تم نے دریا کو دیکھا ہے کروٹ بدلتے ہوے
اسکی لہروں میں سورج پگھلتے ہوے
سنا ہے یہ تم نے آذان سحر میں خدا بولتا ہے
جوممتا کا امرت پیاسے لبوں میں شہد گھولتا ہے
یہ قوت نمو کی نسل در نسل یوں چلی آ رہی ہے
یہی ہے تعلق خدا کا بھی ہم سے‘ یہ محور زمیں کا
ازل سے ابد کو ملاتا یہی ہے
مگر یہ تمھاری سمجھ سے ہے باہر
تمہیں کیا خبر ہے کہ مصوم بچے
اذان سحر ہیں کہ انکی زباں سے خدا بولتا ہے
تمھاری رگوں میں ازل سے ہے دہشت
لہو کا ہے پردہ تمہارے ذہن پر
سنا ہے یہ تم نے کہ کل اس جگہ پر
فرشتوں کے ہمراہ اقرا کی آیت
پڑھی جا رہی تھی جہاں تم نے آ کر
خدا کی زباں کو لہو میں ڈبویا
یہ آیت تو اب بھی پڑھی جا رہی ہے
پڑھو آ کہ تم بھی یہی اسم اعظم
پڑھو کہ خدا نے بنایا ہے سبکو
بنایا ہے انسان اس نے علق سے
وہ رب کرم جس نے پڑھنا سکھایا ہے
سب کو قلم سے
اسی نے بنایا یہ لفظوں کا رشتہ
جو انسان ناطق ہوا تو خدا سے جڑا ہے
ورنہ مٹی کے پتلے سے کیا معاملہ ہے
مگر تم جو کہتے ہو مارو انہیں
مارو انہیں جنکو عقل و فہم ہے
یہ حکم خدا ہے‘ یہ لکھا ہوا ہے
یہ جو اہل قلم ہیں‘ جو اہل نظر ہیں
یہ معصوم بچے کہ جنکو طلب ہے
علم کے نور کی‘ مار ڈالو انھیں
تمہیں کیا پتا ہے کیا لکھا ہوا ہے
کیا تم نے پڑھا ہے جو لکھا ہوا ہے؟
یہ اقرا کی آیت‘ تفسیر جس کی
معصوم بچے سکھاتے رہے
تم کو اپنے لہو سے
یہ آیت تمہاری سمجھ سے ہے باہر
جو بچوں کا تم سے لہو مانگتا ہے
بنایا ہے تم نے وہ اپنے ذہن سے
وہ تمہارا خود ہے
ہمارا خدا رب جود و کرم ہے
وہ رب قلم ہے‘ وہ علم بانٹتا ہے