پاکستان او آئی سی کانفرنس سے کیا حاصل کرنا چاہتا تھا؟

اتوار کو اسلام آباد میں، افغان عوام کی امداد کے لیے بلائی جانے والی اوآئی سی کانفرنس کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوگئی۔ پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی افغان عوام ایک شدید معاشی و غذائی بحران کا شکار ہیں۔ لہذا ہمیں افغان مسئلے پر سیاست کرنے اور طالبان کے طرز سیاست کو علیحدہ رکھ کر انسانی ہمدردی کے طور پر ان کی مدد کرنی چاہیے۔پاکستان کا کہنا ہے کہ افغانستان کے بینکنگ چینل کو بحال کیا جائے۔ امریکہ اور عالمی اداروں نے افغانستان کے دس بلین ڈالر منجمد کررکھے ہیں اسے فوری طور پر بحال کیا جائے۔

مبصرین کے مطابق اس کانفرنس کی ناکامی کی ایک وجہ آو آئی سی کے ممبر ممالک کے آپس میں گہرے اختلافات کا ہونا بھی ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس کانفرنس کا محرک سعودی عرب تھا جو آج کل عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہے جبکہ اس کے مقابلے میں قطر بہت زیادہ فعال کردار ادا کررہا ہے۔ پاکستان نے بھی اس موقع پر ایک فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے  جس  میں کتنی رقم اکٹھی ہوگی اس کا ابھی کوئی اعلان نہیں ہوا۔

یاد رہے کہ اکتوبر 2021 کو یورپی یونین نے افغان عوام کے لیے ڈیڑھ بلین ڈالر کی رقم سے فنڈ قائم کیا تھا۔ اور اسی رقم سے ورلڈ فوڈ پروگرام، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور یونائیٹیڈ نیشن کے مختلف ادارے افغان عوام کے لیے امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور افغانستان کے کئی حصوں میں طالبان کے رویے کی وجہ سے امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ پیش آتی ہے۔ عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ کئی علاقوں میں امدادی اداروں میں مقامی خواتین کو کام نہیں کرنے دیا جاتا۔۔ اور کئی جگہ امداد لوٹ لی جاتی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان سر توڑ کوشش کررہا ہے کہ کسی طرح امریکہ سمیت ترقی یافتہ ممالک افغانستان کو تسلیم کریں اور اس کانفرنس کا مقصد بھی یہی تھا۔ پاکستانی حکومت کا مطالبہ ہے کہ افغان عوام کی امداد کے لیے ضروری ہےکہ افغانستان کا بینکنگ چینل بحال کیا جائے ۔ جس کا بلواسطہ فائدہ پاکستانی ریاست کو بھی ہے اور ماضی کی طرح امدادی رقوم پاکستانی بینکنگ چینلز کے ذریعے تقسیم ہو۔

واشنگٹن ڈی سی میں ذرائع کے مطابق اگرامریکہ، افغانستان کے دس بلین ڈالرریلیز کربھی دے تو یہ یہ چند ماہ میں خرچ ہوجائیں گے اور افغانی پھر پاکستانی ریاست کی طرح جھولی پھیلائے بیٹھے ہونگے۔ افغان حکومت نے دوحہ معاہدے میں جن نکات پر وعدے کیے تھے اس پر عمل درآمد کیا جائے ۔ اگر افغان حکومت ترقی یافتہ ممالک سے دوطرفہ اور دوستی  کے تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے تو اسے  دوحہ معاہدے کی روشنی میں  ایک واضح معاشی و سیاسی پروگرام کا اعلان  کرنا چاہیے۔

ایک سابق سفارتکار کا کہنا ہے کہ ایک ایسا ملک، جو دنیا میں نہ صرف سفارتی تنہائی کا شکار ہےبلکہ دہشت گردوں کی حمایت کرنے پر معاشی پابندیوں کا شکار ہے۔ اور جس کی اپنی معیشت دیوالیہ پن کا شکار ہے، اس نے اپنے حالات کو بہتر کرنے کی بجائے ایک اور بھیک مانگنے والا ساتھ ملا لیا ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ پاکستانی حکومت عالمی اداروں کی طرف سے دی گئی کرونا امداد میں چالیس ارب روپے کا غبن کرنے کے بعد اب افغان عوام کے لیے امداد کی اپیل کررہی ہے۔

شعیب عادل

Comments are closed.