتا رہا ہے۔ سوشلزم کے علاوہ ان کا یہ رخ سیکولرازم کے سوال پر بھی عیاں ہے۔  پاکستان میں کچھ لوگ سیکولرازم کا نام لینا قابل اعتراض فعل قرار دیتے ہیں، لیکن بھارت میں یہ لوگ اور ان کے ہم خیال و ہم مسلک سیاسی و مذہبی علما سیکولرازم کی حفاظت کے لیے جان کا نذرانہ دینے کے لیے تیار رہنے کی قسمیں کھاتے رہتے ہیں۔

چین کا جو بھی سیاسی ،سماجی اور اخلاقی نظام ہے، وہ پاکستان میں آسانی سے جگہ نہیں بنا سکتا۔ اگرچہ لولی لنگڑی ہی سہی، پاکستان میں وقفے وقفے سے ایک جمہوریت  کافی عرصے سے چلتی رہی ہے۔ ایک دفعہ لوگ جمہوریت اور اس کی برکات سے آشنا ہوجائیں تو پھر ان کو اس سے محروم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے یہاں ایک جمہوری سوشلزم کی گنجائش موجود ہے، اور یہ پاکستانی عوام کی زندگی میں فیصلہ کن تبدیلی لا سکتا ہے۔ رہا سوال چین کے سوشلسٹ نظام کا تو اس پر حبیب جالب کی ایک نظم ہی کافی ہے کہ ہمارے دانشور چین کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے  رہتےہیں، مگر جب پاکستان میں  سوشلسٹ انقلاب یا جمہوری سوشلزم کا سوال اٹھتا ہے تو یہ لوگ اس کے خلاف صف آرا ہو جاتے ہیں۔۔ جالب نے کہا تھا:۔

چین اپنا یار ہے

اس پر جان نثار ہے

پر وہاں ہے جو نظام

اس کو دور سے سلام

چین نے اشتراکیت کے ساتھ  ساتھ جدید لبرل سرمایہ داری نظام کے لیے جو گنجائش نکالی ہے، شاید یہ کچھ لوگوں کے لیے کشش کا باعث ہو کہ  ان کا خیال ہے کہ چین اشتراکیت سے نکل کر لبرل ازم کی طرف جا رہا ہے۔ مگر اس معاملے میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے نظریہ سازوں اور دانشوروں کا خیال مختلف ہے۔ ان کے خیال میں  چین کی اصل منزل  مارکس ازم کی رہنمائی میں ایک مکمل کمیونسٹ سماج کا قیام ہے۔ اور موجودہ سماجی و معاشی تشکیل   کمیونسٹ سماج کی طرف سفر کا ایک مراحلہ  یا پڑاؤہے۔

Comments are closed.