عظمیٰ اوشو
تقریباً چار ماہ تک میڈیا ٹرائل کی زد میں رہنے والی ماڈل کی آخر کار درخواست ضمانت منظور کر لی گئی ۔ ضمانت کا فیصلہ سناتے ہوئے جج نے کہا کہ کسٹم حکام کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر سکے جس سے یہ ثابت ہو کہ ایان علی منی لانڈرنگ کرتے ہوئے پکڑی گئی ہے یا اس سے برآمد ہونے والے پیسے منی لانڈرنگ کے تھے۔
خیر قانون کی گتھیاں سلجھانا قانون دانوں کا کام ہے کیا سچ ہے کیا جھوٹ یہ بھی متعلقہ ادارے یا عدالتیں بہتر جانتی ہیں مگر اس کیس کا جو پہلو یہاں موضوع بحث ہے وہ ایان علی یا دیگر خواتین کی کردار کشی ہے کہ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ ایان علی منی لانڈرنگ میں ملوث ہے تو پھر اسے سزا دینا عدالتوں کا کام ہے سوشل میڈیاکے جہادیوں یا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا نہیں جو صبح و شام اپنی عدالتیں لگائے بیٹھے ہیں۔
ایان علی کا کیس جیسے ہی منظر عام پر آیا ایک نہ تھمنے والا طوفانِ بدتمیزی شروع ہو گیا کبھی بریکنگ نیوز کے طور پر محترمہ کا ٹیٹو دکھایا گیاتو کبھی اس کی قمیض کا گلا موضوع بحث بنا کبھی تبصرے اس کے میک اپ کے تو کبھی چرچے اس کے کپڑوں کے اور ان سب سے خطرناک اور سنگین الزام جو عائد کیا گیا وہ ایان کا پریگنینٹ ہونا تھا۔کہا گیا کہ ایان چار ماہ کی حاملہ ہے۔
اب ان قانون دانوں سے بندہ پوچھے کہ جب کوئی شخص جوڈیشل ریمانڈ پر جیل جاتا ہے تو اس کا میڈیکل ایگزامن ہوتا ہے جس میں خواتین کا پریگننسی ٹیسٹ بھی شامل ہے اس کیس میں جو رپورٹ راقم نے عدالتی ریکارڈ سے دیکھیں اس میں ایان کا پریگننسی نیگیٹو لکھا تھا مگر اس کے باوجود آہ و بکا تھی کہ ایان ماں بننے والی ہے اور ایک مشہور سیاسی شخصیت کا اس بچے کا باپ کہا گیا ۔
ایان کی بدنصیبی تھی کہ وہ اس وقت الزامات کی زد میں آئی جب میڈیا بہت ظالم و سفاک ہو چکا ہے اپنی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں مفاد پرست سیٹھ کچھ بھی کرنے سے اجتناب نہیں برتتے ۔
میڈیا ٹرائل کی وجہ سے جس نے ایک عام سے کیس کو ہر گھر کا موضوع بنا دیا ۔ ایان کی ضمانت میں جان بوجھ کر تاخیر کی گئی ورنہ منی لانڈرنگ کے کیسز میں تیسری چوتھی پیشی پر ضمانت ہو جاتی ہے۔ ابھی پچھلے برس ہی ایک تھائی خاتون لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ ڈالر لے جاتے ہوئے پکڑی گئی اور اس نے اپنا جرم بھی مان لیااور تیسری پیشی پر اس کی ضمانت ہوگئی اور بغیر کسی تاخیر کے تھائی لینڈ روانہ ہو گئی۔
مگر ایان کے کیس میں چالان مکمل کرنے میں ہی چار ماہ سے زیادہ کا عرصہ لگ گیا اور لگ بھگ ایان کو تیرہ پیشیاں بھگتنا پڑیں اور اس دوران ہر پیشی کو میڈیا نے ایک ایونٹ بنادیا ۔ اتنے کیمرے عدلیہ کی پوری تاریخ میں کبھی عدالتوں میں دیکھنے کو نہیں ملے جتنے اس کیس میں دیکھنے نصیب ہوئے۔ ایان کی شاٹس تک کو بریکنگ نیوز کے طور پر دیکھا یا گیا ۔
بھلا ان باتوں کا مقدمے سے کیا تعلق بنتا ہے کہ ایان نے پیشی سے پہلے ایک لاکھ ستر ہزار روپے کا میک اپ، لباس اور دیگر تیار پر خرچ کر دیا ہے ۔ ایان کے ساتھ ساتھ پولیس کے سنتری کا پرفیوم بھی خبروں کی زنیت بنا اور بڑے بڑے صحافتی گروں نے ایسے ایسے ٹویٹ کیے کہ پڑھ کے کانوں سے دھواں نکلنا شروع ہوجاتا تھا اور خیر فیس بکیوں نے تو جہاد سمجھ کر اس کیس میں اپنا حصہ ڈالا۔
ابھی ایان کا مسئلہ پوری طرح حل نہیں ہوا تو ان بدروحوں نے ریحام خان کا گھسیٹنا شروع کردیا۔ ویسے تو ریحام عمران خان سے شادی کے فوری بعد ہی سے میڈیا ٹرائل فیس کر رہی ہے مگر حالیہ شور شرابے کی وجہ ریحام خان کی ڈگری ہے جس کو جعلی ثابت کرنے کے لیے میڈیا اپنی ساری توانیاں بروئے کار لا رہا ہے ۔
عمران سے شادی کے بعد ریحام کی کبھی تو نائٹ کلب کی تصویریں تو کبھی اس کے سابقہ شوہر کے بیانات میڈیا کا موضوع ہوتے ہیں ۔ اس کے سلیو لیس بلاؤز سے لے کر نہ جانے کون کون سی من گھڑت کہانیاں منظر عام پر آتی ہیں۔
یہی حال فرسٹریٹٹد سوشل میڈیا کا ہے ۔ ان جہادیوں سے کوئی پوچھے کیا کسی خاتون کے سلیو لیس بلاؤز، پرفیومز، میک اپ سے ملکی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق ہے یا اس سے ملک کی اکنامی کو کوئی نقصان پہنچتا ہے اگر یہ سب نہیں ہوتا تو پھر اس سارے واویلا کی وجہ کیا ہے؟ اور کیا ریحام خان نے ملک کے کسی ادارے میں جعلی ڈگری پیش کر کے نوکری حاصل کی ہے ۔ عمران خان سے شادی کے لیے تو اسے کسی جعلی یا اصلی ڈگری کی ضرورت میرے خیال میں نہیں تھی۔
سیاسی یا نظریاتی اختلاف رکھنا ہر شہری کا جمہوری حق ہے۔ سیاسی اختلافات کی وجہ سے کسی عورت کو نشانہ بنانا انتہا ئی گھٹیا حرکت ہے ۔ مگر جس خطے میں ہم آباد ہیں یہاں کی تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ دو مردوں کے درمیان ہونے والے جھگڑے میں گالی عورت کو دی جاتی ہے۔ زمین جائیداد سے لے کر قتل تک کے انتقام کے لیے عورت کو ریپ کیا جاتا ہے۔ جنگوں میں ہارنے والوں کی عورتیں مال غنیمت کے طور پر بانٹی جاتی ہیں ۔
حالیہ دور میں بھی بات ایان یا ریحام پر نہیں رکتی۔ یہ ہر اس عورت کی کہانی ہے جو اس ملک میں اپنا کردار منفرد طریقہ سے ادا کرنا چاہتی ہے۔اس عورت کا تعلق شوبز سے ہو ، سول سوسائٹی سے ہو یا سیاست سے ، سب کے ساتھ ایک سا سلوک ہوتا ہے ۔ اس کی ایک مثال اعلیٰ عدلیہ نے بھی عتیقہ اوڈھو کے خلاف سو موٹو نوٹس لے کر قائم کی تھی۔ شراب کی ایک بوتل پر سو موٹو عدلیہ کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ آئے دن شراب کے ہزاروں کیس سامنے آتے ہیں مگر سو موٹو نوٹس ایک بوتل پر لیا گیااور آج تک وہ مقدمہ چل رہا ہے ۔
اس معاشرے میں کسی عورت کا مورال ڈاؤن کرنے کا سب سے آسان طریقہ اس کی کردار کشی ہے مگر یہ کردار کشی کرنے والوں میں صرف فرسٹرٹیڈ مرد ہی نہیں کمپلیکس زدہ عورتیں بھی شامل ہیں ۔ ایسی عورتیں جو ان سے کسی بہتر رول میں ہوتی ہیں ان کے ٹراؤزر سے لے کر ان کے میل جول تک سب کو موضوع بنا کر اپنا کمپلیکس کم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
ان رویوں کے حل کے لیے جہاں تک شعوری آگاہی ضروری ہے وہاں اس پر باقاعدہ قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ کردار کشی کرنے والوں کو کٹہرے میں لا کر ان عورتوں کے لیے راستہ بنایا جائے جو ٹیلنٹ ہونے کے باوجود معاشرے کے خوف کی وجہ سے باہر نہیں نکلتیں۔