ضیا الحق یا پاکستان سے زنا با الجبر

حسن مجتبیٰ

ظل سبحانی‘ جنرل محمد ضیا‏ء الحق کا یہ دور وہ ’کمبل‘ ہے جس کو پاکستان تو چھوڑ چکا لیکن وہ آج تک پاکستان کو نہیں چھوڑتا۔مارشل لا بھنگ‘، ان دنوں پنجاب سے بھونے ہوئے پتوں والی بھنگ کو کہا جاتا تھا۔اس کا نشہ انقلاب کے نشے سے زیادہ زور آور تھا۔

مجہے نہیں معلوم کہ حیدرآباد سندھ میں پکے قلعے کے صدر دروازے پر لگا ہوا ضیاءالحق کا کٹ آؤٹ اب بھی موجود ہے یا نہیں لیکن وہاں ایک ’قیوم چریا‘ نامی شخص ضیاالحق کا زبردست مداح تھا جو سنہ1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں ایم پی اے بھی بنا۔ اس نے کہا تھا کہ اگر جنرل ضیاء نے ملک سے مارشل لا اٹھا دیا تو وہ اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دے دے گالیکن ہنسی بھول جانے والے اس عہد میں ہنسنے کی جو چیزیں ہوتی تھیں وہ قیوم چریا کی تقریریں ہوا کرتی تھیں۔

نیاز سٹیڈیم میں کالے خان کو چینی کی بلیک مارکیٹنگ کے الزام میں سرعام کوڑے لگائے گئے جسے دیکھنے کے لیے ہزاروں لوگ آئے اور انہوں نے یہ مناظر بھی ویسے ہی دیکھے جیسے وہ وہاں کرکٹ کے میچ دیکھا کرتے تھے۔

سٹیڈیم میں ٹنگی ٹکٹکی پر اوندھےمنہ شلوار گھٹنوں تک اتری ہوئی۔ کالے خان کے منہ کے آگے لاؤڈ سپیکر فٹ کیے گئے تھے اور جلاد جب اسے کوڑ ے مارتا تو کالے خان کی چیخیں کسی ذبح ہوتے ہوئے بکرے کی رونگٹے کھڑے کرنے والی آواز کی طرح سارے سٹیڈیم میں پھیل جاتیں۔ لوگ اس پر ’نعرۂ تکبیر‘ ’مرد مومن مرد حق، ضیاء الحق‘ اور ’اسلام زندہ باد‘ کے نعرے بلند کرتے۔

کہتے ہیں کہ کالے خان اور اس وقت کے مارشل لا انتظامیہ کے افسر کی رشوت کی رقم پر آپس میں نہیں بنی تھی۔ پر نانگو لین کوٹری کے میخانے میں چرس کی چلم پیتے ہوئے ’فقرا‘ کہتے کہ ’تھانیدار غلام علی خان نے کیس کے کاغذات ہی ایسے بنائے ہیں کہ کالے خان چھوٹ ہی نہیں سکتا۔

کالے خان تو کیا صحافیوں سے لیکر نابینا عورت تک سب کو کوڑے لگائے گئے۔ ایسا لگتا تھا کہ پورے ملک کو ’تو کہ ناواقفِ آداب غلامی ہے ابھی‘ اور کوڑوں کی تھاپ پر رقص سکھایا جا رہا تھا۔

بس شیما کرمانی ایک اسی عورت تھی جس نے سچ مچ میں رقص کی جرات کرلی تھیکارٹونسٹ فیکا تھا جو ضیاءالحق کے کارٹون بنایا کرتا تھا۔ میں نےخود تو اسکے منہ سے نہیں سنا لیکن مجھے ایک دوست بتا رہا تھا کہ ضیاء الحق کے مرنے پر فیقا نے کہا ’میرے کارٹونوں کے لیے کیریکٹر مرگیا۔

گلیاں تو پانچ جولائی 1977 کی شب سے ہی سونی ہوچکی تھیں لیکن ان میں کوئی کوئی مرزا یار پھرنے کی ہمت کرتا تھا۔ پنڈی سے مری بریور ی روڈ تو اس سے بھی پہلے بند ہوچکی تھی۔ کہتے ہیں چار جولائی کو اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے میں امریکہ کے یوم آزادی کے موقع پر دیے جانے والے استقبالیے میں چیف آف آرمی سٹاف ضیاء الحق موجود نہیں تھے۔ وزیر اعظم بھٹو نے اپنے سٹاف سے پوچھا تو بتایا گیا کہ وہ کہیں مصروفیت کی وجہ سے شریک نہیں ہوسکے۔

پنڈی لگی وینی آں میں پنڈی لگی وینی آں

میڈا کم سنیارے نال

ماہی گلاں کرے میں سنڑاں سہارے نال

پنڈی میں پیدا ہونے والا میرا دوست خاور مہدی اس پر کڑھتا ہے کہ بہت سے غیر واقف لوگ پنڈی کو صرف جی ایچ کیو، جرنیلوں، کرنیلوں، ٹرپل ون، اور سازشوں کے حوالوں سے کیوں جانتے ہیں۔ وہ کہتا ہے راولپنڈی بڑے بڑے جگرے والےلوگوں اور محنت کشوں کا شہر ہےان دنوں میری لینڈمیں رہنے والے خاور سے میں نے پاکستان میں ضیاءالحق اور ان کے مارشل لاء پر اسکی اپنی یاد داشتیں پوچھیں تو اس نے کہا: ’ایک عجیب قسم کا احساس زیاں تھا۔ایک ایسا عہد جو میری عمر کے لڑکے لڑکیاں انتظار اور ملنے میں گذار رہے تھے اور جسے میں نے پولیس سے چھپتے گذار دیا۔ میرے کپڑ ے پنڈی کی دیواروں پر مارشل لا مخالف نعرے لکھتے سیاہی کے دھبوں اور رنگوں میں رنگے ہوتے تھے۔ لیکن مجھے اسپر کوئی پچھتاوا نہیں۔ میں نے اپنا کام کیا۔

اور پھر ملک میں اٹھنے والی حکومت مخالف تحریکوں کی شروعات کرنے والے اپنے ’گورڈن کالج‘ کے دنوں میں گم ہو گیاراجہ انور، ’چاچا‘ صفدر ہمدانی (اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی)، شیخ عبدالرشید (موجودہ وزیر نہیں بلکہ اپنے دور کا ایک اور طالبعلم رہنما جو جب جیل سے رہا ہوا تو اسکا بھٹو سے بھی بڑا استقبال ہوا تھا) خود موجودہ وزیر شیخ رشید احمد۔

ضیاء الحق کےانہی دنوں میں لندن میں جلاوطن بینظیر بھٹو کے اپارٹمنٹ کے دروازے پر دستک ہوئی تو دروازہ کھلنے پر وہاں پنڈی کی ایک لڑکی کھڑی تھی اور وہ تھی ناہید خان جس سے بینظیر کی پہلے کوئی ملاقات نہیں تھی۔ یہ اپارٹمنٹ جہاں نیر حسین ڈار، جام صادق علی، وکٹوریا شیفیلڈ، بشیر ریاض اور بھٹو برادران ہوا کرتے تھے۔ جریدہ اور پمفلٹ نکالے جاتےتھے۔

نیر حسین ڈار مجھے گزشتہ دنوں شکاگو میں بتا رہے تھے کس طرح وہ ضیاءالحق کے دنوں میں چھپتے ہندستان سے لندن پہنچے تھےپاکستانی سیاسی جلاوطنوں کی ایک پوری نسل ہے جو دنیا کے بہت سے ملکوں میں پھیلی ہوئی ہےاب وہ ان ملکوں کی ہو گئی ہے۔

مجھے اب کینیڈا میں رہنے والے اسلام آباد کے ایک سابق استاد بتا رہے تھے کہ کس طرح ضیاءالحق کے پاکستان میں انہوں نے غیر ملکیوں سے ہنگاموں میں لوٹی ہوئی ولایتی وہسکی کی بوتل جمعیت کے ایک پرجوش کارکن طالبعلم سے پچاس روپے میں خریدی تھی۔

Comments are closed.