عبدالکریم عابد
جب مسلم رہنما اور علماء اپنی زبان کو شائستہ نہیں رکھ سکتے تھے تو قوم میں شائستگی اور وسیع المشربی یارواداری کیسے پیدا کرسکتے تھے۔ سرفیروز خان نون انگلستان کے تعلیم یافتہ آدمی تھے، گھر میں یورپین بیوی تھی مگر لیگی لیڈر کی حیثیت سے انہوں نے بیان دیا تو کہا کہ ہم ہندوؤں کو ہلاکو او رچنگیزبن کر بتائیں گے۔
♦♦
برصغیر کے مسلمانوں کی ذہنی وجذباتی حالت کی جو نوعیت ہوش سنبھالنے کے بعد دیکھی وہ دل میں خلش پیدا کرتی تھی۔ کیونکہ یہ ان اعلیٰ اخلاقی اصولوں سے بالکل عاری تھی جو ہمارے مذہبی تاریخی،ادبی لٹریچر میں نظر آتی تھی۔ عوام اور خواص میں مسلم لیگ بہت مقبول تھی مگر مسلم لیگی عوام مولانا آزاد او رمولانا حسین احمد مدنی کے بارے میں کافی بدکلامی کا مظاہرہ کرتے تھے اور جب وہ اپنے مولانا لوگوں کا احترام نہیں کرسکتے تھے تو دوسروں کا کیا کرتے۔ اس لئے گاندھی اور نہرو کے لئے مغلظات کا استعمال عام تھا اس کے مقابلے میں ہندوؤں کی یہ خصوصیت تھی کہ وہ اپنے سب ہی راہنماؤں کا احترام کرتے تھے۔ سبھاش چندر بوش باغیانہ اور جنگجویانہ مزاج رکھتے تھے، گاندھی عدم تشدد اور روحانیت کے قائل تھے، نہرو لامذہب تھے، سردار پٹیل میں ہندو تعصب تھا، راج گوپال اچاریہ مسلم دوست تھے۔ غرض ہر ہندو لیڈر نظریاتی اور مزاجی لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف تھا مگر ہندو سب کا احترام کرتے تھے، ان کی تصاویر گھروں میں سجاتے اور ان کی تصویروں کو ہار پھول پہناتے۔ یہ کبھی کسی نے نہیں سوچا کہ ان لیڈروں میں مرا کون ہے، وہ سب کو خیالات کے اختلاف کے باوجود اچھا سمجھتے تھے۔ کانگریسی لیڈروں ہی کی نہیں کمیونسٹوں کی بھی عزت ہوتی تھی۔
مگر مسلمان اپنے لیڈروں میں سے کسی ایک کے پرستار ہوجاتے تھے باقی کے خلاف ہر طرح کی بدزبانی روارکھتے تھے۔ مسلم لیڈر اور دانشور خود بھی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور اسکینڈل اچھالنے کے عادی تھے، ہر ایک دوسرے کو گرا کر اوپر آنا چاہتا تھا۔ اس چیز نے مسلمانوں کی قیادت کے ابھار کا راستہ روکا کیونکہ ہر چھوٹے بڑے لیڈر اور دانشور کو مخالفین کے ٹولے سے سابقہ پڑتا تھا اور یہ مخالفت سخت ناشائستہ ہوتی تھی۔ اس طرح شخصیتوں کے بناؤ اور تعمیر کا عمل مشکل ہوگیا تھا، اس معاملہ میں سب ایک جیسے تھے۔ نیشنلسٹ مسلمان بھی قائداعظم کے خلاف ہر قسم کی بکواس کرتے تھے، انگریز کا ایجنٹ کہنا عام بات تھی۔ اس طرح مسلم سیاست اور صحافت میں گالم گلوچ کافی دیکھنے میں آئی۔ مذہبی حلقوں کا اس سے برا حال تھا اور ان کی بدزبانی کی کوئی انتہا نہیں تھی، کوئی مخالف کافر اور دجال سے کم نہیں سمجھا جاتا تھا۔
جب مسلم رہنما اور علماء اپنی زبان کو شائستہ نہیں رکھ سکتے تھے تو قوم میں شائستگی اور وسیع المشربی یارواداری کیسے پیدا کرسکتے تھے۔ سرفیروز خان نون انگلستان کے تعلیم یافتہ آدمی تھے، گھر میں یورپین بیوی تھی مگر لیگی لیڈر کی حیثیت سے انہوں نے بیان دیا تو کہا کہ ہم ہندوؤں کو ہلاکو او رچنگیزبن کر بتائیں گے۔انہیں ابوبکرؓ اور علیؓ اپنے ہیرو نظر نہیں آئے چنگیز خان او رہلاکو نظر آئے۔ بنگال کے مولوی فضل حق کو شیر بنگال کا خطاب اس بات پر دیا گیا کہ انہوں نے مسلم لیگ کے اجلاس میں کہا کہ یوپی کے مسلمانوں کا ساتھ برابر تاؤ کیا گیا تو بنگال میں ہم ہندوؤں سے اس کا شدید بدلہ لیں گے۔ اس پر نعرے لگے او رانہیں شیر بنگال کا خطاب دیا گیا، بعد میں جب ان کی مخلوط حکومت کے ہندو وزیروں نے کہا کہ یہ آپ نے کیا کہہ دیا تو انہوں نے کہا کہ وہ تو میں نے علماء کے جوش کو دیکھ کر کہہ دیا تھا بلکہ اسٹیج پر تو ایسا کہنا او رکرنا ہی پڑتا ہے ورنہ میں تم سے الگ تھوڑا ہی ہوں۔
مولانا آزاد سفر کے دوران علی گڑھ اسٹیشن سے گزررہے تھے تو علی گڑھ کالج کے طلباء مادرازدننگے ہوکر مولانا کے سامنے کھڑے ہوگئے، گندے انڈے پھینکے اور انہیں فحش گالیاں دیں۔ مراد آباد کے اسٹیشن پر حضرت مولانا حسین مدنی کی داڑھی نوچی گئی او رمنہ پر تھوکا گیا، مولانا حفظ الرحمن نے اس پر بیان جاری کیا او رکہا کہ نفرت اور بداخلاقی کے مظاہر ناقابل برداشت ہیں۔ ہم مسلم لیگیوں سے اسلام کو واسطہ دے کر کہتے ہیں کہ وہ علماء کی توہین نہ کریں۔ مولانا مدنی نے اس واقعے پر عجیب تبصرہ کیا کہ وہ واقعہ میرے ایمان کے کمزور ہونے کی دلیل ہے، اگر ایمان پختہ ہوتا تو صرف بدسلوکی نہ ہوتی مجھے قتل کردیا جاتا۔ عطا اللہ شاہ بخاری صدر مجلس احرار نے اپنے بیان میں کہا کہ’’مجھے اس بات کا گلہ نہیں ہے کہ مجھ پر تہمتیں لگائی جارہی ہیں، لیکن اس بات کا گلہ ضرور ہے کہ مسلمان قوم کا اخلاق بگاڑاجارہا ہے، طلباء اپنے بزرگوں کے سامنے ننگے ناچتے ہیں، ان کی متبرک داڑھیوں میں شراب انڈیلتے ہیں۔ وہ مسلمان نوجوان کو کس طرف لے جارہے ہیں۔
میں نے سری نگر میں ابوالکلام آزاد کے جلوس پر جوتوں کی بارش کا حال پڑھا ہے، علی گڑھ میں طلباء نے مولانا کے ڈبے میں داخل ہوکر اپنی پتلونیں اتاریں اور اپنی شرم گاہوں کا مظاہرہ کیا۔ آخر یہ کیا تماشہ ہے، اور ابوالکلام تک ہی معاملہ محدود نہیں ہے ان کی اہلیہ کو کسی نے بے نقاب نہیں دیکھا ان کی موت کے وقت مولانا آزاد جیل میں تھے۔ مسلم لیگی رضاکار مسلمانوں کو جنازے میں شرکت سے یہ کہہ کرروکتے رہے کہ کافرہ مرگئی ہے۔ مولانا حسین احمد مدنی کی ٹوپی بھی جلادی گئی اور ان کی نورانی داڑھی میں شراب انڈیلی گئی۔ یہ سلوک اس حسین احمد کے ساتھ کیا گیا جو آل رسول ہے، جو چودہ برس مدینہ میں درسِ دین دیتا رہا او رمدینہ سے تعلیم حاصل کرنے والے ہندوستان کے ہزاروں محدث اس کے شاگرد ہیں۔ میں اس پر روتا ہوں کہ مسلمان قوم کا کیا بنے گا۔ میرے متعلق کہا جاتا ہے کہ ہندو کے ہاتھ بک گیا او ریہی ابوالکلام اور حسین احمد کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے۔‘‘
احرار کے رہنما عطاء اللہ شاہ بخاری کا ماتم بجاتھا لیکن خود احراری خاکسار او رجمعیت العلمائے ہند کے رہنما کون سی اچھی زبان استعمال کرتے تھے۔ سر سید، قائداعظم، علامہ اقبال کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا گیا او رلکھا گیا۔ جب کہ متعدد منصف مزاج ہندو مثلاً سروجنی نائیڈو، راج گوپال اچاریہ وغیرہ قائداعظم کے بے حد مداح تھے مگر نیشنلسٹ مسلمان ان کی عزت کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ دراصل مسلمانوں کا یہ مزاج علماء نے بنایا تھا کہ ہر مخالف قابل گردن زدنی ہے۔ یہی مزاج اہل سیاست کے ورثہ میں آیا اور اس کا ارتقاء آج کل کی کلاشنکوف سیاست ہے۔
اس مزاج کا ہی نتیجہ تھا کہ مدارس میں مارچ1947ء کے کل ہند اجتماع جماعت اسلامی میں مولانا مودودیؒ کی تقریر کے دوران غنڈے پنڈال میں گھس گئے او راجتماع درہم برہم کردیا، بعد میں لیگی رہنماؤں نے مولانا سے مل کر اس واقعہ پر معافی مانگی۔ اجلاس کے دوران میں نے جماعت کی رکنیت کا حلف لیا تھا، میں اس جماعت کا سب سے کم عمر رکن تھا۔ یعنی سترہ سال کی عمر تھی اور ڈھائی سال تک امیدوار ر کنیت رہنے کے بعد رکن بنایا گیا تھا۔ اجلاس میں غنڈہ گردی کو روکنے کی کوشش میں ایک پہلوان نما شخص نے میرے منہ پر زبردست طمانچہ رسید کیا۔ میں چکرا گیا، آنکھوں کے سامنے اندھیرا آگیا مگر دل میں خوش ہوا کہ چلو ایک سعادت حصے میں آگئی۔ اس اجتماع میں مولانا نے ہندوستان میں تحریک اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل کے عنوان سے ایک اہم تقریر کی تھی۔ اس تقریر کے مندرجات اور ہندوستانی جماعت اسلامی کا پھر کبھی تذکرہ ہوگا۔
مسلمانوں کے مزاج کی دوسری خصوصیت ان کا جھوٹا زعم تھا، وہ سمجھتے تھے کہ ہم بہت برترہیں ہندو کیا چیز ہے اسے ہم چیونٹی کی طرح مسل کر رکھ دیں گے۔ یہ احساس برتری پدرم سلطان بود کے مصداق تھا۔ شبلی نے لکھا ہے کہ میں نے مسلمانوں کی تاریخ او رتاریخی کارنامے اس لئے لکھے کہ وہ ماضی سے متاثر ہوکر آگے کی جدوجہد کریں مگر میری کتابوں کا الٹا اثر ہوا، ان کتابوں سے مسلمانوں پر اپنی برتری کا جھوٹا نشہ طاری ہوگیا اور وہ بس نشے میں مست رہنے لگے۔ مگریہ جھوٹا زعم خاص طو رپر ہندوستانی مسلمانوں کو بہت مہنگا پڑا اور باقی دنیا میں جو حالات آج کل ہیں وہ اس زعم کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔ دراصل مسلمانوں کی کمزوری ان کے جوشیلے مقرر ہیں، ان جوشیلی تقریروں کا بنیادی عنصر نفرت ہوتا ہے او رہماری بیشتر سیاسی ومذہبی تحریکوں نے مسلمانوں کا نفرت کے گندے جوہڑوں میں غرق کیا اور ساتھ ہی خوش فہم بھی بنایا کہ وہ اگرچہ گندے نالوں میں لت پت پڑے ہیں مگر امید رکھتے ہیں کہ یہیں بیٹھے بیٹھے معجزہ ہوجائے گا اور وہ آسمانوں کی اڑان کا مزہ لیں گے۔*
(سفر آدھی صدی کااز عبدالکریم عابد، ادارہ معارف اسلامی کراچی)
2 Comments