کاپرنیکس کی جمالیاتی گستاخی

شفیق احمد

جدید انساں شک کرنے والا ہے۔ شک کی خاصیت یہ ہے کہ شک عقیدت کی دیوار کو گرا دیتی ہے۔ بقول جون ایلیاء“شک ذہن کی عبادت ہے “اس عبادت کا آغاز قرون وسطی کے ریاضی داں اور فلکیات داں کوپرنیکس سے ہوتا ہے۔ 

پندرہویں صدی کے اوائل میں جو فکری وروایتی ماحول تھا اس میں زمین کائنات کا مرکز تھی اور عمومی تصور یہ تھا کہ سورج ، چاند اور دیگر سیارے زمین کے گرد گھومتے ہیں۔ لیکن کوپرنیکس نے اپنی علمی تحقیقات سے یہ ثابت کردیا کہ زمیں تو چھوٹا سا سیارہ ہے جو سورج کے گرد گھومتا ہے۔ 

کاپرنیکس نے اپنی کتاب

 (On the Revolutions of the Celestial Spheres) 

سے ایک انقلاب برپا کردیا۔ ایک خوبصورت صداقت جو مطمئن کر دینے والی ہو جب شک کے شعور سے ہو کر فکر کی بے رحم لہروں کی نظر ہوتا ہے۔ یقینا فکر طلب ہے ایک دنیا جو ہمارے کرہ ارض اور انسان کے گرد گھوتی تھی لامحدود خلاؤں کا سیربین بن گیا۔ جس میں ہماری زمین تیرتے ہوئے نیبولا میں ایک عارضی اور بے قیمت زرہ معلوم ہوتا تھا۔ فکر کا یہ سلسلہ اور نتائج کا یہ تجزیہ شک کے سلسلےکی مرہوں منت ہے جس نے جمالیاتی تسکین کو فقط سراب بنا دیا۔ 

ول ڈیورنٹ اپنی کتاب “ انسانی تاریخ کے عظیم ترین ذہن اور نظریات “ میں کاپرنیکس کو جدیدیت کا بانی اور سیکولرازم کا مبدا قرار دیتا ہے۔ یہ اتنا گہرا مفکر تھا کہ بنی نوع انساں کے بہشت کی تمنا کو یوٹوپیا میں بدل دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ دیوتاوں نے انسان کو بالغ کرکے خود اپنا ذمہ دار بنا دیا۔  آسماں سے زمین تک کایہ سفر کتنا دلچسپ ہے بقول جون ایلیاء 

آسمانوں میں گر پڑے یعنی 

ہم زمین کی طرف اڑاں میں تھے 

یوں زمین جو ایک نجات بخش زیارت گاہ تھیں  خدا کا پائیداں تھا ایک بے وقعت سے سورج کا بے وقعت سا سیارچہ میں بدل گیا۔ اس مفکر اعظم نے  حضرت یعقوب کے بنے آسمانی سیڑھی کو اپنے تنقیدی فکر سے توڑ ڈالا اورجمالیاتی گستاخی کا مرتکب ہوا۔ عقیدت اور فکر کی یہ کشمکش اب  بھی جاری و ساری ہے۔ کاپرنیکی انقلاب سے انساں اپنی بلوغت پانے پر مائل تھا۔ ہر چیز بدل گئی۔۔۔۔۔ فکری وسعتیں، سماجی قدریں، انسانی رویئے، وقعتیں، قسمتیں اور خدا۔ 

One Comment