وسیم الطاف
ولیم ڈیلرمپل نے اپنی کتاب ’’دی لاسٹ مغل‘‘ (آخری مغل) میں 1857کے خونی بغاوت کے نتیجے میں بھارتی مسلم اشرافیہ کی حکمرانی کے خاتمے کا احوال پیش کیا ہے۔ اگرچہ آخری مغل حکمران بہادر شاہ ظفر برطانیہ مخالف تحریک کے حوالے سے تحمل مزاج بے اختیار حکمران تھے لیکن مجموعی طور پر پوری مسلم برادری کو برطانوی سلطنت نے قصور وار قرار دیا۔ دلی کے قرب و جوار کے تمام علاقوں کو تباہ و برباد کر دیا گیا جبکہ ہزاروں مسلمانوں کو پھانسی دی گئی یا پھر انہیں گولی مار کر ہلاک کیا گیا یا پھر توپوں کے منہ میں ڈال کر اڑا دیا گیا۔ کئی دیگر بشمول بہادر شاہ ظفر کو سخت مفلسی کے عالم میں مرنے کیلئے جلا وطن کر دیا گیا۔
تکلیف کا شکار مسلمان اپنی حد تک ہی محدود ہوگئے۔ سرکاری ملازمتوں کیلئے مغربی تعلیم کے لازمی قرار دیئے جانے کے بعد، کچھ ہی مسلمان ایسے تھے جو مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں تھے۔ سر سید احمد خان نے اس طرز عمل کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مدد سے تبدیل کرنے کی کوشش کی لیکن مسلمانوں کی اکثریت یہ قبول کرنے کیلئے تیار ہی نہ تھی کہ وہ برطانوی سامراج سے اقتدار گنوا چکے ہیں۔ نفسیاتی لحاظ سے، کئی روایتی مسلمانوں کو اس بات کا احساس تھا کہ اگر انہوں نے اپنے حکمرانوں کے طرز عمل کو قبول کر لیا تو یہ باضابطہ طور پر اپنی شکست تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا۔ دوسری جانب، ہندوؤں کے ساتھ ایسی کوئی جمود کی کیفیت نہ تی اور جلد ہی انہوں نے نوکر شاہی میں اہم عہدے حاصل کر لیے۔
بااثر مسلم علما، بشمول درالعلوم دیوبند، نے اصطفائیت پسند مغل سلطنت کو قصور وار قرار دیا کہ اس نے ہندوؤں کا اثر رسوخ قبول کرکے اپنے زوال کو دعوت دی۔ ان علماء نے جو طاقتور پیغام دیا وہ یہ تھا کہ مسلمان صرف اسی صورت دوبارہ اقتدار حاصل کر سکتے ہیں جب وہ ابتدائی اسلامی دور کے مطابق اپنے اصل اور حقیقی مذہب کو اختیار کریں۔ ان کا پیغام آج کے دور میں بھی یہی ہے۔ ولیم ڈیلرمپل کے مطابق، 1857 کے پرتشدد دنوں کے بعد ہی تقسیم کے بیج بوئے جا چکے تھے۔
اگرچہ مسلم اشرافیہ نے ترقی پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مغربی طرز عمل اختیار کیا کیونکہ برطانوی راج یہاں گہرائی تک قدم جما چکا تھا، لیکن اکثریت نے پرانا رویہ برقرار رکھا، اپنے لڑکوں کو مدرسہ بھیجتے اور لڑکیوں کو گھروں کے اندر رکھتے۔ دوسری جانب، ہندوؤں نے پھیلتے ہوئے سرکاری اسکول سسٹم سے فائدہ اٹھایا۔
جب تقسیم کا وقت آیا تو مسلم قیادت اور پیشہ ور طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کا ایک بڑا حصہ نئی قائم ہونے والی ریاست پاکستان منتقل ہو گیا۔ مسلمانوں کی جو اکثریت پیچھے رہ گئی وہ انتہائی کم تعلیم یافتہ اور شکست خوردہ تھے۔ تقسیم کے وقت منقسم وفاداری کے ساتھ 1947 کے بعد کی مسلم نسل حالات سے حیران و پریشان تھی اور وہ ان ہی طریقوں کے مطابق زندگی بسر کرنے لگی جن کے متعلق اسے علم تھا، اور یہ کمیونٹی ایک ایسے ہندوستان میں اقلیتی محلے بنا کر رہنے لگی جس کی حکمرانی صدیوں بعد ہندؤں کو ملی تھی۔ صرف کچھ مسلمان ایسے تھے جو ہندی پڑھنا اور لکھنا جانتے تھے، اور اس طرح یہ جلد ہی پیچھے رہ گئے۔
بعد میں، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت نے ہندوستان کو خیرباد کہا۔ شکریہ، ’’تقسیم‘‘ کا۔ ایسے کئی بیوروکریٹ، وکیل، اساتذہ اور کاروباری افراد تھے جنہیں امید تھی کہ مسلم ریاست میں مقبول و معروف ہندوؤں کے مقابلے میں زیادہ مسابقتی آزادی حاصل ہوگی۔
ان کا اس طرح جانا بھارت کیلئے تباہ کن ثابت ہوا؛ کیونکہ جو مسلمان بھارت میں رہ گئے تھے ان کے پاس معتدل مزاج اور تعلیم یافتہ قیادت کا فقدان تھا۔ ایک اور عنصر یہ بھی تھا کہ کانگریس پارٹی نے ایسے مسلمانوں کے سر پر ہاتھ رکھا جو مذہبی تھے اور لبرل اور سیکولر ہونے کی بجائے رد عمل دکھانے میں تحمل سے کام نہ لیتے تھے۔ ایسا ہمیشہ سے نہ تھا۔ جواہر لعل نہرو نے اپنی زیادہ امیدیں دو شاندار اور ترقی پسند مسلم شخصیات (شیخ عبداللہ اور سعید الدین طیب جی) سے وابستہ کر رکھی تھیں۔
لیکن شیخ عبداللہ اپنے ہی مقاصد کا شکار بن گئے، وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے جمہوری رہنما کی بجائے آزاد کشمیر کا بادشاہ بننا چاہتے تھے ۔ جبکہ طیب جی کا انتقال نوجوانی میں ہی ہوگیا۔
جس وقت نہرو نے زیادہ سے زیادہ ترقی پسند اور جدید مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی، اسی وقت اندرا گاندھی، راجیو گاندھی اور سونیا گاندھی کی کانگریس نے مستقل مسلمانوں کے قدامت پسند حلقے کو ساتھ رکھا۔ جس وقت راجیو گاندھی کی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ عارف محمد خان نے مسلم پرسنل لاء میں اصلاحات کیلئے عوامی سطح پر جانے کی کوشش کی تو راجیو نے ملاؤں کا ساتھ دے کر ان سے کنارہ کشی اختیار کی۔ یہ طرز عمل جاری رہا، کانگریس کی موجودہ قیادت مسلم مذہبی اداروں کو مراعات اور سبسڈی دینے کو ترجیح دے رہی ہے بجائے اس کے کہ مسلم کمیونٹی کی حوصلہ افزائی کرکے انہیں جدید دنیا کے ساتھ جوڑا جائے۔
دوسری جانب، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے مسلمانوں کے ساتھ ہندوستان کے برابر کے شہری جیسا سلوک روا رکھا ہے۔ جبکہ آزاد بھارت میں راشٹریہ سویم سیوک سنگ اور ویشوا ہندو پریشد جیسی جماعتوں نے نسلی فسادات کی بنیاد ڈالی جن کیلئے 1989 کے سانحہ بھاگل پور، 1992 کے بامبے اور 2002 کے گجرات سانحے کے واقعات کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان تمام معاملات میں متاثرین کی ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی تھی۔
اِس وقت بھارت میں 2.32 فیصد مسیحی، 2 فیصد سکھ، 0.77 فیصد بدھ مت کے ماننے والے، 0.5 فیصد جین مت کے ماننے والے، 0.43 دیگر اقوام رہتی ہیں جبکہ مسلمانوں کی تعداد مجموعی آبادی کا 13.4 فیصد ہے۔ (یاد رہے کہ بھارت میں 80.5 فیصد لوگ ہندو ہیں)۔
دوسری جانب، مسلمانوں کی اپنی ہی بے حسی ان کی موجودہ صورتحال کی ذمہ داری ہے، بالخصوص تعلیم کے شعبے میں۔ نیشنل کمیشن برائے تعلیمی ادارے برائے اقلیت (نیشنل کمیشن فار منارٹی ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن) کے چیئرمین جسٹس (ر) ایم ایس اے صدیقی کا کہنا تھا کہ مسلم کمیونٹی خود اپنی سماجی اور تعلیمی پسماندگی کو بہتر بنانے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ مسلم اشرافیہ صرف اسٹیبلشمنٹ سے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے میں مصروف ہے؛ چاہے وہ پارلیمنٹ میں نشستوں کی صورت میں ہو، وزارتوں کی صورت میں ، عہدوں کی صورت میں یا پھر کسی ملک میں سفیر یا پھر مختلف کمیشنوں کے سربراہ لگنے کی صورت میں۔ انہیں مسلم عوام کی کوئی پروا نہیں ہے۔ ان میں فلاحی کاموں اور سماجی بھلائی کی کوئی سوچ نہیں ہے۔
مسلم تنظیمیں یا حکومتیں ایک دوسرے سے جو مطالبات کرتی ہیں وہ ٹھوس ہونے کی بجائے صرف شناخت کی بنیاد یا سطح پر ہوتے ہیں۔ ان ٹھوس مطالبات میں تعلیمی لحاظ سے کمیونٹی کو بااختیار بنانا، جدید تعلیم کا فروغ، ملاؤں کی جہالت پسندی کا انسداد، یا پھر مسلم پرسنل لاء میں اصلاحات وغیرہ جیسے اقدامات کرکے خواتین کو با اختیار بنانا شامل ہوسکتا ہے۔
سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق، شہری آبادی سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی صرف آٹھ فیصد تعداد شہروں میں رہنے والے دیگر بھارتی شہریوں کے 21 فیصد کے مقابلے میں باضابطہ سیکٹر کا حصہ ہیں۔ اکتیس فیصد مسلمان غربت کی لکیر سے نیچے رہتے ہیں، اور یہ تعداد پینتیس فیصد دلت اور آدی واسی (قبائل) کے قریب ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جس وقت پورے بھارت میں شرح پیدائش میں کمی ہو رہی ہے اس وقت مسلمانوں میں شرح پیدائش میں کمی کی رفتار سست ہے۔
امریکی تھنک ٹینک، دی یو ایس انڈیا پالیسی انسٹی ٹیوٹ، کی نئی تحقیق میں سچر رپورٹ کے بعد سے ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس تحقیق میں دو ٹوک انداز میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ مسلمانوں نے کسی بھی لحاظ سے قابل ذکر بہتری نہیں دکھائی۔ حتیٰ کہ تعلیم کے معاملے میں بھی مسلمانوں کی کارکردگی دیگر گروپس کے مقابلے میں معمولی ہے۔