پنجاب اپنے وسائل کیسے استعمال کرتا ہے؟

خالد محمود

سنٹرل پنجاب یا بالائی پنجاب کے باسی قدرتی وسائل کے سفّاک صارفین ہیں۔ ملائیت،کٹر پنتھی اور مرکزی قیادت نے صارفانہ ذہن کی تیاری پر بڑی محنت کی ہے۔ ان اضلاع میں زیرِ زمین پانی کم گہرائی اور پہاڑوں پر گلیشئیر کے نزدیک ہونے کی وجہ سے ہلکا اور میٹھا ہے۔بڑے پیمانے پر دیہات سے شہری علاقوں کی طرف آبادی کی منتقلی،اور اس کے شہروں کے بے ہنگم پھیلاؤ،ناقص اور خستہ حال سیوریج پائپ لائینز کی وجہ سے اب ان کے پانی میں انسانی فُضلے کے جراثیم کثرت سے پائے جاتے ہیں۔اسی وجہ سے یہاں پبلک ہیلتھ کے گھمبیر مسائل ہیں۔

ملک کے کئی شہروں میں واسا والے مسلسل پانی کا بِل بھیجتے ہیں اوروصول بھی کرتے ہیں مگر پینے کے لئے صاف پانی جو جراثیم سے پاک ہو اس کی سپلائی بہتر بنانے سے معذور ہیں۔گٹروں کا غلیظ پانی ان پائپوں سے گزرتا ہے جو اب ریت کی تہہ میں تبدیل ہو چکے ہیں۔اور یہی گندہ پانی زمین کے اندر دور تک سرایت کر چکا ہے۔

یہاں ہر گھر میں واٹر پمپ موجود ہے۔ان گھروں میں صفائی کی غرض سے بار بار فرش اور قیمتی گاڑیوں کی دھلائی کے لئے پانی کے پائپ کو کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے جس سے گھروں میں،برسات کے موسم میں بھی نمی اور سِل کا مسلسل راج رہتا ہے۔بالٹی میں پانی بھر کے فرش کو ڈیٹول ملا کے ماپ کیا جا سکتا ہے،پونچھا جا سکتا ہے مگر نہیں یہاں بے دردی سے کھلا پانی چھوڑ کے سارے گھر کو بار بار دھویا جاتا ہے۔ان لوگوں کو ذرا بھی احساس نہیں کہ ملک کے ایسے بے شمار اضلاع ہیں جہاں پینے کا میٹھا پانی آسانی سے میسر نہیں ہے۔وہاں کا زیرِ زمین پانی کھارا یا کڑوا ہوتا ہے۔چند کنستر یا گھڑے دور سے بھر کے لائے جاتے ہیں اور اسی پانی سے دن بھر گذارا کرنا پڑتا ہے۔

یہ اس خطے سے کم ہی باہر نکلتے ہیں اور انہیں باقی ماندہ ملک کے باسیوں کی مشکلات کا کوئی ادراک نہیں ہوتا ہے۔یہی خود کو دوسرے صوبوں سے زیادہ محب وطن سمجھتے ہیں۔اتنے سنگدل لوگ ہیں کہ قربانی کے جانور کو اپنی دہلیز کے اندر ذبح کر کے اس کے خون کو سکریچ کر کے کوڑے والوں کے حوالے نہیں کیا بلکہ پمپ چلا کر جمے ہوئے لوتھڑوں سمیت گٹروں میں بہا دیا ہے جس سے شہروں کی تنگ گلیوں میں تعفن پھیلا ہوا ہے۔

ان کی طویل خاموشی اور وفاق سے اپنے حصے کے فنڈز کی واپسی کا نہ تقاضا کرنا انہیں کئی درپردہ سازشوں کا حصہ بنائے رکھتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی مادری زبان اور بولی کی بجائے اوپر سے لادی گئی اُردو زبان کے لٹھ بردار محافظ ہیں۔یہ چاہتے ہیں کہ دوسری قومی زبانوں کے ساتھ بھی اُن کی صوبائی حکومتیں وہی برتاؤ کریں جو تخت لہور یا پنجابیوں نے اپنی زبان پنجابی سے کیا ہے۔

میرے ایک دوست طنز سے کہتے ہیں کہ پاکستان کا ساراقرضہ بھی انہی اضلاع کے باشندوں کے سر ہے۔یہی وہ لوگ اور طبقات ہیں جو اپنے بچوں کو مادری زبان میں تعلیم دینے کے شدید مخالف ہیں۔ان میں اور بنگالیوں میں یہ ایک بنیادی فرق تھا جو آج تک قائم ہے۔انہوں نے اردو زبان کو مسترد کر دیا تھا اور تعلیم آج بھی بنگالی زبان میں دی جاتی ہے۔ان کی معاشی اصلاحات کی وجہ سے ان کا گروتھ ریٹ خطے کے تمام ممالک سے زیادہ ہے۔آج بنگلہ دیش کا ٹکّا ایک ڈالر کے مقابلے میں 85 پر کھڑا ہے۔

عروس البلاد میٹروپالیٹن کراچی ہو یا لاہور،بلدیاتی اداروں کو سماج کا عضوِ معطل بنا دیا گیا ہے۔ گئے وہ دن، جب گھروں اور چھتوں پر بلدیہ کی ٹیمیں جراثیم کش سپرے کیا کرتی تھیں۔پانی کے جوہڑوں پر مچھر وں کے لاروے ختم کرنے کے لئے سپرے ہوا کرتا تھا۔پانی کی ٹینکیوں اور کنووں میں لال دوا اور کلورین ملائی جاتی تھی۔سڑکوں کے کنارے سایہ دار درخت ہوا کرتے تھے اور چھوٹے قصبوں اور شہروں میں ماشکی سڑکوں پر گرد بٹھانے کے لئے چھڑکاؤ کیا کرتے تھے۔

کوئی بھی مین سٹریم سیاسی پارٹی بلدیاتی حکومتوں کی بحالی کے لئے پُر جوش اور ثابت قدم نہیں ہے۔ موجودہ بندوبست نے تین ہی سال میں ملک کو بڑی تیزی سے پبلک اسٹیٹ سے کارپوریٹ اسٹیٹ میں بدل دیا ہے۔

Comments are closed.