افغان صورتحال اور پاکستانی پریس

پچھلے دنوں ممتاز صحافی اعزاز سید جو کہ جنگ ، نیوز اور جیو کے لیے کام کرتے ہیں ، افغانستان تشریف لے گئے اور وہاں سے لکھی ڈائری اخبارات میں شائع ہوتی رہی۔ اعزاز سید نے افغانستان میں بہت سے حکومتی عہدیداروں سے ملاقات کی اور اس کا احوال لکھا۔ جس کے جواب میں رحمت اللہ نبیل، جو کہ نیشنل سیکورٹی ڈائریکٹریٹ افغانستان کے سابقہ ڈائریکٹر ہیں ،نے ٹوئٹر کے ذریعے اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے اعزاز سید نے جن لوگوں سے گفتگو کی اس کا عشر عشیر بھی ان کی ڈائری میں موجود نہیں ۔

لیکن اس میں اعزاز سید کا کوئی دوش نہیں۔ انھوں نے اپنے تئیں ڈائری لکھی ہوگی جسے اخبار والوں نے ناقابل اشاعت قرار دے دیا ہوگا ۔ اسی لیے میں نے لکھا تھا کہ پاکستان کے کسی بھی اخبار ، نیوز چینل یا آن لائن میگزین میں حقائق کو شائع نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی وہ آزاد صحافی جرات کر سکتے ہیں جو اپنا یوٹیوب چینل چلا رہےہیں۔بے چارے پاکستانی تو نجم سیٹھی کو ہی ایک آزاد اور غیر جانبدار   مبصرسمجھے بیٹھے ہیں۔ لیکن کچھ محب الوطن صحافی دوستوں کا اصرار ہے کہ پاکستان میں پریس آزاد ہے اور یہاں ہر کسی کو اپنی بات کہنے کی آزادی ہے۔

عبداللہ نیبل نے اپنے ٹویٹس میں لکھا ہے کہ جیو نیوز کے صحافی محترم اعزاز سید نے چند روز قبل کابل میں میرا ایک انٹرویو لیا جس میں کئی اہم دلچسپ امور زیر بحث لائے گئے۔ اعزاز سید نےبروز پیر روزنامہ جنگ میں چھپنے والے اپنے ایک کالم میں ان میں سے فقط ایک دو کا نہایت اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

۔۔۔اہم ضروری موضوعات اور حقائق کو چھوڑ کر پاکستانی فوج کا یہ پروپیگنڈہ شامل مضمون کیا ہے کہ گویا کہ افغانستان میں تربیت یافتہ کتے بھی ہندوستان کے تعلیم یافتہ ہیں۔ مجھے اعزاز اور دیگر پاکستانی صحافیوں کی مجبوریوں کا اندازہ ہے کہ وہ کیوں ایسے اہم امور کو میڈیا میں زیر تحریر نہیں لا سکتے ۔

۔۔۔اور پاکستان کے طاقتور اداروں کے خوف سے افغانستان کے متعلق ایسا مضحکہ خیز پروپیگنڈہ چھاپنے پر مجبور ہیں۔ یہ کوئی اتنا پوشیدہ راز بھی نہیں، کیونکہ پاکستانی عوام کو خوب معلوم ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں پھر ایسے صحافی آئی ایس آئی کے نامعلوم قاتلوں کی وحشت و گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں ۔

۔۔۔جن کی حالیہ مثال اسلام آباد میں نشانہ بنائے گئے نامور پاکستانی صحافی ابصار عالم اور اسد طور ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آئی ایس آئی کبھی نہیں چاہتی کہ پاکستانی عوام کے سامنے ان کے مکروہ رازوں سے پردہ اٹھے کہ جس سے عوام جان سکے کہ یہ جو دہشت گردی ہے،اس کے پیچھے ان کی ہی وردی ہے۔

میں نے اعزاز کے ساتھ پاکستانی ملٹری انٹیلجنس کا پاکستانی طالبان(تحریک طالبان پاکستان) کے قیام کے پیچھے پس پردہ اہداف و مقاصد پر بھی مفصل گفتگو کی، محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل پر بھی بات کی کہ کیوں اور کس نے اسے قتل کیا؟ پاکستان کے بعض فوجی حضرات کا اسامہ بن لادن سےخفیہ رابطہ کا بھی ذکر کیا۔

اس کے علاوہ یہ گفتگو بھی رہی کہ عمران خان کو آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل شجاع اپنے کن مقاصد کے حصول کے لئے حکومت میں لایا اور اب اس کا جانشین جنرل فیض حمید اس کی کیوں پشت پناہی کررہا ہے؟

اس طرح بے شمار دیگر اہم موضوعات اور حقائق پر ہم نے سیر حاصل گفتگو کی مگر ان تمام اہم موضوعات اور حقائق سے صرف نظر کر کے اعزاز سید کے کالم میں پاکستانی ملٹری کا یہ پروپیگنڈہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا کہ گویا افغانستان میں تربیت یافتہ کتوں کو بھی ہندوستان نے تعلیم دی ہے۔
پاکستان کے عوام کو چا ہیے کہ حقائق کو سمجھے اور افغانستان کے متعلق اپنے سوچ کے زاویوں میں تغیر لائے۔ اگر کوئی پاکستانی اخبار ایسے مسائل پر حقائق چھاپنے کی جرات کرسکتا ہے تو میں حاضر ہوں کہ یہ اہم حقائق ایک مضمون کے ذریعے انھیں لکھ کر بھجوا دوں۔

رحمت اللہ نبیل کے ٹوئٹر سے مزید رہنمائی لی جا سکتی ہے۔

@RahmatullahN

Comments are closed.