جب پاک بھارت مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگئے

بیرسٹر حمید باشانی

گزشتہ دنوں ان ہی سطور میں یہ عرض کیا تھا کہ سن 1962کی بھارت چین جنگ کے بطن سے جنم لینے والے حالات و واقعات نے صدر ایوب اور دیگر پالیسی سازوں کو پریشان کردیا تھا۔ امریکہ کے ساتھ مضبوط رشتہ استوار کرنے کے لیےآج تک ان لوگوں نے جو محنت کی تھی، وہ رائیگاں جاتی نظر آ رہی تھی ۔ ان کو اپنی بر سہا برس کی بنائی ہوئی پالیسی بے کار ہوتی نظر آ رہی تھی۔ امریکہ سے وابستہ ان کی توقعات ایک ایک کر کے دم توڑ رہی تھیں۔چین بھارت جنگ کے دوران نہ صرف امریکا نے بھارت کو بہت بڑی تعداد میں فوجی امداد فراہم کی تھی، بلکہ پاکستان کو بھی واضح الفاظ میں خبردار کیا کہ وہ بھارت اور چین کی لڑائی سےفائدہ اٹھا کر کشمیر میں کوئی کاروائی کرنے کی کوشش نہ کرے، اور امریکہ ایسی کسی کوشش کو کسی صورت برداشت نہیں کرے گا۔

یہ ایک ایسی صورتحال تھی، جس نے صدر ایوب اور دیگر پالیسی سازوں کو پاکستان کے مغربی اتحادوں کے اندر رہنے کے فائدے نقصانات پر از سر نو غور کرنے پر مجبورکر دیا تھا۔ حالاں کہ امریکہ کی طرف سے یہ طرز عمل کوئی نئی بات نہیں تھی۔ پاکستان کے کئی دانشور ارباب اختیار کو تسلسل سے ان اتحادوں کی اصل حقیقت سے آگاہ کرتے چلے آ رہے تھے۔ وہ اس حقیقت کا اظہار کر رہے تھے کہ یہ مغربی سرپرستی میں فوجی اتحاد صرف اور صرف سرد جنگ کے تناظر میں سوویت یونین کا مقابلہ کرنے اور سوشلزم کا راستہ روکنے کے لیے تشکیل دیے گئے ہیں، اور پاکستان جیسے تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کی ان اتحادوں میں شمولیت اس سرد جنگ میں دو سپر پاورز کے درمیان ایندھن بننے کے عمل سے زیادہ نہیں ہے۔ اور پاکستان کا مفاد اس بات میں نہیں ہے کہ وہ امریکہ کے عالمی ایجنڈے کے مطابق سوشلزم کے خلاف فرنٹ لائن ریاست بنے۔

اس کے بر عکس اسے چاہیے کہ وہ اپنے عوام کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے عالمی تعلقات میں توازن پیدا کرے، اور ایسی پر امن پالیسیاں اختیار کرے، جو ملک کی پسماندگی دور کرنے اور اس کی معاشی و سماجی ترقی میں مددگار ثابت ہوں۔لیکن بد قسمتی سے اس وقت کے ارباب اختیار داخلی اور عالمی سطع پر عدم تحفظ اور خوف کا شکار تھے، جس کے نتیجے میں وہ امریکہ کے ساتھ ہر اس فوجی معائدے اور اتحاد میں شمولیت کے لیے بے تاب رہتے تھے، جس سے ان کا عدم تحفظ کا احساس کم ہو سکے۔حالاں کہ یہ بات بھی ان پر عیاں تھی، اور خود امریکی باربار اس کی وضاحت  بھی کر چکے تھے کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کی فوجی اور مالی امداد صرف سوویت بلاک کے خلاف اورسوشلزم کا راستہ روکنے کے لیے ہے، اور یہ امداد کسی صورت میں بھارت کے خلاف استعمال نہیں کی جا سکتی ، اور اگر ایسا کیا گیا تو امریکہ بھارت کے ساتھ کھڑا ہوگا۔سن 62 کی چین بھارت جنگ کے دوران جان ایف کینیڈی کے لیے بھی سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ پاکستان کو کس طرح اس جنگ سے باہر رکھا جائے۔  دوسری طرف صدر ایوب کو  بھی امریکی مجبوری اور خطے کی صورتحال کی نزاکت کا پورا ادراک تھا۔

 صدر ایوب نے کینیڈی پر واضح کیا کہ چین بھارت لڑائی کے دوران پاکستان کی طرف سے صورتحال سے فائدہ نہ اٹھانا ایک قربانی ہے، جس کا صلہ ملنا چاہیے ۔ چنانچہ کینیڈی نے ایوب خان سےوعدہ کیا کہ وہ جنگ کے بعد جتنی جلدی ممکن ہو سکتا ہے، پاکستان اور انڈیا کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے دوطرفہ مذاکرات کا بندو بست کریں گے۔ چنانچہ آگے چل کر صدر کینیڈی کی کوششوں اور کامیاب سفارتکاری کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان میراتھن مذاکراتکا آغاز ہوا۔1962-63 میں دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے مسلسل چھ دور چلے۔ان مذاکرات کے دوران صدر کینیڈی کی ہدایات کے مطابق پاکستان اور بھارت میں امریکی سفارتکار مقامی حکام کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے، اور مذاکرات کی لمحہ بہ لمحہ خبریں واشنگٹن پہنچاتے رہے۔

اس دوران وہ مذاکرات کے نتیجے میں سامنے آنے والے اختلافات کے حل کے لئے لیے مختلف فارمولوں پر غور کرتے رہے ۔ حالانکہ یہ امریکی سفارت کار ان مذاکارات کے ممکنہ نتائج سے کافی حد تک آگاہ تھے۔ مذاکرات سے قبل نیو دہلی میں مقیم امریکی سفیرگلبریتھ نے اپنے خط میں صدر کینیڈی کو بڑی تفصیل کے ساتھ مسئلہ کے پس منظر اور اس کے ممکنہ حل کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا۔ انہوں نے صدر کو لکھا تھا کہ پنڈت جواہر لال نہرو کشمیر کے علاقائی حل کو تسلیم نہیں کریں گے۔تاہم وہ ہندوستانی ریاست کے اندررہ کر کشمیری مسلمانوں کو ثقافتی خود مختاری دے سکتے ہیں ۔ وہ ایک اس طرح کے بندوبست پر راضی ہو سکتے ہیں ، جو جرمنی کا اپنے علاقے سار کے ساتھ ہے، جو کہ بنیادی طور پر جرمنی کا حصہ ہے، لیکن یہاں پر عام طور پر فرانسیسی زبان بولی جاتی ہے،اور فرانسیسی ثقافت عام ہے۔

گلبریتھ نے صدر کینیڈی کو یہ بھی بتایا کہ اس سلسلے میں بہت زیادہ سفارتی دباؤ بھی مناسب نہیں ہے،کیوں کہ اس کے منفی اثرات پڑسکتے ہیں، اور بھارت میں میں امریکہ کا وہ امیج خراب ہوسکتا ہے، جو اس نے چین کے خلاف جنگ میں بھا رت کی مدد کرکے بنایا ہے۔ ان مایوس کن مشوروں کے باوجود صدر کینیڈی کا جوش و خروش برقرار رہا۔ انہوں نے برطانیہ کے ساتھ مل کرکے مسئلہ کشمیرکا کوئی نہ کوئی حال تلاش کرنے میں پر امیدی کا اظہار کیا۔

کینیڈی کے دباؤ کے نتیجے میں امریکی  اور برطانوی سفارتکاروں نے صدرایوب خان اور وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے گھروں تک کے چکر لگانا شروع کردیے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں کینیڈی نے برطانیہ کی مدد سے پنڈت جواہر لال نہرو کے بازو مروڑ کر مذاکرات پر آمادہ کیا، جس کے نتیجے میں آخر کار 27 دسمبر 1962 کو را ولپنڈی میں ذولفقار علی بھٹو اور سورن سنگھ کے درمیان دو طرفہ مذاکرات کا پہلا دور شروع ہوا۔ لیکن مذاکرات یہ پہلا دوراپنے دامن میں  بڑی حیرتیں سمیٹے ہوئے تھا۔ بہت سارے لوگوں کو حیرت ہوئی کہ یہ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی ختم کیوں نہیں ہوئے۔

مذاکرات کے لیے آنے والابھارتی وفد راولپنڈی کے ایک سرکاری گیسٹ ہاوس میں ٹھہرا ہوا تھا۔ رات کو جب وہ کھانے کی میز پر بیٹھے تو ریڈیو پاکستان سے خبریں نشر ہو رہی تھیں۔ ان خبروں میں بتایا گیا کہ پاکستان اور چین کے درمیان ایک بارڈر سمجھوتے پر دستخط ہو گئے ہیں۔ پاکستان نے خوشی کا اظہار کیا کہ وہ چین کے ساتھ اپنے سرحدی تنازعے ختم کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے ۔ اس سمجھوتے کے تحت پاکستان کو تقریباً دو ہزار کلومیٹر کا علاقہ مل گیا ہے، اوربدلے میں چین کو کشمیر کے کچھ علاقوں کا کنٹرول دے دیا گیا ہے۔اس سمجھوتے کے بعد پاکستان اور چین اس علاقے میں میں انفراسٹرکچر قائم کرنے پر رضامند ہوئے ہیں، جس میں شاہراہ قراقرم شامل ہے، جو دونوں ملکوں کو آپس میں جوڑنے میں مدد دے گی۔

اس اعلان پربھارت کے وفد نے سخت رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ ایک طرف تو پاکستان بھارت کے ساتھ کشمیر کے مستقبل پر بات کرنے کے لیے مذاکرات کا میز سجا رہا ہے ، اور دوسری طرف اس نے چین  کے ساتھ ایسے علاقوں پر سمجھوتا کیا ہے، جن میں سابق ریاست جموں وکشمیر کے علاقے شامل ہیں۔ وفد کے کچھ اراکین نے زور دیا کے اب مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اوروفد کو اگلی صبح واپس بھارت لوٹ جانا چاہیے۔ آگے حالات نے کیا رخ اختیار کیا ؟ اس کا احوال آیندہ پیش کیا جائے گا۔

Comments are closed.