کیا عمران خان نے لیفٹینٹ جنرلز کی دوڑیں لگوا دی ہیں؟

ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم اور ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کی دھواں دھار پریس کانفرنس کے بعد سوشل میڈیاسمیت  ملک کے سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں میں اس پر تبصرے اور تجزیے شروع ہو چکے ہیں۔

ناقدین کا خیال ہے کہ یہ پریس کانفرنس پاکستان تحریک انصاف کے لیے ایک سخت پیغام ہے جبکہ کچھ کے خیال میں یہ سیاسی بے یقینی کی کوششوں کے خلاف ایک پیغام ہے۔ کچھ حلقے اس پریس کانفرنس کو غیر معمولی‘ بھی قرار دے رہے ہیں کیونکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتا ہے کہ کوئی حاضر سروس ڈی جی آئی ایس آئی اس طرح کوئی پریس کانفرنس کرے۔

آج کی پریس کانفرنس میں آرمی کے دونوں سینئر افسران نے نہ صرف ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے بات چیت کی بلکہ انہوں نے تحریک انصاف کا نام لیے بغیر بہت سارے ایسے معاملات پر بھی بات کی، جس کے حوالے سے تحریک انصاف نے عوامی جلسے اور جلوسوں میں کئی سوالات اٹھائے تھے یا دعوے کیے تھے۔

 ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا کہ ادارے پر غیر ضروری طور پر انگلیاں اٹھنا شروع ہو گئیں جبکہ غیر سیاسی رہنا کسی فرد کا نہیں ادارے کا فیصلہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر چیز کو غداری اور رجیم چینج کی سازش سے جوڑ دیا گیا۔ فوج کو میر جعفر، جانور اور نیوٹرل‘ اس وقت کہا گیا، جب انہوں نے غیر قانونی کاموں سے انکار کیا، میں اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ اپنے ادارے کے لیے آیا ہوں۔ ہم پر مارچ کے مہینے سے بڑا دباؤ ہے۔ آرمی چیف کو غیر معینہ مدت تک لے لیے توسیع کی پیش کش کی گئی۔ اگر جنرل باجوہ غدار تھے تو پہلے تعریفیں کیوں کی گئیں؟ جو کچھ آرمی چیف نے کہا وہ بالکل درست تھا۔ آئینی راستہ اختیار نہ کرنا سیاسی عدم استحکام کی ایک وجہ ہے‘‘۔

کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ ارشد شریف کی موت کے بعد فوج کے خلاف ایک بھیانک پروپیگنڈہ شروع کیا گیا۔ دفاعی مبصر جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفی کے مطابق یہ پریس کانفرنس اس پروپیگنڈے کے خلاف تھی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، فوج نے مناسب سمجھا کہ اس پروپیگنڈے کا مناسب جواب دیا جائے اور موثر انداز میں ان لوگوں کو یہ واضح پیغام دیا جائے، جو اس طرح کے پروپیگنڈے میں مصروف ہیں کہ اس طرح کی جھوٹی خبریں اور اور بے بنیاد الزامات کو بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا‘‘۔

واضح رہے کہ ارشد شریف کی موت کے بعد ناصرف ملکی سطح پر صحافتی اور غیر صحافتی تنظیموں نے اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے بلکہ اس طرح کے مطالبات امریکہ اور اقوام متحدہ کی طرف سے بھی سامنے آئے ہیں۔

دفاعی تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ عمران خان نے کرپشن بیانیے کو فروغ دیا، جو بہت مقبول ہوا، لیکن اب انہوں نے یہ بیانیہ بھی مقبول عام کر دیا ہے کہ فوج سیاست میں مداخلت کرتی ہے۔ پچپن فیصد سے زیادہ پاکستانی، جن کی عمر اٹھارہ اور پینتیس کے درمیان ہے، اس بیانیے کو درست سمجھتے ہیں اور اس سے فوج کو تشویش ہے۔ آج کی پریس کانفرنس اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے بھی تھی کہ فوج سیاست میں ملوث ہے‘‘۔

dw.com/urdu

Comments are closed.