زی، پوٹن اور ٹرمپ


تھامس فرائیڈ مین

پچھلے پانچ سالوں میں بین الاقوامی سیاست میں تین طاقتور لیڈر ، زی پوٹن اور ٹرمپ ،سامنے آئے۔ ہر ایک نے اقتدار میں رہنے کی پوری کوشش کی ۔ زی اور پوٹن کامیاب رہے لیکن ٹرمپ ناکام ہو گیا۔

ٹرمپ کے ناکام ہونے کی وجہ امریکی جمہوریت تھی جو کسی کو بھی چار سال سے زیادہ اقتدار میں رہنے نہیں دیتی۔ ٹرمپ نے جمہوری عمل کو سبوتارژ کرنے کی پوری کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ جبکہ پوٹن اور زی کامیاب رہے۔ دونوں نے اپنے آپ کو تاحیات اقتدار میں رہنے کے لیے قوانین بنا لیے ہیں۔

یہ درست ہے کہ جمہوریت کو پوری دنیا میں مشکلات کا سامنا ہے۔ لیکن اس نظام میں بہرحال وہ صلاحیت ہے جو آمرانہ نظام میں دستیاب نہیں وہ یہ کہ اپنے رہنما کو کیسے تبدیل کیا جائے یا عوامی دباؤ پر قانون سازی کی جائے۔

سال 2000 میں برسراقتدار آنے والے روسی صدر پوٹن نے کم ازکم اتنی قانون سازی کرلی ہے کہ اب وہ 2024 میں ایک بار پھر صدر کا انتخاب لڑ کر 2036 تک برسراقتدار رہ سکتے ہیں۔ اسی طرح چینی صدر زی نے چینی آئین کو تبدیل کرتے ہوئے صدر کی مدت صدارت کو ختم کردیاتھا۔ اب وہ سرکاری طور پر تاحیات صدر رہ سکتے ہیں اور امکان غالب ہے کہ 2023 میں کمیونسٹ پارٹی انھیں ایک بار پھر چین کا صدر منتخب کرلے گی۔

یاد رہے کہ سال 1982 میں ڈینگ زیاوبنگ نے صدر کے عہدے لیے دو ٹرم مخصوص کی تھیں تاکہ آنے والا کوئی اور رہنما ماوزے تنگ نہ بن سکے۔کیونکہ ماوزے تنگ کی پالیسیوں کی وجہ سے چین نہ صرف دنیا میں تنہائی کی طرف جا رہا تھا بلکہ اندرونی طور پر غربت کا شکار ہو چکا تھا۔ لیکن اب زی نے اس رکاوٹ کو دور کردیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ صرف وہی ہیں جو چین کے نئےنجات دہندہ ہیں۔

صدر پوٹن بھی عوام کو باور کراتے ہیں کہ وہی روس کی سلامتی کے بہترین فیصلے کرنے والے ہیں اور ان کے علاوہ کوئی دوسرا ایسا نہیں کر سکتا۔یوکرین پر حملہ پوٹن کا ذاتی فیصلہ ہے لیکن یہاں وہ غلطی کر بیٹھا ہے۔ اس نے نہ صرف اپنی طاقت کا غلط اندازہ لگایا بلکہ یوکرائن کے عوام کے جذبات و احساسات کا اندازہ لگانے میں بھی ناکام ہو گیاجو پچھلے ایک ماہ سے ڈٹ کر روسی جارحیت کا مقابلہ کررہے ہیں۔پوٹن یورپی ممالک کی حکومتوں اور کاروباری اداروں کے رویوں کو پڑھنے میں بھی ناکام ہو گیا جو یوکرائن کے مسئلے پر اس کی توقعات کے برعکس اس کے خلاف متحد ہوگئے ہیں۔ پوٹن کے مشیروں نے یا تو اسے نامکمل معلومات فراہم کی ہیں یا خوف کے مارے اس کے سامنے سچ بولنے سے گریز کیا ہے۔ اب پوٹن نے روس میں تمام ملکی اور بین الاقوامی میڈیا پر پابندی عائد کر دی ہے اور روسی عوام کی جنگ اور اس کے حالات وہی بتائیں جائیں گے جو سرکاری میڈیا بتائے گا۔

جہاں تک چین کا تعلق ہے تو ڈنگ زیاو بنگ کی پالیسیوں کی بدولت 800 ملین چینی سطح غربت سے اوپر آئے اور زی بھی اس میں سنجیدہ ہے مگر کرونا وائرس کی وبا نے اسے کافی متاثر کیا ہے۔ وہ کرونا وائرس کے پھیلنے کی وجوہات کی تحقیقات کرانے میں بھی سنجیدہ نہیں کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ ان تحقیقات سے اس کی مقبولیت کو نقصان پہنچے گا۔ لیکن سخت ترین لاک ڈاؤن اور احتیاطی تدابیر کے باوجود اومیکرون وائرس چین کو اپنی لیپٹ میں لے چکا ہے۔

جب زی اور پوٹن چار فروری کو بیجنگ میں سرد اولمپک گیمز کے افتتاح پر ملے تو دونوں طرف سے گہری دوستی کا اعلامیہ جاری کیا گیا تھا جس سے پوٹن کو یہ تقویت ملی کہ وہ یوکرائن پر چڑھ دوڑے۔ چین ، روس اور یوکرائن سے بڑی تعداد میں مکئی اور تیل خریدتا ہے ۔ اب اس جنگ کے بعد لامحالہ قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا اور چین کا امپورٹ بل بڑھ جائے گا۔چین کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ یورپی یونین اس کی اشیا کی ایک بڑی مارکیٹ ہے لہذا اس سے تجارتی تعلقات نہ متاثرہوں۔صدر پوٹن بے بس ہے اور زی کنفیوذ ہے کہ تعلقات میں توازن کیسے قائم کیا جائے۔

اب جمہوریت کو لیں جسے پچھلی ایک دہائی سے مشکلات کا سامنا ہے ۔ لیکن ان مشکلات کے باجود تمام جمہوری ممالک نے متحد ہونے کا فیصلہ کیا۔ صدر جوبائیڈن نے اسی خطرے کو محسوس کرتے ہوئے منتخب ہوتے ہی یورپی ممالک اور دوسرے اتحادیوں سے (جن سے ٹرمپ نے اپنے تعلقات خراب کر لیے تھے) کو ایک ایک کرکے درست کیا۔

جنگ عظیم دوئم کے بعد سرد جنگ کا دور شروع ہوا ۔ اس دوران جمہوریت میں کئی اتار چڑھاؤ آئے لیکن اس نظام میں بہرحال اتنی لچک ہے کہ اس نے تمام جھٹکوں کو برداشت کیا۔2006 اور اس کے بعد مشرق وسطیٰ کی جنگ، امریکہ میں معاشی بحران، چین کی بے پناہ معاشی ترقی کی بدولت جمہوریت بھی زوال پذیر تھی۔

چین اور روس زور و شور سے یہ بیانیہ پرموٹ کر رہے تھے کہ جمہوریت عوام کے مسائل کا حل نہیں صرف فرد واحد ہی درست فیصلے کر سکتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ چار فروری 2022 کو پوٹن اور زی نے یہ طے کیا کہ جمہوریت ہمارا کچھ بگاڑ نہیں سکتی۔لیکن حملے کے بعد سب نے دیکھا کہ تمام جمہوری ممالک اپنے اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اکٹھے ہوگئے۔ پوٹن کو یوکرائن میں بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھا رہا ہے اور چین بھی اس سے متاثر ہورہا ہے۔

ڈیلی نیویارک ٹائمز میں شائع انگریزی مضمون کا خلاصہ

Comments are closed.