محکوم کے لیے فلسفہ پڑھنا کیوں ضروری ہے ؟۔3


مہرجان

تصور فلسفہ کو مسخ کرنے میں زیادہ تر کر دار گر دیکھا جائے تو اہل فلسفہ کا ہے کہ وہ فلسفے کو معاشرے میں اس طرح متعارف نہ کراسکے جس طرح فلسفے کا کم از کم حق بنتا تھا ، شاید وہ خود بھی فلسفے کو اسی زمرے میں سمجھتے ہوں، کہ صرف ان آئیڈیاز و اصطلاحات کو جو مانوس کرا ئے جاتے ہیں ڈسکس کرنے کا اور اپنی رائے پہ غیر منطقی طور پہ سختی سے قائم رہنے کا نام فلسفہ ہے ،ان آئیڈیاز کا معاشرہ ،ادب و تاریخ میں کیا کردار ہے اس سے شاید وہ خود بھی نابلد ہیں ۔کیونکہ مانوس چیز کو نئے زاویے سے دیکھنا ہر کہ و مہ کا کام نہیں،جہاں کہیں کوئی معاشرہ یا کوئی قوم بے روح و بے جان ہوتی ہے ،تاریخ میں فلسفیانہ نظریات ہی ان معاشروں میں یا اقوام میں جان ڈالتے ہیں یعنی روح پھونکتے ہیں ۔

لیکن یہاں اہل فلسفہ خود ہی بے جان و بے روح نظر آتے ہیں، وہ کیا خاک مردہ معاشرہ و محکوم اقوام میں روح ڈالیں گے اس لیے اب یہ متھ مشہور ہو چلا ہے کہ فلسفہ و اہل فلسفے کا معاشرہ سے کوئی خاص ربط نہیں بنتا ، جبکہ تاریخ میں یہی فلسفیانہ تصورات و نظریات ہی تھے جو معاشروں میں انقلابات و آذادی کے لیے پیش خیمہ ثابت ہوئے ،اہل فلسفہ تفکر و بے لاگ مطالعہ سے معاشروں کی ساخت و ہیئت بدل دیتے ہیں ، قوموں کی نشونما و عظمت کو نمایاں کردیتے ہیں، کسی بھی معاشرے میں قومی آذادی و انقلابات کے لیے اہل فلسفے کا نہ صرف فلسفے سے گہری شناسائی درکار ہوتا ہے بلکہ گہرا تفکر و مطالعہ بھی ازحد ضروری ہے۔

یہی گہرا فلسفیانہ مطالعہ نہ صرف تخیل میں وسعت پیدا کرتا ہے بلکہ ہم کو اس قابل بناتا ہے کہ اپنی امیدوں کو ایقان کے در سے گذار کر عملی طور پہ جدوجہد کر سکیں گہرا تفکر و مطالعہ ہی فلسفہ کی روح ہے ، اور یہ دیکھا گیا ہے کہ فلاسفر و اہل فلسفہ مطالعہ و مشاہدہ کے لیے اپنی پوری کی پوری زندگی وقف کر دیتے ہیں، حتی کہ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ ایک فلاسفر کو سمجھنے کے لیے پوری زندگی وقف کرنی پڑتی ہے، کارل مارکس جیسا مفکر بھی کسی بھی زبان کے ادب کو سمجھنے کےلیے پہلے اسی زبان کو سیکھتا تھا تب جا کے اس زبان کے ادبی شہ پارے کو اس کے جوھر میں سمجھتا تھا۔

ایک فلاسفر کو پڑھنے کے لیے مطالعہ و مشاہدے کا دائرہ کار اتنا وسیع ہوتا ہے جس میں ادب سے لے کر تاریخ و لسانیات تک خود بخود سمٹ جاتے ہیں، تب ہی کارل پاپر کے مطابق فلسفیانہ مسائل صرف ایک ڈسپلن کو محیط نہیں ہوتے بلکہ تمام ڈسپلنز میں شامل حال ہوتے ہیں۔ یعنی فلسفہ کوئ خاص مشتملات نہیں رکھتا ، اس لیے فلسفہ کے لیے بے لاگ و کثیر مطالعہ و مشاہدہ ہی اولین خشت کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ان کا مطالعہ اس قدر وسیع ہوتا ہے کہ کہ وہ اپنے طلباء کو جب لسانیات پہ لیکچر دیتے ہیں تو وہ لیکچرز فلسفہ لسانیات میں ایک لسانی نظام کی صورت اختیار کرتا ہے ، جب وہ تاریخ پہ لیکچر دیتے ہیں تو وہ مستقبل میں فلسفہ تاریخ بن جاتا ہے، یعنی ان کی تحریر کی بات نہیں ہورہی بلکہ ان کے لیکچرز مستقبل میں فلسفیانہ نظام استوار کرتے ہیں اور انقلابات کا سبب بنتے ہیں ۔ یعنی یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اہل فلسفہ کا بے لاگ مطالعہ ہی معاشرے سے فلسفہ کو متعارف اور مربوط کرنے کاسبب بنتا ہے۔

آزادی و انقلابات کے لیے فلاسفرز و اہل فلسفہ کا بنیادی کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، سقراط ، افلاطون اسپاہنوزا ، سے لے کر فیختے ، شیلنگ ، کانٹ ، ھیگل ، مارکس اور بہت سے فلاسفرز اپنی فلسفیانہ افکار کی وجہ سے معاشرہ میں فکری انقلابات بپاکیے جو زمینی انقلابات و آزادیوں کے لیے بنیاد بنی۔ یہاں اہل فلسفہ جنہیں پوری زندگی مطالعہ و مشاہدہ کرنا تھا ، وہ اپنے قلیل مطالعہ کی وجہ سے دراصل فلسفے کو مکالمہ کی سطح پہ نہیں لاتے ، جبکہ فلسفہ کو بنیادی طور پہ دیکھا جائے تو مکالمہ کا ہی دوسرا نام ہے ، سقراط کا طریق ہی مکالمہ ہے جہاں سوال سے سوال جنم لے کر ایک مانوس تصور کی بیخ کنی کرتا ہے اور نئے تصورات جنم لیتے ہیں۔

سقراط کے مکالمات (افلاطون نے بیان کیے ہیں) یہ کمال افلاطون کو حاصل ہے کہ ان کے بنائے گئے کردار فلسفہ سے انصاف کرتے ہیں ، اور تصورات سے نئے تصورات جنم لیتے ہیں ، افلاطون کا میتھڈ اپنے اندر لاثانی ہے جبکہ سسٹم پہ کئی سوالات اُٹھائے گئے ہیں افلاطون کے مکالمات اپنے آپ میں بطور “تقریر ، تحریر ، جامع ، اختصار “خود تنقیدی” میں شاہکار ہیں وہ اعیان کی دنیا کو جو اس کی اپنی ہی پیدا کردہ ہے پارمینڈیز کے ذریعے خود تنقیدی سے تہس نہس کرتا ہے ، اس کی پوری تحاریر سقراطی طریقہ کار پر مبنی ہیں لیکن “تھریسی میکس” کے ذریعے جمہوریہ میں سقراطی میتھڈ پہ کئی سوالات اُٹھائے گئے ہیں جو آج بھی ردِ فلسفہ میں کارآمد ہیں۔

وہ پورے پورے مناظر میں بیک گراؤنڈ میں بیٹھے بیٹھے کہیں “لفظوں کا کھیل” کھیل رہا ہوتا ہے تو کہیں مدلل باتیں کر رہا ہوتا ہے،کہیں پہ سوالات اٹھاتا ہے ، تو کہیں پہ سوالات کے جوابات دے رہا ہوتا ہے، افلاطون کی سب سے بڑی خوبی کوآپریٹینگ کیریکٹرز ہیں ، جہاں کردار مکالمہ کے دوران ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے نظر آتے ہیں جو لسانیات کی دنیا میں ایک بہت بڑا عنصر ہیں انسان ان مکالمات سے بہت کچھ سیکھتا ہے، کہ کیسے اپنی بات رکھنی ہے ؟ کیسے دوسرے کو کوآپریٹنگ کردار بن کر سننا ہے؟ کہاں خود تنقیدی کے ذریعے خود شعوری کو فروغ دینا ہے ۔تحریر کی اپنی بہت زیادہ اہمیت ہے لیکن یہ کہہ سکتے ہیں کہ ذہن، تحریر کی نسبت مکالمہ سے زیادہ قریب ہے، کیونکہ مکالمہ میں فریقین ایک ہی ماحول میں حاضر ہوتے ہیں۔

یہاں شاذ و نادر ہی ایسا دیکھا گیا ہے کہ اہل فلسفہ کھلے میدانوں میں ، اسٹڈیز سرکلز میں ، لائبریریوں اور ہوٹلوں میں فلسفیانہ مکالمہ کو شعور و بصیرت کے ساتھ فروغ دے سکیں۔ جب کھلے میدانوں ، اسٹڈیز سرکلز ، لاہبریری اور ہوٹلوں میں پھیکے و تیکھے جملوں کی جگہ اور حالات حاضرہ پر مبالغے کے ساتھ کج بحثیوں کی جگہ فلسفہ و ادب و تاریخ ، مکالماتی انداز میں زیر بحث ہو تو فلسفہ کا معاشرہ سے ایک ربط بن جاتا ہے، اور تبدیلی کا عمل شروع ہوتا ہے، یہ مکالمات ہی تھے جو معاشرہ سے مربوط ہوئے اور سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا ۔

ا گر فلسفہ صرف آسمان سے اوپر اور زمین سے نیچے کی بات کرتا معاشرہ سے مربوط نہ ہوتا تو سقراط کو معاشرہ پہ اٹھائے گئے سوالات پہ زہر کا پیالہ نہ پینا پڑتا اور تاریخ میں بہت سےفلاسفرز تنہائی کی زد میں نہ آتے ، لیکن یہاں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے کسی کو گر کوئی تعلیمی ادارہ بھاری بھرکم تنخواہ کی وجہ سے نکال دے تو اکیڈیمیاء کے بڑے بڑے نام آسمان سر پہ اٹھا لیتے ہیں کہ ہماری لبرل نظریات کی وجہ تعلیمی ادارے ہمیں نکال رہے ہیں جبکہ معاملہ اس کے برعکس بھاری بھرکم تنخواہوں کا ہوتا ہے، گر ان کا مقصد فلسفیانہ اور علمی آبیاری ہوتا تو بجائے بھاری بھرکم تنخواؤں کا رونا رونے کے وہ کسی بھی کھلے میدان ، کسی بھی لائبریری ، کسی بھی ہوٹل یا کسی بھی مستقل اسٹڈی سرکل میں فلسفیانہ مکالمات کے ذریعے فلسفے کی آبیاری کرتے۔

اب یہ اہل فلسفہ پہ فرض ہے کہ وہ فلسفہ کے اس مسخ شدہ تصور کو زائل کریں کہ فلسفہ کسی بھی ذہنی عیاشی یا آسمان سے اوپر کی باتیں ہیں بلکہ فلسفہ مستقل غور و فکر مکالمہ، بے لاگ مطالعہ و عمل کا دوسرا نام ہے ۔یہ فلسفہ ہی ہے جو شروع دن سے یہ بتانے کی تگ و دو میں ہے کہ کسی بھی معاشرے میں مسرت کے مقابل نیکی کیا ہے ؟ کسی بھی انسان کا مطمع نظر مسرت ہو یا نیکی ؟ انصاف کیا ہے ؟ انصاف کے تقاضے کیا ہیں ؟ کسی بھی انسان کے لیے ان کے عمل کے لئے جواز کیا ہے ؟ یعنی کوئ عمل معقول ہے یا غیر معقول ؟ امن کیا ہے ؟ جنگ کیا ہے ؟ امن کے لیے جنگ کس قدر ضروری ہے ؟ یا کسی بھی قیمت پر فقط امن پرستی (عدم تشدد) ہی بہتر ہے ؟ اقدار کیا ہیں؟ اخلاقیات کیا ہے ؟ معقول تجزیہ کیا ہے ؟ کسی بھی قوم کی محکومیت کے اصل وجوہات کیا ہیں؟ ان وجوہات کا تدارک کیسے ممکن ہے ؟

یہ سارے سوالات فلسفیانہ ہیں اور یہ فلسفہ کو معاشرہ سے متعلق و مربوط کرتے ہیں۔ لیکن یہاں اہل فلسفہ افلاطون کے نظریہ اعیان (ورلڈ آف آئیڈیاز) کی طرح فلسفہ کو بھی آسمان پہ لے جاتے ہیں حقیقتاً اگر دیکھا جائے افلاطون کا نظریہ اعیان بھی اوبجیکٹیو رئیلٹی (یونیورسیلیٹی) کا ایک بیانیہ ہے ، آسمان کی طرف اشارہ فقط استعارہ ہے ،دراصل افلاطون اوبجیکٹیو رئیلٹی کی بنیاد پہ یونیورسیلیٹی کے لیے اک دروازہ کھولتا ہے یعنی افلاطون کا نظریہ اعیان بھی معاشرہ سے الگ تلک کوئی ایسا تصور نہیں کہ اہل فلسفہ صرف ذہنی عیاشی کے لیے آسمانوں کا سیر کرتا پھرے بلکہ اوبجیکٹیو رہئیلٹی کا تعلق بھی زمین سے ہے، زمین زادوں سے ہیں ، زمین میں بسنے والے انسانوں ، معاشرہ و طرز حیات سے ہے۔ اسی نظریہ اعیان کا معاشرہ سے تعلق کی بنا پہ کارل پاپر نے افلاطون کو آزاد معاشرے کا دشمن کہا ۔

البتہ ادبیات میں دو دبستان بڑے واضحات کے ساتھ وجود رکھتے ہیں ، جن میں سے ایک دبستان ادب کو ادب سے جوڑ کر ادب کی چاشنی کا لطف اٹھاتا ہے جبکہ دوسرا دبستان ادب برائے زندگی کا قائل ہے جو نظریات کو ادب میں سموتے ہوئے نظر آتا ہے ، اس کے برعکس ایسی کوئ واضح تقسیم فلسفے کی دنیا میں نظر نہیں آتی، گرچہ جاننے کا مذاق اہل فلسفہ میں ضرور پایا جاتا ہے لیکن اس کو بنیاد بناکر فلسفے کو فلسفہ برائے فلسفہ اورفلسفہ بر ائے زندگیکے تناظر میں نہیں دیکھا جاسکتا ، ہو سکتا ہے ایک انسان فلسفے کو اپنے مزاج کی وجہ سے پڑھ رہا ہے فقط جاننے کے لیے ، لیکن وہ جو کچھ بھی پڑھ رہا ہے ، یا جو کچھ سوچ رہا ہے وہ بطور قاری کے یہ سب کچھ کررہا ہوتا ہے نہ کہ بطور فلاسفر اس لئے ۔یہ فلسفہ برائے فلسفہ کسی بھی لحاظ سے نہیں بنتا ۔فلسفہ برئے فلسفہ گویا ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص فارسی کی گرائمر،فارسی زبان ، کلچر پہ اطلاق کیے بغیر پڑھے ، تب یہ خشک موضوع کے سوا کچھ نہیں ہوگا ۔ اسی طرح فلسفے کو زندگی کی پہلو سے نکال کر پڑھنا خشک مزاجی کے سوا کچھ نہیں ۔

فلسفہ اور ادب میں ایک لحاظ بہت ہی گہرا ربط ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ فرق بھی روا رکھا گیا ہے، بعض دانشور یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ انسان جب سوچتا ہے ، تو وہ اپنا وجودسوچ در سوچ میں کھو دیتا ہے اور ادب وجودکو پالینے کا یا اس کی تلاش کا نام ہے یعنی فلسفہ ہائڈ گر کی زبان میں وجود کی فراموشیہے جبکہ ادب وجودیت ہے ، رسل اسی بنیاد پہ وجودیت کو فلسفے کی بجائےایک ادبی تحریک کہا ، یعنی ادب وجودیت کا دوسرا نام ہے ، اس موضوع پر لکھنے کے لیے شاید اک پورا الگ مضمون باندھنا پڑے لیکن سردست صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ یہاں ادب میں وجود کی تلاش کی بجائے ذات ( ایگو) بنانے کی تگ و دو جاری ہے ، بقول فلائیر ناول نگار وہ ہے ، جو اپنے کام کے پس پردہ خود غائب ہوجانا چاہتا ہےیعنی ذات پس پردہ چلی جاتی ہے ، وہاں صرف ادب بولتا ہے لیکن یہاں ادب کی بجائے ذات کا شور ہی ادب کہلاتا ہے ۔

بقول میلان کنڈیرا ،  بڑے ناول ہمیشہ اپنے مصنفین سے کچھ زیادہ ذہین ہوتے ہیں ۔وہ ناول نگار ،جو اپنی کتابوں کی نسبت زیادہ ذہین ہیں ، انہیں کوئی اور کام کرنا چاہیے۔ دراصل وہ یہ بتانا چاہا رہا ہے کہ ناول میں مصنف کا لاشعور شعور کی سطح پہ آجاتا ہے جبکہ مصنف کے لیے وہی لاشعوری حالت لاشعور میں رہتی ہے چنانچہ ناول اپنے خالق سے زیادہ تابناک و ذہین ہوتا ہے ، یہ بات ساختیات بڑی وضاحت کے ساتھ سمجھا سکتی ہے ۔ لیکن یہاں بات وہی ہے کہ یہاں ادیب وجود کی تلاش کی بجائے ذات میں گم ہوجاتا ہے ، وہ اپنی ذات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے ادب کو پس پشت ڈال دیتا ہے ، یہاں ادب کو ادب کی بجائےذات کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے ۔

اب ادب کی صورتحال یہ بن جاتی ہے کہ بیشتر ناول نگار /افسانہ نگار /شاعر سب سے پہلے ایک پبلک فگر بننے کی کوشش میں لگے ہوتے ہیں ۔ جہاں ادب نہ برائے ادب بن جاتا ہے نہ برائے زندگی بلکہ ادب برائے ادیب ہوکر رہ جاتا ہے ، جس کی وجہ سے ادیب بقول میلان کنڈیرا ماورائے ذات حکمت کی سرگوشی کو سننے میں ناکام ہوتے ہیں اور ناول یا ادب کے کسی بھی صنف کو اپنی ذاتی ڈائری سمجھ کر لکھ رہے ہوتے ہیں دراصل وہ ادب کی دانائیکو میڈیا اور ذاتی سستی شہرت اور پبلک فگر بننے کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں جس وجہ سے صرف فکشن ہی نہیں بلکہ ادب میں نظم و نثر کے ہر شعبے پر اسی دانائی سے عاری خودنمائی کی مشقیں دکھائی دیتی ہیں اور ادب کافور ہوجاتا ہے۔