گیارہ فروری :مقبول بٹ کی یاد میں کیا کیا جائے؟

بیرسٹر حمید باشانی خان

 مقبول بٹ کے بارے میں کالم  لکھنا ایک مشکل کام ہے۔ ۔کالم کی تنگ دامانی آڑے آتی ہے۔ جو کچھ میں مقبول بٹ کے بارے میں لکھ سکتا ہوں۔ یا لکھنا چاہتا ہوں۔ اس کے لیے ایک ضغیم کتاب بھی کم پڑھ سکتی ہے۔ خیالات کا ایک ریلا ہے، جس کے سامنے انسان اپنے اپ کو بے بس محسوس کرتا ہے۔ مقبول بٹ ان محدودے چند افراد میں سے ہیں، جن کے دشمن ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ جو کچھ ان کے خلاف ان کی زندگی میں ان کے دشمنوں نے کیا۔ یا جو کچھ ان کی زندگی کے ساتھ ان کے دشمنوں نے کیا۔ اس سے نہ تو مقبول بٹ کی زندگی میں کچھ بگڑا۔ اور نہ موت ان کا کچھ بگاڑ سکی۔ اس کے برعکس ہر دو صورتوں میں ان کے دشمن کے عمل سے ان کی جدو جہد اور نظریات کو فروغ حاصل  ہوا۔ مقبول بٹ اپنے نظریات اور مقاصد کو زندگی پر فوقیت دیتے تھے۔

لہذا مقبول بٹ کے دشمنوں نے جو ان کو زندگی میں اذیتیں پہچائی، اس پر انہیں خوش ہونا نصیب نہ ہو سکا۔ اور جوکچھ ان لوگوں نے ان کی زندگی کے ساتھ کیا وہ اس پر پشیمان رہیں گے۔ اس پشیمانی کا موقع بھی ہر سال آتا ہے، اور بار بار آتا ہے۔ مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو کچھ مقبول بٹ کے ساتھ ان کے دوست نما دشمنوں اور نادان پیروکاروں نے کیا ، اور کر رہے ہیں ، وہ افسوسناک ہے۔ اور بٹ کے خیر خواہوں کے لیے اس وقت  اس پر زیادہ توجہ اور غور وفکر کی ضرورت ہے۔

میں نہیں سمجھتا کہ آج کے جدید دور میں آزادی صرف بندوق کی گولی سے جنم لیتی ہے۔ تاریخ کے ایک دور میں یہ بات درست تھی۔ مگر وقت بدل گیا ہے۔  ہمارےز مانے میں عدم تشدد پر مبنی پر امن سیاسی اور جمہوری جدوجہد ہر سیاسی مسئلے کا حل ہے۔ اور مسئلہ کشمیر کوئی استشناء نہیں ہے، کیوں کہ بنیادی طور پر یہ اول و آخر ایک سیاسی مسئلہ ہی ہے۔۔ مگر میں آج کے دور میں بھی بٹ صاحب کی مسلح جدو جہد کو ان کے نقطہ نظر سے دیکھ کر سمجھ سکتا ہوں۔ ہر جدو جہد کا اپنا ایک خاص تاریخی تناظر، ایک خاص پس منظر اور ایک خاص وقت  ہو تا ہے۔

بٹ صاحب نے جس زمانے میں بندوق اٹھائی، وہ  دنیا میں مسلح جدو جہدو کا زمانہ تھا۔ دنیا بھر میں مسلح انقلابی تحریکوں کا ابھار تھا۔ چے گویرا، ہوچی من اور احمد بن بیلا جیسے لوگ اور ان کے نظریات سیاسی افق پر نمایاں تھے ۔ یہ لوگ ، ان کے نظریات اور ان کی جدوجہد دنیا بھر کے آزادی پسندوں کے لیے مشعل  راہ تھی۔ یہ ایک ہیجان خیز دور تھا۔ دنیا انقلابات کی زد میں تھی۔ قومی آزادی کی تحریکیں یکے بعد دیگرے کامیابی سے ہمکنار ہو رہیں تھیں۔ ان حالات میں قومی آزادی کی جنگ میں مصروف کسی گروہ یا شخص کے لیے مسلح راستہ اختیار کرنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں تھی، بلکہ ماضی کے ان مخصوص حالات میں اکثرو اوقات یہی واحد قابل عمل راستہ دکھائی دیتا تھا۔

مقبول بٹ نے اس راستے کا انتخاب شعوری طور پر کیا۔ اپنے خیالات کے اعتبار سے ایک روشن خیال آدمی تھے۔ انہوں نے ان کے اپنے الفاظ میں ظلم جبر، منافقت، رجعت پسندی اور فرسودگی کے خلاف بغاوت کی تھی۔  وہ اس بغاوت کے نتیجے میں تختہ دار پر چڑھ گئے۔ بٹ صاحب کے پیروکاروں نے تاہم ان سے انصاف نہیں کیا۔ نہ ان کی زندگی میں، اور نہ ہی  ان کی شہادت کے بعد۔ چنانچہ بٹ صاحب کے پابند سلاسل ہونے کے بعد جو کچھ ان لوگوں کو کرنا چاہے تھا۔ یا جو کچھ وہ کر سکتے تھے، وہ انہوں نے نہیں کیا۔ اس کے برعکس جو کچھ وہ نہیں کر سکتے تھے، اور جو کچھ انہیں نہیں کرنا چاہیے تھا، وہی انہوں نے کیا۔  یہاں تک کے  مقبول بٹ کی سزائے موت کا اعلان ہو گیا۔ اس اعلان کے بعد کچھ اضطراری اقدامات ضرور اٹھائے گئے۔ مگر تب ان سے کیا حاصل۔ جو حشر ان کی پھانسی کے بعد اٹھا، اس کا بیس فیصد بھی اگر پہلے اٹھایا جاتا۔ عالمی سطح پر مناسب لابنگ کی جاتی، ہوشمندانہ سفارتی جہدوجہد ہوتی تو شاید بھارتی سرکار اس انتہائی اقدام سے گریز کرنے پر مجبور ہو جاتی ۔ مگر ایسا ہو نہ سکا۔ اب اس پر ماتم کے بجائے آگے دیکھنا ہی بہتر ہے۔

مگر غور و فکر کے لیے مقبول بٹ ایک کلاسیکل کیس ہے۔  یہ ہمارے لوگوں کی نفسیاتی ساخت  کو کھول کر بیان کرتا ہے۔  یہ  ساخت  ہماری گہری احساس کمتری، بیماری کی حد تک لیڈر بننے کی خواہش میں مبتلا ہونے، انا پرستی، حسد اور بغض جیسی کمزوریوں پر مشتمل ہے۔  اس نفسیاتی  ساخت کا تجزیہ اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ ہم  کسی شخص کی زندگی میں اس کی  صلاحیتوں ، قابلیتوں، اور اچھائیوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ الٹا اس شخص کو دیکھ کر ہمیں عدم تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی لیڈری خطرے میں نظر آتی ہے، اور ہمارے اندر چھپا ہوا چھوٹا آدمیاچھل کر باہر آ جاتا ہے اور ہم ہر اس آدمی کو اپنا دشمن تصور کرتے ہیں، جو ہم سے بہتر صلاحیتوں کا حامل ہو۔۔

البتہ بندہ مر جائے تو ہمارا رویہ بالکل بدل جاتا ہے۔ مرنے کے بعد ہم اس کی پرستش شروع کر دیتے ہیں، اور اس کے عیوب میں ہمیں اس کی عظمتوں کے پہاڑ چھپے ہوئے نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر روحانی اور مذہبی رویے، ہیں جنہوں نے ہمارے سیاسی رویوں  پر غلبہ حا صل کر لیا ہے۔ ہم کسی زندہ شخص کو اپنا رہبر و رہنما بنانے کے لیے تیار نہیں ، اس مقصد کے لیے ہمیں ایک لاش کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کسی کے پاس کوئی لاش نہ بھی ہو تو کسی نہ کسی طریقے سے ڈھونڈ لی جاتی ہے۔ لاش ہماری افتاد طبع کے ساتھ میل کھاتی ہے۔ وہ ہمارے طرز عمل پر سوال نہیں اٹھا سکتی۔ وہ ہمیں روک ٹوک نہیں سکتی۔  اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم لاش کے ساتھ کوئی بھی نظریہ یا خیال منسلک کر سکتے ہیں۔ اس کے نظریات و خیالات کی من پسند تشریح کر سکتے ہیں۔  وہ ہمیں ایسا کرنے سے نہیں روک سکتی، اور نہ ہی ہماری بات کی تردید کر سکتی ہے۔

 ہم اگر چاہیں تو مقبول بٹ کو ایک جہادی بنا کر پیش کر سکتے ہیں۔ بوقت ضرورت ان کو ایک عظیم سوشلسٹ انقلابی کا روپ دے سکتے ہیں۔  ایک لبرل، ایک اسلامسٹ یا اسلامی ویلفئر ریاست کا پرچارک ظاہر کر سکتے ہیں۔  لاش ہر حالت میں خاموش اور غیر جانب دار رہتی ہے۔ وہ ہماری کسی بات کی تردید یا تصدیق نہیں کر سکتی۔  اس لیے مقبول بٹ کے خیر خواہوں کا چیلنج  یہ ہے کہ وہ مقبول بٹ کی لاش استعمال نہ ہونے دیں۔ ان کو نام نہاد جہادیوں، جنونیوں اور بنیاد پرستوں سے بچائیں۔ اب یہ لوگ بھی بٹ صاحب کے نام کو اپنے نام نہاد جہاد کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ایک خطرناک رحجان ہے، جس کی مزاحمت ضروری ہے۔  یہ بٹ صاحب کے پیروکاروں اور ان کے سیاسی وارثوں کا کام ہے کہ وہ اس بات پر دھیان دیں۔ بٹ صاحب کے حقیقی انقلابی نظریات اور ان کی رواداری پر مبنی سیکولر سوچ کو اجاگر کریں۔ کشمیر کی سیکولر، ثقافت، روایات اور تاریخ کے حوالے سے ان کے نظریات کو واضح کریں۔ اور یہ بات واضح کریں کے ان کی جہدوجہد مذہبی اثرات سے پاک ایک سیکولر جدو جہد تھی، جسے بنیاد پرستوں کے تصور جہاد کے ساتھ گڈ مڈ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا مقصد کشمیر فتح کر کے وہاں اسلامی نظام کا نفاز نہیں تھا۔ بلکہ کشمیری عوام کو کے لیے ایک آزاد جمہوری اور سیکولر سماج کی تشکیل تھی۔

ایک ایسا سماج جو ظلم ،جبر، منافقت اور فرسودگی سے پاک ہو ۔مقبول بٹ کو تنگ نظر، بے علم اور بے شعور قوم پرستوں سے بچانا بھی ضروری ہے کہ تنگ نظر قوم پرستی بھی دراصل بنیاد پرستی کی ہی ایک شکل ہے۔ مقبول بٹ کی روح کو ازیت سے بچانا بھی ضروری ہے۔ ان کی روح و ازیت دینے کا اس سے زیادہ سنگ دل طریقہ کوئی نہیں ہو سکتا کہ ان کے پیروکار پچاس سے زائد گروہوں میں تقسیم ہوں، اور ہر گروہ ان کی ایک ہی  ایک ہی آرٹسٹ  کی بنائی ہوئی تصوہر لہراتا ہو، ان کے نظریات کا وارث ہونے کا دعوے دار ہو ،مگر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے پر بضد ہو، اور عوام کی تقسیم در تقسیم کے عمل میں شرکت پر فخر کرتا ہو۔  

Comments are closed.