احمدی اور پاکستان میں مذہبی امتیاز کی سیاست

انٹرویو: علی عثمان قاسمی

ahamidi
کوئی چالیس سال پہلے ، ۱۹۷۴ میں،تہتر کے آئین میں دوسری ترمیم کی گئی تھی جس کے مطابق احمدیوں کو غیر مسلم قراردیا گیا۔ یہ اصل میں احمدیوں کے خلاف سماجی وسیاسی مقاطعہ کرنے کی کوششوں کا نتیجہ تھا جو ۱۹۵۲ کی متشدد اینٹی احمدیہ تحریک کے بعد شروع ہوگئیں تھیں۔ دوسری ترمیم کے بعد علما نے ان پر مزید پابندیاں لگانے کا مطالبہ شروع کر دیا ۔لہذا ۱۹۸۴ میں جنرل ضیاء الحق نے صدارتی آرڈنینس ۲۰ کے تحت ان پر مزید پابندیاں لگا دیں جس کے بعداحمدیوں کی سماجی اور سیاسی مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا۔

علی عثمان قاسمی نے اس صورتحال کا علمی تجزیہ اپنی نئی کتاب احمدی اور پاکستان میں مذہبی امتیاز کی سیاست میں کیا ہے۔علی عثمان قاسمی نے جنوبی ایشیائی تاریخ پر پی ایچ ڈی کی ہے اور لمزمیں پڑھاتے ہیں۔ دی نیوز آن سنڈے(سات ستمبر2014) نے ان کی کتاب سے متعلق انٹرویوکیا جس کے اقتباسات درج ذیل ہیں۔ایمل غنی۔ فرح ضیاء
**
سوال:آپ کو اس کام میں کیسے دلچسپی ہوئی اور اس تحقیق سے کیا حاصل ہوا؟

جواب:میں اصل میں’’جنوبی ایشیاء میں اسلام اور انیسویں صدی میں اس میں کیا اصلاحات ہوئیں‘‘کے موضوع پر کام کرتارہا ہوں ۔ ۔ میری پہلی کتاب اہل قرآن کی تحریک سے متعلق تھی۔

اپنی تحقیق کے سلسلے میں جب پنجاب آرکائیوز( لاہور سیکرٹریٹ) میں تھا تو مجھے ایک کونے میں کچھ جلدوں کا ڈھیر نظر آیا۔ جب میں نے ایک جلد اٹھائی تو وہ منیر انکوائری کمیشن کی کاروائی کا ایک حصہ تھی۔اس سے پہلے ہم نے صرف منیر انکوائری رپورٹ ہی پڑھی تھی اور کسی کو یہ علم نہیں تھا کہ اس کمیشن کی کاروائی بھی کئی جلدوں میں موجود ہے۔ حتیٰ کہ جسٹس منیر نے بھی اپنی کتاب’’ جناح ٹو ضیاء‘‘ میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ انکوائری کمیشن کی کاروائی سے متعلق ریکارڈ ضائع ہو چکا ہے لیکن وہ سارا ریکارڈ نہ صرف موجود تھا بلکہ اس کی کئی کاپیاں بھی تھیں ۔ میں نے وہ ریکارڈ لیااور اس طرح میری اس میں دلچسپی پیدا ہوئی۔

خوش قسمتی سے اسی دوران بیرسٹر بشیر اے خان نے سپیکرقومی اسمبلی کو درخواست دی کہ ۱۹۷۴میں پارلیمنٹ کی احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی کاروائی کو ڈی کلاسیفائی کیا جائے ۔اس وقت ۱۹۵۳ اور ۱۹۷۴ کی کاروائی سے متعلق تمام سرکاری ریکارڈ دستیاب ہے جو کہ پاکستان کی تاریخ کا انتہائی اہم حصہ ہیں۔
سوال: ۱۹۷۴ کی قومی اسمبلی کی کاروائی سے آپ کیا اخذ کرتے ہیں؟

جواب:یہ کاروائی پاکستان کی تاریخ کے اہم واقعات میں سے ہے۔ اس کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں علماء کا کردار غالب تھاکیونک وہ اسمبلی میں حزب مخالف کا ایک بڑا حصہ تھے۔اس لیے ذوالفقارعلی بھٹو کے لیے یہ مشکل تھا کہ انہیں اسمبلی میں کسی موثر کردار ادا کرنے سے روکیں۔

یہی وجہ تھی کہ اس کاروائی کے بعد مولانا مفتی محمود نے ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم جو کچھ ۱۹۵۳میں حاصل نہیں کر سکے تھے اب حاصل کر لیا ہے کیونکہ اس وقت ہمارے پاس اسمبلی میں سیاسی طاقت نہیں تھی ۔ اب ہم اسمبلی میں ہیں اور جو حاصل کرنا چاہتے تھے کر لیا ہے۔

دوسری اہم بات یہ تھی کہ اٹارنی جنرل اور احمدیوں کے نمائندوں کے درمیان جو بحث ہوئی اس کو دوسرے ارکان اسمبلی سمجھ ہی نہ سکے تھے۔ جب یہ بحث مکمل ہوئی تو اسمبلی کے دوسرے اراکین نے اس مسئلے پر جو تقاریر کیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ تیس دن سے زیادہ جو بحث ہوئی تھی ان کو اس کی کوئی سمجھ نہیں آئی۔ ’’نبوت‘‘ کی اصطلاح کا جو مفہوم احمدی بتا رہے تھے ارکان اسمبلی اس کو سمجھ ہی نہ سکے۔

دراصل یہ ایک قسم کا کمیونیکیشن گیپ تھا کہ ایک مذہبی مسئلے کو قانونی اصطلاح میں کیسے بیان کیا جائے۔

سوال:کیا انہیں یہ پتہ تھا کہ اس بحث کے لیے پارلیمنٹ مناسب فورم نہیں ؟

جواب:اصل مسئلہ یہی ہے۔ احمدیوں کے نمائندوں کی طرف سے یہی دلیل دی جارہی تھی کہ پارلیمنٹ اتنی بااختیار نہیں کہ وہ جو کچھ چاہے کردے۔ پارلیمنٹ کی کچھ حدود ہیں وہ کسی کے انفرادی حقوق پر پابندی نہیں لگا سکتی، یہ اس کے دائرہ کار سے باہر ہے۔

لیکن میرا خیا ل ہے کہ ۴۷یا پھر ۵۰ میں (قراردادِ مقاصد کی منظوری کے بعد )جب پاکستان کو اسلامی ریاست قرار دیا گیا تو بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ریاست کا سربراہ مسلمان ہو گا۔ اس لیے یہ ضروری ہو گیا تھا کہ ’’مسلمان‘‘ کی تعریف کی جائے تاکہ کسی غیر مسلم کو ریاست کا سربراہ بننے سے روکا جا سکے۔جب تک کہ ریاست یا پارلیمنٹ اس قسم کی تخصیص کو ختم نہ کردے ایک اسلامی ریاست میں بہرحال یہ سوال موجود رہتا ہے کہ کون مسلمان ہے اور کون نہیں۔

میں پارلیمنٹ کی طرف سے کسی کو مسلمان یا غیر مسلم قرار دینے کے حق کی حمایت نہیں کر رہا ۔ اگر ریاست میں شہری حقوق کا تعین مذہبی بنیادوں پر ہو گا تو پھر لازمی طور پر ریاست مذہبی معاملات میں مداخلت کرے گی۔ پھر ریاست میں کوئی اتھارٹی ایسی ہوگی جو مذہبی بنیادوں پر شہریوں کے حقوق کا تعین کرے گی۔

سوال: اس کا مطلب یہ ہے کہ آ پ کا فوکس دو واقعات ہیں یعنی منیر انکوائری کمیشن اور قومی اسمبلی کی کاروائی ہیں۔

جواب: ۱۹۵۳ کی تحریک اور۱۹۷۴ کی تحریک کا پس منظر مختلف ہے۔ پچاس کی دہائی میں ستر کی دہائی جیسی مقبول جمہوریت نہیں تھی۔ پچاس کی دہائی میں ملک پر جو اشرافیہ حکومت کر رہی تھی وہ بہت حد تک جدید رحجانات کی حامل تھی جو پاکستان کو ایک جدید ریاست دیکھنا چاہتی تھی جبکہستر کی دہائی میں پاپولر جمہوریت کا دور تھا جس میں علماء کی ایک بڑی تعداد بھی شامل تھی۔

۱۹۵۳ میں کسی کو یہ جرأت نہیں تھی کہ وہ منیر کیانی کمیشن کے روبرو اپنے خیالات کا اظہار کر سکے جبکہ اسمبلی میں کوئی بھی رکن کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا ہے۔ جوڈیشل کمیشن میں عدالت کا وقار ملحوظ رکھنا ہوتا ہے اور انہی سوالوں کے جوابات دینے ہوتے ہیں جو پوچھے جاتے ہیں۔ لہذا کمیشن کی کاروائی میں چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے اس وقت کی حکمران اشرافیہ کی سوچ غالب تھی جبکہ پارلیمنٹ میں ہر رکن اسمبلی کو اپنے خیالات کے اظہار کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔

سوال: اس کا مطلب ہے کہ ۵۳ سے ۷۴ تک پاکستانی سماج نے روشن خیالی سے بنیاد پرستی کا سفر طے کیا اور علماء سیاسی طور پر مضبوط ہوئے۔ اورمنیر انکوائری کمیشن قومی اسمبلی کے مقابلے میں زیادہ ترقی پسند تھا۔

جواب آج پاکستانی سماج میں لبرل اور بنیادپرستوں کی تقسیم بہت واضح ہو چکی ہے ۔ بنیاد پرستوں کے نزدیک جسٹس منیر ایک ولن ہیں اور روشن خیالوں کے نزدیک وہ ہیرو ہیں جس نے علماء کی سوچ کو بے نقاب کیا۔

میرے خیال میں ۱۹۷۰ اور ۱۹۷۱ دو اہم سال ہیں۔ ۱۹۷۰ کے انتخابات میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے کلین سویپ کیا جبکہ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی۔ اگر آپ متحدہ پاکستان کی اسمبلی پر نظر دوڑائیں تو علماء کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی لیکن مغربی پاکستان کی اسمبلی میں ان کے پاس اٹھارہ سیٹیں تھیں ۔ اگر مسلم لیگ کے تمام گروپوں کو ملایا جائے تو دائیں بازو کی جماعتوں کی تقریباً تیس سے پینتیس سیٹیں تھیں اور وہ اسمبلی میں ایک مضبوط حزب اختلاف تھے اور یہ گروہ خیبر پختونخواہ (صوبہ سرحد) اور بلوچستان کی حکومتوں میں بھی شریک تھا۔ مولانا مفتی محمود تو سرحد (خیبر پختونخواہ )کے وزیر اعلیٰ بھی تھے۔

پھر ۱۹۷۱ کا سال بھی بہت اہم تھا۔ اس کی نفسیاتی وجوہات تھیں۔ مشرقی پاکستان کو بھارت کے آگے کھونا اور بنگلہ دیش کا بننا پاکستانی قوم کے نزدیک بہت بڑا سانحہ تھا۔ انڈین مارکسسٹ اعجاز احمد کہتے ہیں کہ پاکستان تو جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے بنایا گیا تھا جبکہ پاکستان سے زیادہ مسلمان انڈیااور بنگلہ دیش میں رہ رہے تھے تو پھر یہ دلیل گھڑی گئی کہ جنوبی ایشیا میں پاکستان ’’ اچھے مسلمانوں‘‘ کا ملک ہے ۔

لہذا ۱۹۷۱ کے بعد مذہب پسندی میں اضافہ ہوا ۔ ہمارا (پاکستانیوں) احساس تھا کہ ہم پسماندہ ہیں اور اچھے مسلمان بھی نہیں ہیں لہذا اب ہمیں اچھے مسلمان ہونا چاہیے۔ نئے پاکستان میں اپنی شناخت کا اظہار اسلام کے ساتھ کرنا بہت اہم ہو گیا تھااور میرے خیال میں ساٹھ کی دہائی کا آخر اور ستر کی دہائی کے آغاز میں اس سوچ کا فروغ شروع ہو چکا تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو ایک مقبول رہنما تھے اور انہیں اس بات کا احساس تھا کہ مذہب کو پاکستان کی شناخت کے لیے استعمال کرنے کے کیا کیا فوائد ہو سکتے ہیں۔ ۱۹۷۴ میں احمدیوں کے خلاف جو تحریک چلی تھی اس کی شدت ۱۹۵۳ کے مقابلے میں چلنے والی تحریک سے کم تھی۔ ۵۳ ء کی تحریک زیادہ سخت اور متشدد تھی۔

سوال:واپس منیر انکوائری رپورٹ کی طرف آتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں کہ ایک پیچیدہ مسئلے کا سادہ حل تلاش کیا گیا؟

جواب: اس رپورٹ کے کئی حصے اور پہلو ہیں۔ اس میں بے شمار ڈیٹا دیا گیا ہے ، ایف آئی آر کی کاپیاں ، آئی بی کی رپورٹیں اور مختلف رہنماؤں کی تقاریر کے حوالے وغیرہ شامل ہیں۔ منیر انکوائری کمیشن کا سب سے اہم پہلو وہ سوال ہے جو آج بھی دہرایا جاتا ہے کہ اسلامی ریاست کسے کہتے ہیں اور مسلمان کی تعریف کیا ہے؟

یہاں میں نے ریسرچر اسد احمد کے دلائل سے استفادہ کیا ہے جو انہوں نے اپنے پی ایچ ڈی کے تھیسس میں دیئے ہیں کہ ’’مسلمان‘‘ کی تعریف ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ جسٹس منیرنے علماء کے بیانات کا حوالہ دیا ہے جو کہ درست نہیں۔

منیر انکوائری رپورٹ کے متعلق ایک عام رائے ہے کہ انہوں نے علماء کو بے نقاب کیا ہے جو مسلمان کی کوئی متفقہ تعریف نہیں کر سکتے۔ میرے خیال میں ایسا کہنا کچھ زیادتی ہے۔ مسئلہ زیادہ پیچیدہ ہے ۔ علماء مسلمان کی تعریف نہیں کررہے تھے اور نہ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ جو وہ تعریف کررہے ہیں اس کے دائرہ سے باہر رہنے والے کو غیر مسلم تصور کیا جائے گا۔

اصل میں علماء جسٹس منیر کا سوال سمجھ ہی نہیں سکے تھے لہذا انہیں اس ناسمجھی کو بھگتنا پڑالیکن جب انہیں سمجھ آئی تو دیر ہو چکی تھی۔ ۱۹۵۶میں مولانا مودودی نے منیر انکوائری رپورٹ پر تنقید لکھی تھی اور اپنی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش کی مگر اس وقت دیر ہو چکی تھی۔

سوال : اس تنقید کی کیا اہمیت ہے؟

جواب: سوال بہت سادہ تھا کہ مسلمان کی تعریف کیا ہے؟ یعنی اگر آپ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینا چاہتے ہیں تو آپ کو مسلمان کی تعریف کرنی چاہیے۔ سوال پیچید ہ تھا۔ اصل میں علماء یہ کہہ ہی نہیں رہے تھے کہ مسلمان کی تعریف کی جائے وہ تو کہہ رہے تھے کہ وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ احمدی غیر مسلم ہیں۔

سوال: پھر ۱۹۵۴ سے ۱۹۷۴ تک احمدیوں کا سٹیٹس کیا تھا؟
جواب: میری رائے میں ۵۳ ء کی تحریک کے بعد احمدی کمیونٹی بہت حد تک سماج سے کٹ گئی تھی۔ احمدیوں نے بھی اپنے اوپر کچھ پابندیوں کو قبول کر لیا۔ ان کے معاشی مفادات کو نقصان پہنچااور انہوں نے رضا کارانہ طور پر اپنے مذہب کے پراپیگنڈے کو بھی کم کرلیا۔

۱۹۵۳ میں جب یہ تحریک عروج پر تھی تو مارشل لاء کے نفاذ سے پہلے ، مارچ کے پہلے ہفتے میں پنجاب سیکرٹریٹ میں اہم واقعہ ہوا۔ جب چیف سیکرٹری اور دوسرے سیکرٹری گورنر ہاؤس میں صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے بلائے گئے اجلاس میں شرکت کے لیے جانے لگے تو تمام کلریکل سٹاف نے ان کی کاروں کے گرد گھیرا ڈال لیا اور کہا کہ وہ ان کو جانے نہیں دیں گے ۔ ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ ان مظاہرین پر فائرنگ کیوں کر رہی ہے جو نبوت کے تحفظ کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ اصل میں یہ تحریک عوام میں مقبول ہو گئی تھی اور اس کا احمدیوں پر بھی گہرا اثر پڑا۔

میں نے اس واقعے کا اس لیے ذکر کیا ہے کہ آج عوام انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حمایتی ہیں جبکہ ۵۳ ء میں عوامی جذبات مظاہرین کے ساتھ تھے اور جونئیر سٹاف اعلیٰ افسران کی بات ماننے سے انکاری تھا۔
سوال: ایسا لگتا ہے کہ دولتانہ سیاسی طور پر احرار کو استعمال کرکے جو کچھ حاصل کرنا چاہتے تھے وہی کچھ بھٹو نے مذہبی سیاسی جماعتوں کو استعمال کرکے حاصل کر لیا؟

جواب:۱۹۵۰ میں دولتانہ نے جو کچھ کیا میرے خیال میں وہ اکیلے ایسا کرنے کے قابل نہیں تھے۔ میری رائے میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں برابری کا سوال بھی تھا۔ بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی رپورٹ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ لیکن بھٹو نے یہ سب کچھ بادلِ نخواستہ کیا ۔ بھٹو نے اسمبلی کے یہ سیشن کبھی اٹینڈ ہی نہ کیے وہ سات ستمبر کو اسمبلی میں آئے اور ترمیم کے حق میں ووٹ دیا اور تقریر کہ میں نے ’’نوے سالہ‘‘ مسئلہ حل کر دیا ہے۔

سوال: لیکن یہ مسئلہ تو بھٹو ہی اسمبلی میں لائے تھے؟

جواب: ہاں یہ درست ہے ، میری اس سلسلے میں بہت سے لوگوں سے گفتگو ہوئی ہے ۔ ڈاکٹر مبشر حسن کا کہنا ہے کہ بھٹو پر سعودی عرب کا دباؤ تھا اور اسی دوران انڈیا نے ایٹمی دھماکہ بھی کر دیا تھا۔ سعودی عرب نے کہا تھا کہ اگر مالی امداد چاہیے تو اس (احمدی) مسئلے کو ختم کرو۔ لیکن سوال پھر یہی ہے کہ اگر سعودی عرب چاہتا تھا تو کس لیے؟

احمدیوں کا نقطہ نظر یہ ہے سعودی حکومت کے پاس دھڑا دھڑ پیٹرو ڈالر آرہے تھے اور وہ مسلمانوں کی لیڈر شپ کا دعویٰ کرنا شروع ہو گئے تھے ۔ اس دوران اس نے مسلم دنیا میں مختلف اسلامی گروپوں اور مدرسوں کو فنڈ دینا بھی شروع کر دیئے تھے۔


سوال: لیکن کیا سعودی عرب نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ شیعوں کو بھی آئینی طور پر غیر مسلم قرار دیا جائے؟

جواب: ۱۹۷۴ تک علماء کی طرف سے شیعوں کو غیر مسلم قرار دینے کاکوئی مطالبہ نہیں تھا۔ ان کے خلاف پراپیگنڈہ۸۰ ء اور خاص کر۹۰ ء کی دہائی میں شروع ہواجب اعظم طارق قومی اسمبلی کے رکن بنے ۔ اس نے شیعوں کو کافر قرار دینے کا بل تیار کیا تھا لیکن اسے اسمبلی میں پیش کرنے کی اجازت نہ دی گئی کیونکہ ایرانی حکومت نے اس کا سخت نوٹس لیا تھا۔ اگر یہ بل پیش بھی ہو جاتا تو اسے مطلوبہ ووٹ نہیں ملنے تھے لیکن اسے پیش ہی نہیں ہونے دیا گیا۔

سوال: یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ احمدیوں نے ۱۹۷۴ کی ترمیم بھی قبول کر لی تھی لیکن ضیاء الحق کی طرف سے کی گئی ترمیم سے ان پر زندگی تنگ ہونا شروع ہوئی؟

جواب: ہاں یہ درست ہے ۔ اگر احمدیوں سے بات کریں تو وہ بتائیں گے کہ ہمیں دوسری ترمیم سے کوئی زیادہ نقصان نہیں ہوا تھا مگر ۱۹۸۴ کے آرڈینینس سے ان پر زندگی تنگ ہونا شروع ہوئی ۔

اسد احمد اس سلسلے میں ایک دلیل دیتے ہیں کہ ۷۴ء کی ترمیم کے بعد قانونی طور پر تو وہ غیر مسلم تھے مگر اپنے ظاہری افعال اور طور اطوار اور عمل سے وہ مسلمان ہی تھے۔وہ نماز پڑھ سکتے تھے، اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کہہ سکتے تھے ، کلمہ پڑھ سکتے تھے وغیر ہ وغیرہ۔

لیکن ۷۴ء کے بعد علماء نے ان تضادات کی نشاندہی کرنی شروع کر دی تھی۔ لہذا ان کا اگلا مطالبہ تھا کہ ان کی مسجدیں نہیں ہونی چاہیں اور نہ ہی یہ کوئی اسلامی لٹریچر طبع کر سکتے ہیں۔ ۸۴ء کے آرڈیننس نے ان مسائل کا حل نکالا۔ عدالت نے ۱۹۹۳ میں مشہور ظہیر الدین کیس کا فیصلہ کیا تھا جسے ’’کوکاکولا‘‘ فیصلہ کہا جاتا ہے۔ اس سے پہلے ۱۹۷۴ میں بھی قومی اسمبلی کی کاروائی میں یحییٰ بختیار اور دوسرے لوگ’’لکس صابن‘‘ جیسی اصطلاح استعمال کرتے تھے کہ لکس صابن صرف لیور برادرز ہی بنا سکتا ہے۔

لیکن ظہیر الدین کیس واضح طور پر کہتا ہے کہ احمدیوں کے عقائد مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کر تے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان اشتعال میں آکر کسی احمدی کو قتل کر دیتا ہے تو یہ جذباتی اقدام ہو گا کیونکہ اس نے تو نبیؐ کی محبت میں ایسا کیا ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر احمدی اپنے آپ کو مسلمان نہ بھی کہیں اور ان کا مذہب اسلام نہ بھی ہو تو پھر بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ کیونکہ احمدیوں کا عقیدہ ہے کہ مرزا غلام احمد نبی ہیں اور ان کی نبوت حضرت محمدؐ کی نبوت سے اخذ کی گئی ہے ۔ لہذا اگر آپ احمدی عقائد پر پابندی بھی لگائیں گے اور انہیں عبادت سے بھی روکیں گے تو مسئلہ بہرحال موجود رہے گا۔لہذا اگر آئین کہتا ہے کہ بطور اقلیت احمدیوں کو اپنے مذہب کے پرچار کا حق ہے تو وہ ایسا نہیں کر سکتے۔

سوال: اس تمام بحث میں آپ علامہ اقبال کی سوچ کو کیا مقام دیتے ہیں ؟ کیا ان کی کی گئی مسلمان کی تعریف منیر انکوائری کمیشن کے سامنے پیش کی گئی؟

جواب:انیسویں صدی کے آخر میں مسلمان کی تعریف اینگلو محمڈن لا میں شامل کی گئی۔ اس تعریف کے مطابق جو شخص کلمہ پڑھتا ہے وہ قانونی طور پر مسلمان ہے یہ تعریف ۱۹۸۰ تک رہی اور پھر تبدیل کی گئی۔اقبال کا نقطہ نظر کچھ مختلف ہے ۔ پاکستان کے تناظر میں اقبال کو نظریاتی رہنما قرار دیا جاتا ہے ۔ ۵۲ء کی اینٹی احمدیہ تحریک میں اخبارات میں باقاعدہ اشتہارات چھپتے تھے کہ اگر کسی کے پاس اقبال کا لکھا پمفلٹ ’’اقبال اور احمدیت‘‘ موجود ہے تو نہ صرف اسے دوبارہ شائع کیا جائے بلکہ اس کا اردو ترجمہ بھی کیا جائے۔اسے پراپیگنڈہ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔

لیکن اقبال کی تعریف ذرا مختلف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمان ہندوستان میں اقلیت میں ہیں لہذا انہیں اکٹھا رہنا چاہیے تاکہ عددی طاقت میں اضافہ ہو ۔ لہذا ان میں کسی قسم کا اختلاف ان کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتا ہے جبکہ احمدی اپنا تشخص مسلمانوں سے علیحدہ رکھنا چاہتے تھے۔ احمدیوں کا اصرار تھا کہ مردم شماری میں ان کو مسلمانوں سے علیحدہ ایک قوم کے طور پر رجسٹر کیا جائے۔ اس کے علاوہ کئی مذہبی معاملات میں اقبال، احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے تھے ۔ علامہ اقبال نے متحدہ ہندوستان میں جو بات کی تھی وہ پاکستان کے علماء کے مطالبے سے کہیں مختلف تھی۔

سوال: ہم اس نکتے پر پہنچ چکے ہیں کہ احمدیوں کا مسئلہ خالص علمی بنیادوں پر زیر بحث لایا جائے ۔ کیا آپ کی کتاب اس قسم کا کوئی موقع دیتی ہے یا نہیں؟

جواب: بنیادی طور پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد احمدیوں کے خلاف نہیں تھی کیونکہ انہوں نے ۷۴ ء میں اٹارنی جنرل کے دلائل سنے تھے اور مرزا غلام احمد کی تحریریں بھی پڑھ رکھی تھیں۔ لیکن ان کی مخالفت اس لیے ہوئی کہ ایک خاص طبقے نے ان کے خلاف نفرت پھیلائی اور احمدیوں کی طرف سے ا س کا توڑ کرنے کی کوئی کوشش ہو نہیں سکتی تھی۔

میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ میری کتاب ایک علمی بحث کو شروع کر سکتی ہے جو عوام کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کر سکے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں انسانیت بحران کا شکار ہے اورہمیں یہ فکر کرنی چاہیے کہ اس کو کیسے حل کیا جائے ۔ اس بحران کو قانونی یا آئینی طور پر حل نہیں کیا جاسکتا ۔اس کے لیے لوگوں کے ذہنوں کو بدلنا ہو گا اور یہ صرف اور صرف تحقیق اور آزادانہ گفتگو سے حل ہو سکتا ہے ۔ پھر ہی ہم اس انسانی بحران سے نبٹ سکیں گے جو ہمیں تباہی کی طرف لے جارہا ہے۔

نوٹ: قارئین میں سے اگر کوئی اس مسئلے پر اظہار خیال کرنا چاہتاہے تو نیا زمانہ کے صفحات حاضر ہیں۔ ایڈیٹر