کرونا کے دنوں میں محبت


عاتکہ رحمان

ترجمہ: لیاقت علی

دسمبر 2019 میں نور سجاد ظہیر جواہر لعل یونیورسٹی دہلی کے کیمپس میں تھیں جب انھیں لندن میں مقیم یاور عباس کی ٹیلی فون کال آئی تھی۔’میں ایک مظاہرے میں شریک ہوں۔میرے ارد گرد بہت شور ہے۔کیا ہم بعد میں بات کرسکتے ہیں؟‘ ’کیا آپ (مظاہرین سے) چند منٹ کے لئے تھوڑ ا دور جاسکتی ہیں۔میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں‘ یاور عباس نے فون پر کہا۔ کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی؟‘ نورسجاد ظہیر کے لئے اتنی دور سے موصول ہونے والی شادی کی یہ تجویز حیران کن نہیں تھی۔

بائیں بازو کے نظریات کی حامل مصنف، دانشور اور عورتوں کے حقوق اور آزادی کی پرجوش علم بردار نور ظہیر کے لئے جواہر لعل یونیورسٹی میں جاری مظاہرہ اس کی زندگی بھر کی جدوجہد کا حصہ تھا۔ نور ظہیر اپنے نظریات کے اظہار میں انتہائی نڈر، صاف گو اور بے باک سمجھی جاتی ہیں۔ تاہم جس بات نے ان کے دوست احباب کو حیران اور ششد ر کیا وہ یہ تھی کہ ان سے شادی کرنے کے خواہش مند شخص کی عمرکم و بیش سوسال تھی۔

چند ماہ بعد نور ظہیر بھارت سے، جہاں انھوں نے اپنی ساٹھ سال سے زائد عمر کا زیادہ تر حصہ گذارا تھا یاور سے شادی کرنے کے لئے انگلستان چلی گئیں۔مارچ 2020 میں جب انھوں نے ان دونوں نے شادی کی تو پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا نے اسے شہ سرخی بنایا۔ ایک ایسے وقت میں جب کرونا کے باعث لاکھوں افراد مایوسی، تتہائی اور ذہبی دباو کا شکار تھے نور ظہیر اور یاور عباس کی شادی خوشی اورمسرت کی خبر بن گئی۔

شادی کے ایک سال بعد گذشتہ ہفتے جب میں انھیں جنوب مغربی لندن میں واقع ان کے اپارٹمنٹ میں ملی تو یاور اور نور محبت کی شادی سے جنم لینے والی کامل مسرت اور سرشاری کی مجسم تصویر نظر آئے۔ گو ان کی شادی کو ایک سال بیت چکا ہے لیکن ان کی ایک دوسرے سے محبت کم ہونے کی بجائے روز بروز بڑھ رہی ہے۔ٹوکری میں تازہ پھول رکھے ہوئے تھے جو یاور نور کے لئے لے کر آئے تھے کیونکہ’نور کو یہ بالکل یاد نہیں کہ یاور کسی کام سے گھر سے باہر گئے ہوں اور اس(نور) کے لئے کوئی چھوٹا سا تحفہ نہ لے کر آئے ہوں‘۔یاور جانتے ہیں کہ نور کو ڈینش پیسٹریز پسند ہیں۔

سال گذشتہ انھوں نے طویل واک کرتے، کتابیں پڑھتے،لکھتے اور فلمیں دیکھ کر گذارا۔جب سے انگلستان میں کووڈ 19 کی بدولت عائد پابندیاں ختم ہوئی ہیں انھوں نے دوست احباب سے میل جول شروع کیا ہے گذشتہ سال ان کی شادی کے موقع پر ان کے ایک دوست نے ٹیلی فون پر بتایا تھاکہ ’شادی کے موقع پر وہ کس قدر خوش تھے، نوجوان شادی شدہ جوڑوں سے بھی زیادہ‘۔ میرے پاس ان دونوں سے پوچھنے کے لئے بہت سے سوالات تھے۔آخر وہ کونسی بات تھی جس نے انھیں اس پیرانہ سالی میں شادی کرنے پر آمادہ کیا تھا؟اور اس سے بھی اہم سوال نور ظہیر سے تھاکہ ایک سو سال کے بوڑھے شخص سے شادی کرنا مشکل فیصلہ تھا؟

فلم میکر اور صحافی یاور عباس کا تعلق بھارت کی ریاست اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنو سے ہے۔انھوں نے برٹش انڈین آرمی سے بطور فوٹو گرافر اپنی پیشہ ورانہ زندگی کاآغاز کیا اور انھیں برما میں تعینات کیا گیا تھا۔جب جاپان نے 1945 میں اتحادی افواج کے سامنے ہتھیار ڈالے تو اس ایونٹ کی تصاویر بنانے والے فوٹو گرافرز میں یاور عباس بھی شامل تھے۔ وہ بی بی سی اردو سروس کے ساتھ 1950سے 2009 کے درمیانی سالوں میں وقفے وقفے سے وابستہ رہے۔ یاور اور نور کے اپنے اپنے بچے ہیں۔ نور کی ان کے مرحوم شوہر ابھیشیک سے تین بیٹیاں ہیں جب کہ یاور کے بھی بچے ہیں۔ ان کی بیوی 12 سال قبل وفات پاگئی تھیں۔

نور اور یاور کی گذشتہ سال الہ آباد یونیورسٹی میں منعقد ہونے والے کہانی فیسٹول میں پہلی دفعہ ملاقات ہوئی تھی۔ یاور نے اس کہانی میلے میں بطور مقرر شرکت کی تھی۔یاور عباس نے نور ظہیر کی کتابوں پر گفتگوکی تھی۔ سیشن کے اختتام پر انھیں ایک دوسرے سے گفتگو کا موقع ملا تھا۔ ’لڑیچر کی حدتک میں نے انھیں بہت با علم پایا‘ نور نے اپنی پہلی ملاقات کا تاثر بتاتے ہوئے کہا۔’اردو ادب میں تنقید عملی طور پر مفقود ہے۔۔۔ جو ہے وہ مستعار ہے۔‘ جنوبی ایشیا میں اس(تنقید) کا ارتقا نہیں ہوا۔لیکن (یاوراس حوالے سے) بہت اوریجنل تھے۔ وہ تنقید کے سبھی ازموں سے پوری واقفیت رکھتے تھے اور کھلے ذہن سے چیزوں کا تقابل کرتے تھے۔ اردو شاعری سے ان کی واقفیت بھی متاثر کن تھی‘ الہ آباد میں ہماری ملاقات اگرچہ بہت مختصر رہی لیکن اسے آپ دوستی کاآغاز کہہ سکتے ہیں۔

وقتاً فوقتاً ای میلز کا تبادلہ ہوتا رہا اور یاور جب بھی بھارت آتے تو نور کو ٹیلی فون ضرور کرتے تھے۔دونوں کے مابین تعلق اس وقت مضبوط ہوا جب اکتوبر 2019 میں نورظہیر کو فیض امن میلہ میں بطور مقرر شرکت کے لئے لندن مدعو کیا گیا تھا۔ نور کے لند ن پہنچے سے قبل یاور نے فیض میلہ کی انتظامی کمیٹی جس کے پاس فنڈز بہت محدود تھے، کو مطلع کردیا تھا کہ نور ان کے ہاں قیام کریں گی۔ او ر نور نے لندن قیام کے دوران یاور کے ہاں ہی قیام کیا تھا۔ ’یہی وہ موقع تھا جب ہم ایک دوسرے کے قریب ہوئے۔ ہمارے مابین طویل گفتگو کے کئی سیشن ہوئے۔یاور نے اپنی فلموں بارے بتایا جو میں نے ان سے ملاقات سے قبل دیکھی تو تھیں لیکن تسلسل سے نہیں دیکھی تھیں۔ہم ہر رات اکٹھے ان کی بنائی فلمیں دیکھتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فلم دیکھتے ہوئے یاور سوجایا کرتے تھے۔

لندن کا یہی دورہ نور اور یاور کے مابین گہرے تعلق کا باعث بنا تھا اور اسی بنا پر نور نے مہینوں بعد جواہر لعل یونیورسٹی کیمپس میں ہونے والے مظاہرے میں شرکت کے دوران یاور کی طرف سے ٹیلی فون پر شادی کی پیش کش کو قبول کرلیا تھا۔ ’میں حقیقی معنوں میں یاور کے ساتھ رہنا چاہتی تھی۔2019 کے وہ سات دن جو میں نے اپنے قیام لند ن کے دوران یاور کے ساتھ گذارے تھے، کے دوران میں نے یاور کو بہت تنہا پایا تھا۔وہ بہت کچھ بتانا اور شیئر کرنا چاہتے تھے لیکن یہ سب کچھ بتانے اور شیئر کرنے کے لئے کوئی ساتھی نہیں تھا۔اور یہی وہ بات تھی جس نے مجھے یاور کی شادی کی پیش کش کو منظور کرنے پر مائل کیا تھا‘ ان کے مابین تعلق بھارت میں ہونے والی سیاسی اور سماجی تبدیلیوں پر بحث و تمحیص کے دوران قائم ہوا تھا۔

جب سے مودی حکومت برسراقتدار آئی تھی وہ بہت اداس تھے۔اور تو اور ان کی ای میلز بھی اداسی کا رنگ لئے ہوتی تھیں۔وہ کہتے تھے کہ جب مودی برسر اقتدار ہے میں بھارت نہیں آوں گا۔ مودی حکومت کی پالیسوں اور نور کی طرف سے ان کی مخالفت کی بنا پر انھیں بہت سی مشکلات اور مسائل کا سامنا تھا۔ اگست 2019 میں جب مودی سرکار نے کشمیر کو خصوصی سٹیٹس سے محروم کیا تو نور نے اس کی بھرپور مخالفت کی تھی جس کی بنا پر مودی سرکار نورکے خلاف بڑی سرگرمی سے متحرک ہوگئی تھی۔یہی وہ صورت حال تھی جس میں نور نے بھارت چھوڑ کر لندن میں یاور کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔

بھارت میں ان کی زندگی کو مشکل بنادیا گیا تھا بالخصوص اس رپورٹ کے بعد جو انھوں نے آل وویمن فیکٹ فائینڈنگ گروپ کے رکن کے طورپر کشمیر میں لاک ڈاون کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں تیار کی تھی۔’کشمیر رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد بھارت میں میرے لئے بہت مشکل صورت حال پیدا ہوچکی تھی اور مجھے سیاسی طور پر ہراساں کیا جارہا تھا‘۔ جب یاور نے شادی کی پیش کش کی تو پہلا سوال یہ پیدا ہوا کہ انگلستان میں وہ کریں گی کیا۔ ’میں حال ہی میں سارک کے کلچرل کوآرڈی نیٹر کی حیثیت سے ریٹایئر ہوئی تھی۔اور یہ بھی سوال درپیش تھا کہ میں برطانوی معاشرے میں مستقل طور پر خود کو ایڈجسٹ کرپاوں گی؟۔مجھے اس بات نے سوچنے پر راغب کیا کہ میں انگلستا ن میں رہتے ہوئے اپنی بساط کے مطابق ایسا کچھ کرسکتی ہوں جس کی بدولت عوام اپنے اردگرد ہونے واقعات اور درپیش صورت حال کے بارے میں سوالات اٹھاسکیں۔

گذشتہ سال نور نے یاور کی خود نوشت لکھنے میں مدد کی۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ ان کہانیوں کو فوکس کریں جو وہ لوگوں سنانا اور بتانا چاہتے ہیں اور ان چیزوں کی فہرست مرتب کریں جن کو جاننے میں ان کے خیال میں لوگوں کو دلچسپی ہوسکتی ہے۔ میں جانتی ہوں کہ انھیں شاعری اورفلم سے محبت ہے لیکن ان کی دوسری چیزوں بارے بھی جانتی ہوں۔ ان کی پسند ناپسند، ان کے دوست، ان کے رومانس، ہم ہر چیز بارے گفتگو کرتے ہیں میں ایک انسان کے طور پر انھیں پسند کرتی ہوں‘ نور اور یاور دونوں کی صحت بہت اچھی ہے اور بہت متحرک ہیں۔ ’وہ واک کرنا پسند کرتے ہیں ابھی تک ڈرائیونگ کرتے ہیں اور بھولتے تو وہ بالکل بھی نہیں ہیں‘ ’نور کہتی ہیں کہ یاور میں حس مزاح بہت زیادہ ہے جو ان کے لئے ان کی خوبصورتی اور دماغ سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ وہ خود پر ہنسنے کا حوصلہ رکھتے ہیں‘ ہم نے شادی بطور انسٹی ٹیوشن کے بارے میں گفتگو کی۔ ہم نے ملالہ کے اس انٹرویو جس میں اس نے شادی بارے سوال اٹھایا تھا،پر بھی تبادلہ خیال کیا جس پر پاکستان میں بہت شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔

نورکہتی ہیں کہ ملالہ کچھ بھی کہے اس کے خلاف قدامت پسند اور رجعتی حلقوں کا ردعمل اچنبھا نہیں ہے۔ حتی کہ اگر وہ یہ بھی کہتی کہ وہ شادی کررہی ہے تو اس پر ان حلقوں کا ردعمل منفی ہوتا۔ شادی بارے بات کرتے ہوئے نور نے کہا کہ اچھا یا برا کے الفاظ قورمے کے لئے ہوتے ہیں نہ کہ شادی کے بارے میں۔ ’ایک تعلق آپ کو خوشی دیتا ہے یا یہ نہیں دیتا‘۔ یاور جو بہت رومانٹک ہیں ’فطرت نے ہم دونوں ہمیں ایک دوسرے قریب لانے کے لئے سازش کی تھی۔میں شادی بارے نہیں سوچ رہا تھا۔ میری پہلی بیوی بہت سال قبل فوت ہوچکی تھی اگر مجھے شادی کرنا ہوتی تو یہ کام کئی سال پہلے کرچکا ہوتا۔نور کے ساتھ شادی تو فطری مجبوری تھی۔میں نور کے ساتھ بہت خوش ہوں‘ یاور نے کہا۔

نوبیاہتا جوڑے نے جب مجھے خدا حافظ کہا تو میں یہ سوچے بغیر نہ رہ سکی کہ چند اب سے چند سال بعد نور اکیلی ہوسکتی ہیں لیکن اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی انھوں نے یاور سے شادی کی ہے۔’میرا ہمیشہ یہ یقین رہا ہے کہ اگر زندگی میں ایک دن بھی اچھا ملے تو اسے بھرپور طور گذارنا چاہیے‘ ٭٭

بشکریہ روزنامہ ڈان

Comments are closed.