محمد اکمل سومرو
برطانیہ نے برعظیم پر اپنی فتوحات کا خاتمہ 1849ء میں پنجاب پر قبضہ کرنے کے بعد مکمل کیا اور شاہی قلعہ لاہور پر برطانیہ نے اپنا جھنڈا لہرایا۔ اس پورے خطے کے انسانوں کو سیاسی طور پر غلام بنانے کی مہم کایہ آخری معرکہ تھا۔ لاہور جو پہلے ہی تہذیب کا مرکز تھا اور مغلیہ سلطنت کا مضبوط سیاسی قلعہ، اس شہر میں برطانیہ نے نوآبادیاتی مقاصد کے پیش نظر یہاں پر تعلیمی نظام کی بنیاد رکھنی شروع کی۔ 1864ء میں گورنمنٹ کالج لاہور کے بعد1886ء میں دو سو ایکٹر رقبے پر ایچی سن کالج کی بنیاد رکھی گئی۔
اس بورڈنگ کالج میں ابتدائی طور پر پنجاب بھر کے جاگیردار، وڈیرے اور پھر برطانیہ کے لیے بطور سیاسی ایجنڈا کام کرنے والے خاندانوں کے بچوں کے لیے تعلیم کا بندوبست ہوا۔ ایچی سن کالج میں پہلے دن سے ہی بھاری فیسوں کی وجہ سے یہاں پر صرف انہی خاندانوں کے بچوں کی ذہنی آبیاری کی جانے لگی جس کا مقصد مستقبل کے لیے برطانیہ کو اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطروفاداروں کی نئی پود تیار کرنا تھی۔ اس کالج کی خاص بات یہ تھی کہ یہاں پر نافذ ہونے والے تعلیمی نظام اور نصاب تعلیم کو نوآبادیاتی سانچے میں ڈھالا گیا ۔
برطانیہ کے وفادار پنجاب کے خاندان ہی نہیں بلکہ سندھ کے جاگیرداروں کے بچوں کو بھی اسی کالج میں داخلے دیے گئے۔ جاگیردارخاندانوں کا یہ وہ ٹولہ تھا جو 1857ء کی جنگ آزادی میں قومی غداری کا مظاہرہ کیا اور انگریزوں کی وفاداری کے مرتکب ہوکر برطانیہ کی فتوحات کے جھنڈے پنجاب میں بھی بلند کرائے۔ ایچی سن کالج میں اس نئی وفادارنسل کی تیاری میں بیوروکریسی کا وہ طبقہ بھی تیار ہوا جو برطانوی سامراج کے ساتھ ملکر اس قوم پر غلامی مسلط کرنے میں انگریزوں کی وفاداری کرتا رہا۔
ایچی سن کالج کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ130سالوں سے یہاں پر صرف اشرافیہ کے بچوں کو پڑھایا جاتا ہے اور آزادی کے بعد بھی خود کو برہمن تصور کرنے والی پاکستانی اشرافیہ کے بچوں کو ہی ایچی سن کالج میں داخلہ ملتا ہے۔عوامی ٹیکسوں پر پلنے والے یہ انسان دْشمن پاکستانی برہمن باقی ساری عوام کو شودر سمجھتے ہیں۔ 1947ء سے لیکر آج تک سیاسی اشرافیہ نے بیوروکریسی کے توسط سے ایچی سن کالج پر قبضہ کیا ہوا ہے ، اس کالج میں اشرافیہ کے بچوں کی جدید نوآبادیاتی دور کے تقاضوں کے مطابق ذہنی آبیاری کی جارہی ہے اور پھر یہاں کے فارغ التحصیل طلباء بیرون ممالک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان پر سیاسی اور بیوروکریسی کی شکل میں مسلط کر دیے جاتے ہیں۔
سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی، اکبر بگٹی،چوہدری نثار علی خان،عمران خان،پرویز خٹک، فاروق لغاری،سردار ایاز صادق،غلام مصطفی کھر سمیت کتنے ایسے نام اوربھی موجود ہیں جو ملکی سیاست پر چار دہائیوں سے قابض ہیں ۔ پاکستانی عوام کی جدید غلامی کی اس نئی شکل میں ایچی سن کالج کا محض یہی کردار ہے۔نہ تو یہاں کا نصاب تعلیم کا ملک کے ساتھ کوئی سروکار ہے اور نہ ہی ایچی سن کالج سے وابستہ خاندانوں کو قومی ترقی سے غرض ہے۔ گورنر پنجاب جو سیاسی اشرافیہ کے وفاقی نمائندے ہیں اْن کی ایچی سن کالج کے بورڈ آف گورنرز میں صرف یہی حیثیت ہے کہ کالج کو اشرافیہ کے مفادات کے تحت چلانا ہے۔
پرنسپل ڈاکٹر آغا غضنفر نے جب اشرافیہ کے نکمے بچوں کے لیے ایچی سن کالج کے دروازے بند کیے تو گورنر پنجاب بااثر سیاسی اشرافیہ کے زیر اثر ہوکر پرنسپل پر اس کالج کے دروازے بند کر دیے۔ ایچی سن کالج کے پرنسپل کو تو سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، بااثر کاروباری شخصیت میاں منشاء ، سابق گورنر مخدوم احمد محمود اور دیگر خاندانوں کے لیے زرخرید غلام سمجھتے ہیں اور جب اس غلام نے بغاوت کی اور ان کے بچوں کو داخلے دینے سے انکار کیا تو اس جُرم کے پاداش میں انہیں عہدے سے ہی فارغ کر دیا گیا۔
باقی بات رہی اس کالج میں میرٹ کی تو پہلے کون سا یہاں میرٹ تھا؟ جس کالج میں ایک مہینے کے اخراجات فی طالبعلم ایک لاکھ سے زائد ہوں تو وہاں پر ذہانت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ملک کی دولت لوٹنے والوں کے نااہل بچوں کو سرمائے کی بنیاد پر ہی داخلہ مل سکتا ہے جو یہ اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ ذرا غور کریں کہ ایچی سن کالج میں پڑھنے والے بچوں نے آج تک ملکی تاریخ میں کون سی توپ چلائی ہے جس پر اْنہیں فخر ہوسکے؟ پاکستان کی اشرافیہ تو سٹیٹس کو کی دن رات پوجا کرتی ہے ان کی خواہش ہے کہ ایچی سن کالج جیسے مزید کالج بنائے جائیں تاکہ وہ اپنی پوری کی پوری نسلوں کی یورپین طرز پر پرورش کریں کیونکہ ایچی سن کالج کی روایات اور کھیل اس بات کی گواہی ہیں کہ اس ادارے سے وابستہ خاندانوں کو ملکی ثقافت اور روایات سے نفرت ہے وگرنہ یہ اپنے بچوں کی پرورش اسی ملک میں کریں۔
معاملہ یہیں نہیں ختم ہوتا، ایچی سن کالج کا پھرملکی ترقی میں کیا کردار ہے؟ اس کالج کا نصاب تعلیم یورپین، امتحانی نظام یورپین اور رہن سہن یورپین تو پھر یہ پاکستان کے وفادار کیسے بن سکتے ہیں؟حکومت پنجاب اور وفاقی حکومت میں موجود بڑے بڑے بْرجوں کے خاندانوں کی بقاء اسی میں ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے ہی خاندانوں جیسے بچوں کے ساتھ پڑھائیں تاکہ اس ملک کو عالمی سامراجیت اور غلامی کے جدید دور کے مطابق ملکر یرغمال بنایا جاسکے۔ حکومت اپنی مکروہ نیت اور دوغلی پالیسی کے تحت ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام پر معیاری تعلیم کے دروازے بند کر کے اپنے استحصالی منصوبوں کو تقویت دینا چاہتی ہے اور ایچی سن کالج اس بچھائی ہوئی شطرنج کا اہم مہرہ ہے۔
عوام، سیاستدانوں کے دلفریب نعروں کی زد سے اْس وقت تک آزاد نہیں ہوسکتی جب تک ان میں حقیقی آزادی کا شعور پیدا نہیں ہوتا۔ پنجاب حکومت نے صوبے میں دانش سکولز کھول کر یہ واضح پیغام دے دیا ہے کہ غریبوں کے بچوں کے لیے ایچی سن کالج میں کوئی جگہ نہیں ہے وگرنہ ایچی سن کالج کو ہی غریبوں کے ذہین بچوں کے لیے کھولا جاسکتا ہے۔ تعلیمی شعبے میں حکومت کی یہ منافقت واضح دلیل ہے کہ قوم کو ذہنی طور پر تقسیم رکھنے کے لیے انہیں مختلف تعلیمی نظاموں میں ہی پڑھایا جائے۔