نیتاجی کا ابھار گاندھی جی کا زوال کیوں؟

پائند خان خروٹی

متحدہ ہندوستان کی تحریک آزادی کے منفرد ہیرو (نیتاجی) سبھاش چندر بوس اپنی جوانی میں 1920 میں مقابلہ کا امتحان پاس کر کے ان باصلاحیت لوگوں میں شامل ہوئے جو اعلیٰ آفیسر بنے میں کامیاب ہوئے ۔ تاہم اپنے سیاسی شعور اور جذبہ آزادی کے باعث انہوں نے جلد پرکشش کیریئر کو چھوڑ کر عملی سیاست کا آغاز کیا۔ تحریک آزادی متحدہ ہندوستان میں بنیادی کردار یعنی برطانوی غلامی سے نجات دلانے کیلئے کانٹوں کا تاج اپنے سر پر رکھا۔

انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما موہن داس کرم چند گاندھی نے تحریک آزادی میں مصلحت پسندی اختیار کرتے ہوئے ہندوستان کی مکمل آزادی سے دستبردار ہوکر برطانوی وائس رائے کا پیش کردہ اکتوبر 1929 کے ڈومنین اسٹیٹس پر تاج برطانیہ سے معاہدہ کر لیا۔ 5 مارچ 1930 گاندھی ایرون معاہدہ کے تناظر میں اسکے بدلے میں برطانوی حکومت نے جیلوں میں قید سیاسی قیدیوں کی رہائی پر آمادگی ظاہر کر دی لیکن گاندھی جی نے معروف حریت پسند رہنما بھگت سنگھ سمیت سوشلسٹ سوچ و اپروچ رکھنے والے تمام قائدین اور کارکنوں کی رہائی میں کوئی دلچسپی نہیں لی بلکہ برطانوی حکام کی پیشکش کے باوجود ان مخصوص سیاسی قیدیوں کی ضمانت دینے سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں کامریڈ بھگت سنگھ اور ان کے جانثار ساتھیوں کو پھانسی دے دی گئی۔

سبھاش چندر بوس نے اس موقع پرستی کو نہ صرف بھانپ لیا بلکہ اس رحجان کی مزاحمت کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا۔ انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس پارٹی کے صدارتی الیکشن 1939 میں بھرپور حصہ لیا اور گاندھی جی سبھاش چندر بوس کو قبول کرنے کی بجائے ان کے مقابلے میں پتابھی سیتارمیا کو اپنے نمائندے کے طور پر کھڑا کیا۔ انتخابی نتائج کے مطابق سبھاش چندر بوس کو 1580 ووٹ جبکہ گاندھی کا نمائندہ پتابھی سیتارمیا کو 1385 ووٹ ملے یعنی سبھاش چندر بوس 205 ووٹوں سے بھرپور طریقے سے کامیاب ہوئے۔ لیکن اس واضح نتیجے کے باوجود گاندھی جی نے انہیں انڈین نیشنل کانگریس کی صدارت دینے سے انکار کر دیا۔

بالآخر سبھاش چندر بوس کو تحریک آزادی کو آگے بڑھانے کیلئے اپنی راہ الگ کرنی پڑی۔ انہوں نے تاج برطانیہ سے مکمل آزادی کا آخر کار اعلان کر دیا اور ان کیلئے مسلح جدوجہد کی واضح راہ اختیار کی۔ وہ اپنے قریبی ساتھی میاں اکبر کی مدد سے پشاور کیلئے روانہ ہوگئے جہاں وہ آزادی پشتونخوا وطن اور برصغیر پاک و ہند کے ناقابل فراموش ہیرو کاکاجی صنوبر حسین مومند سے ملنا چاہتے تھے۔ کاکاجی صنوبر حسین مومند جنگ آزادی میں مصروفیات کے باعث انکے ساتھ ملاقات نہ ہو سکی مگر کاکاجی کے ساتھیوں کی مدد سے نیتاجی اور ان کے ساتھیوں کو جلال آباد ننگرهار پہنچایا جہاں موجود ساتھیوں نے ان کے علاج معالجہ اور سفری آخرجات کا بندوبست کیا اور انہیں افغان پایہ تخت کابل کے راستے سوویت یونین کے پایہ تخت ماسکو تک پہنچایا۔

سبھاش چندر بوس ماسکو سے جرمنی چلے گئے اور اس وقت کی ایڈولف ہٹلر نازی حکومت نے ان کی مدد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے برطانوی فوج کے چار ہزار ہندوستانی قیدیوں کو آزاد کر کے ان کی خدمات بھی سبھاش چندر بوس کے سپرد کر دی۔ وہاں سے وہ جرمنی کے ایک اور اتحادی ملک جاپان پہنچے اور اس کے زیر کنٹرول ایک جزیرہ سے مکمل آزادی کی خاطر اپنی مسلح سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز کیا۔

یہ وہ وقت تھا جب دوسری عالمی جنگ جاری تھی، دنیا بھر میں قومی آزادی کی تحریکیں زور پکڑ رہی تھیں۔ برطانوی فوج میں شامل پچیس لاکھ ہندوستانیوں میں بغاوت کے جذبات پروان چڑھنے لگے تھے علاوہ ازیں متحدہ ہندوستان میں معروف زمانہ جہازیوں کی بغاوت 1946″ بھی پھوٹ پڑی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے عوام کی اکثریت بھی برطانوی غلامی کا طوق اتار پھینکنے کیلئے تیار نظر آرہی تھی۔ تحریک آزادی ہند کا سب سے نمایاں، مقبول ہیرو سبھاش چندر بوس تھے اور یہ حقیقت نوشتہ دیوار ہے کہ غلام ہندوستان میں پہلی بار آزاد ہندوستان کا جھنڈا سبھاش چندر بوس نے ہی بلند کیا تھا لیکن بدقسمتی سے آزادی کے پچھتر سال بیت جانے کے بعد بھی سبھاش چندر بوس کی پُراسرار موت کے حقائق سے پردہ نہ اٹھایا جا سکا۔

تاریخ کو اپنی مرضی کے مطابق تحریر کرنے کے شوق نے ہندوستانی حکمرانوں اور درباری تاریخ نویسوں نے دیش نائیک سبھاش چندر بوس کی موت کے اسباب بیان کرنے کی نت نئی کہانیاں بیان کیں اور ہر کہانی میں ان کی موت ہندوستان سے باہر دکھائی گئ جبکہ ان کے ملک سے باہر جانی کا کوئی مصدقہ اطلاع آج تک سامنے نہ آسکی۔ ایسا لگتا ہے کہ انڈین نیشنل کانگریس کے رہنماوں خاص طور پر گاندھی جی اور جواہر لال نہرو کو خطرہ تھا کہ سبھاش چندر بوس کے ابھار سے ان کا کردار گھٹ نہ جائے۔

اس طرح مطلوبہ حقائق سامنے آنے سے تاج برطانیہ کے پس پردہ ناپاک عزائم بھی خاک میں مل جائینگے۔ بالادست طبقہ کے نمائندہ ریاستی ادارے اور سیاسی تنظیمیں اسٹیٹسکو کو برقرار رکھنے کی خاطر مصالحت میں رہتی ہیں۔ یہ سمجھوتہ بازی ہی نظام کی تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ تحریک آزادی ہندوستان کے صف اول کے ہیرو سبھاش چندر بوس جن کو نیتاجیبھی کہا جاتا ہے۔ نوبل انعام یافتہ رابندرا ٹیگور نے انھیں دیش نائیککا خطاب دیا اور مرد آہن جوزیف اسٹالن نے موہن داس کرم چند گاندھی جی اور جواہر لال نہرو سے بڑا اور حقیقی خلقی لیڈر قرار دیا تھا۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ پشتونخوا وطن اور تحریک آزادی ہندوستان کے ناقابل فراموش ہیرو یعنی صنوبر کاکاجیکی طرح نیتاجیکو بھی پورے خطے کی اشرافیہ، اکیڈمیشنز اور پولٹیشنز نے جان بوجھ کر فراموش کر دیے ہیں ۔ یہ بات توجہ طلب اور تحقیق طلب ہے کہ عظیم حریت پسند رہنماء سبھاش چندر بوس کی موت 77 سال کے بعد بھی پُراسرار کیوں ہے؟ نیتاجی کی زندگی کے مختلف پہلوؤں، خدمات، کارناموں اور قربانیوں کے حوالے سے پچھلے ستتر برس سے ہندوستان کی ریاست میں کوئی قابل ذکر کام دیکھنے میں نہیں آیا جو آج تک ہندوستان کی ریاست، کانگریس کی نام نہاد قوم پرست تنظیم اور ان کے تمام ادبی و تحقیقی مراکز کے وجود پر ایک بہت بڑا سوال ہے۔۔۔۔۔؟

Comments are closed.