جب مسئلہ کشمیر سرد خانے کی نذرہوا

بیرسٹرحمید باشانی

 گزشتہ دنوں میں نے ان ہی سطور میں معاہدہ شملہ کے باب میں عرض کیا تھا کہ اکہتر کی جنگ کے نتائج کی وجہ سے پاکستان دفاعی پوزیشن پر چلا گیا تھا۔ ذولفقار علی بھٹو نے جنگ کے بعد بھارت سے واضح طور پر تصادم کی جگہ مفاہمت کی پالیسی کا اعلان کر دیا تھا۔ کشمیریوں کے حق خود ارادی پر بھی انہوں نے نئی پالیسی اپنا لی تھی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ صرف پاکستان اکیلا کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی جنگ نہیں لڑ سکتا،بلکہ یہ جنگ کشمیری عوام کو خود لڑنا ہو گی۔ اس طرح ایک طرف تو پاکستان نے کشمیریوں کی حق خود ارا د یت کی جدو جہد سے فاصلہ رکھنے کی کوشش کی ، مگر دوسری طرف  کشمیر پر اپنے دعوے سے بھی دستبردار نہیں ہوا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیریوں کی حق خود اختیاری کی لڑائی خود لڑنے کی بات کی وضاحت لنڈن اینڈیپنڈنٹ ٹیلی ویزں کے نمائندے رچرڈ لنڈسی کے ساتھ ایک طویل انٹرویو میں کی، جسے پاکستان کے انگریزی اخبار ڈان نے چار مئی 1972 کو شائع کیا۔ گیارہ مئی کو ذوالفقار علی بھٹو نے ہندوستان ٹائمز کے ساتھ انٹرویو میں کشمیر میں ایک کھلے اور نرم بارڈر کی تجویز پیش کی ، جس کے ذریعے کشمیری لوگ بغیر کسی رکاوٹ کے آر پار جا سکتے تھے۔اس مسئلے پر ٹائمز آف لندن کو انٹرویو دیتے ہوئے اندرا گاندھی نے کہا کہ مسئلے کے حل کے لیے کشمیر کی پرانی سیز فائر لائین میں رد و بدل ضروری ہوگا۔ اس سے پہلے بھارتی وزیر دفاع جگ جیون رام کہہ چکے تھے کہ کشمیر میں سیز فائر لائن ختم ہو چکی ہے، اور کچھ رد و بدل کے بعد سیز فائر لائن کو مستقل سرحد تسلیم کیا جانا چاہیے ۔ جبکہ پاکستان نے یہ پوزیشن اختیار کی کہ نوے فیصد سیز فائر لائن ابھی تک بحال ہے، اور اس سے لائن کی پرانی قانونی حیثیت متاثر نہیں ہوتی۔

شروع میں اس بات کے آثار موجود تھے کہ بھارت سیز فائر لائن کو عالمی سرحد بنانے پر اپنے مسلسل اصرار کے باوجود مسئلے کے کسی اور قابل قبول حل کے لیے تیار ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات میں تیز رفتار تبدیلیوں نے اس بات کو خارج از امکان قرار دے دیا ۔ اس دوران دو بڑے واقعات ہوئے، جنہوں نے مسئلہ کشمیر کو ایک بار پھر حل سے دور کر دیا۔ اس میں پہلا بڑا واقعہ امریکی صدر نکسن کا دورہ چین تھا۔ اس دورے کے دوران نکسن نے پہلی بار چینی لیڈروں کے ساتھ جنوبی ایشیا کی صورت حال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا، اور چین کے ساتھ ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ، جس میں پاکستان اور بھارت کو واضح طور پر کہا گیا کہ وہ سیز فائر لائن سے اپنے اپنے فوجی ہٹا کر پہلی والی پوزیشن پر لے جائیں۔

دوسرا بڑا واقعہ بھی صدر نکسن کا دورہ ماسکو تھا، جہاں سے امریکہ اور روس کی طرف سے آنے ولا پیغام بھی اس سے ملتا جلتا تھا کہ برصغیر میں قیام امن کے لیے سیز فائر سمیت تمام معاملات بات چیت سے حل ہوں۔ اس طرح پاکستان اور بھارت پر واضح ہو گیا کہ امریکہ، روس، اور چین اس مسئلے پر کہاں کھڑے ہیں۔ ان حالات میں شملہ میں بھارت نے یہ موقف اختیار کیا کہ مسئلہ کشمیر کا باب بند تصور کیا جائے ، اور دوسرے معاملات پر آپس میں بات چیت کی جائے۔ اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ فریقین اپنی اپنی پوزیشن برقرار رکھتے ہوئے اکتیس دسمبر کی سیز فائر لائن کا احترام کریں گے، اور اس کی خلاف ورزی سے گریز کریں گے، اور تمام معاملات دو طرفہ بات چیت سے طے کریں گے۔

اگرچہ اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ ان معاملات میں مسئلہ کشمیر شامل نہیں ہو گا۔ لیکن ایک بات صاف تھی کہ دونوں ممالک نے مسئلہ کشمیر پر باہمی اختلاف پر اتفاق کر لیا، اور پورے مسئلے کو سرد خانے میں ڈالنے پر رضامندی ظاہر کی ۔ جنگ نہ کرنے اور طاقت کا استعمال نہ کرنے کا عزم ظاہر کر کہ دونوں نے کشمیر میںسٹیٹس کوپر اتفاق کر لیا، لیکن کسی فریق نے بھی کشمیر پر اپنے دعوے سے دست برداری کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ سیز فائر لائن پر اختلاف جاری تھا کہ اندرا گاندھی نے یہ کہہ کر اگلا سربراہی اجلاس ملتوی کر دیا کہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول کھینچے بغیر کوئی بات نہیں سکتی۔

جس وقت کشمیر میں لائن آف کنٹرول اور انٹر نیشنل بار ڈرز کے حوالے سے اختلاف شدید تر ہوتے جا رہے تھے، اس وقت مختصر وقت کے لیے کشمیری بھی مسئلہ کشمیر کے فریق کے طور پر سامنے آئے۔ ان دنوں شیخ عبداللہ پر کشمیر میں داخل ہونے پر پابندی تھی۔ تاہم جون میں بھارت نے اچانک یہ پابندی ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ تجزیہ کاروں نے اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی کہ سوویت یونین نے شیخ عبداللہ اور بھارت کے درمیان سمجھوتہ کروایا ہے۔ اس زمانے میں ایک سوویت منصوبہ سامنے آیا، جو انڈین یونین کے اندر مسئلہ کشمیر کا حل تجویز کر رہا تھا۔ جس میں خارجہ، دفاع اور مواصلات مرکز کو دے کر کشمیر کو ایک خود مختار علاقہ قرار دیا جائے۔ یہ سوویت منصوبہ چند ماہ پہلے کراچی کے ڈان اخبار میں شائع ہو چکا تھا۔

تیئس مارچ 1972 کے ڈان کے شمارے میں اس منصوبے کی تفصیلات موجود تھِیں۔ کشمیر میں داخلے پر پابندی ختم ہونے کے فورا بعد شیخ عبداللہ نے سری نگر میں ایک جلسہ عام کا انعقاد کیا۔ اس جلسے سے خطاب کرتے ہوئے شیخ نے کہا کہ کہ1947 میں کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق صرف دفاع، خارجہ اور مواصلات پر ہوا تھا۔ اس نے مطالبہ کیا کہ اس 47 والی پوزیشن کو بحال کیا جائے۔ اس نے کہا کہ خود مختاری کے سوال کے علاوہ ہندوستان سے ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ اس نے مطالبہ کیا کہ پاک بھارت بات چیت میں کشمیر کے حقیقی نمائندے شامل ہونا چاہیے، جس کے بغیر کوئی حل قبول نہیں کیا جائے گا۔ شیخ عبداللہ نے اندرا گاندھی سے مطالبہ کیا کہ کشمیریوں سے براہ راست مذاکرات کیے جائیں۔ اگر ہندوستان ہمارے ساتھ اچھوتوں جیسا سلوک نہ کرے تو ہم تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔

دوسری طرف پاکستان ٹائمز نے آزاد کشمیر کی حکمران پارٹی کے صدر سردار ابراہیم کے حوالے سے لکھا کہ مسئلہ کشمیر کو جنگ کے نتائج کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا، اور نہ ہی کشمیری عوام کے حق خود ارادیت پر سودے بازی کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ ہمارے پاس اس وقت آزاد کشمیر کی ریاستی فوج کے علاوہ دو لاکھ سے زائد رضا کار مجا ہدین موجود ہیں، لیکن اسلام آباد کی عملی مدد کے بغیر ہم کسی قسم کی گور یلا کاروائی کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اس طرح اس وقت کی کشمیر کی دونوں طرف کی قیادت نے واضح کر دیا کہ وہ تھوڑے بہت اختلاف کے باوجود پاکستان اور بھارت کی پالیسیوں کے ساتھ ہیں۔

 معاہدہ شملہ میں روس، امریکہ ، چین، پاکستان، بھارت اور کسی حد تک رسمی طور پر کشمیری قیادت کی رضامندی بھی دکھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ عام تاثر یہ تھا کہ معاہدہ شملہ ایک تاریخی قسم کا معاہدہ امن معاہدہ ہے، جس کو خطے کی اور عالمی ترقی پسند اور روشن خیال قوتوں کی حمایت حاصل ہے۔ اس طرح کشمیری عوام ایک بار پھر عالمی اور علاقائی طاقتوں کے مفادات اور مسئلہ کشمیر پر ان کی یک طرفہ تفہیم کی بھینٹ چڑھ گئے، اور مسئلہ کشمیر اگلے کئی برسوں تک کسی نہ کسی طرح معاہدہ شملہ کے ارد گرد گھومتا رہا۔

آگے چل کر اسی اور نوے کی دھائی میں کشمیر میں عسکریت پسندی کی وجہ سے صورت حال نے ایک نیا موڑ لیا، جس کا الگ اور تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

Comments are closed.