محمد شعیب عادل
سابق صدر اورپیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے پشاور میں پارٹی کے عہدیداروں کی حلف وفاداری کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے قومی سیاست میں ایک بار پھر ہلچل مچا دی ہے۔ انہوں نے جرنیلوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ سیاستدانوں کی کردار کشی کریں اور ان پر کرپشن کے الزامات لگائیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس بھی کرپٹ جرنیلوں کی فہرست موجود ہے۔ کسی ادارے کو یہ حق نہیں کہ کسی دوسرے ادارے کے کام میں مداخلت کرے۔ حکومت کرپٹ ہے یا نہیں اس کا فیصلہ عوام کرتے ہیں نہ کہ کوئی ادارہ۔
تقریر کے فوراً بعد میڈیا میں ایسٹیبلشمنٹ کے ٹاؤٹوں کی طرف سے ان پر تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ زرداری اپنی کرپشن چھپانے کے لیے چیخنا چلانا شروع ہوگئے ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ وہ جنرل راحیل کے ساتھ ایک اور این آر او کرنا چاہتے ہیں۔کچھ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے دور اقتدار میں جرنیلوں کو کیوں چیلنج نہیں کیا ؟ یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ناکام ہو چکی ہے؟ لیکن کوئی یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ سندھ کی گورننساور باقی صوبوں، پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ، کی گورننس میں کیا فرق ہے۔ اس کا مطلب کسی کی کرپشن کا دفاع کرنا نہیں بلکہ جس طریقے سے نشانہ بنایا جارہا ہے وہ غلط ہے۔
جرنیلوں کی طرف سے سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات لگانا اور ان کی حکومتوں کو برطرف کرنا پاکستانی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ اس ملک کا یہ المیہ ہے کہ کل ستاسٹھ برس میں تینتیس سال سے زیادہ جرنیل قابض رہے ہیں اور اگر سیاسی عمل شروع ہو جائے تو اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرکے کو اپنے تابع کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب ناکام ہو جاتے ہیں تو بندوق کے زور پر تمام اخلاقیات ، قانون و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر اس پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک آئین چند صفحوں کا کتابچہ ہے جو کسی بھی وقت پھاڑ کر پھینکا جا سکتا ہے۔آئین شکنی اور لاقانونیت تو پاک فوج کا طرہ امتیاز ہیں۔
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کراچی بلکہ پورے ملک کے خراب حالات کے ذمہ دار سیاست دان نہیں بلکہ جرنیلوں کی مہم جوئی پر مبنی پالیسیوں اور فیصلوں کا نتیجہ ہیں۔ چاہے وہ ۸۴۹۱پر کشمیر پر قبائلیوں کے ذریعے حملہ ہو یا ۵۶۹۱ میں نام نہاد آپریشن جبرالٹر، ۱۷۹۱ میں بنگلہ دیش میں کاروائی ہو یا ۹۹۹۱ میں کارگل پر حملہ ۔ اور ہر دفعہ انہیں منہ کی کھانی پڑی۔ یہ پاک فوج ہی ہے جس نے نام نہاد جہاد کے لیے دہشت گردوں کو تیار کیا اور ہمسایہ ممالک میں دہشت گردی کے لیے استعمال کیا اور آج یہی ان کے گلے پڑ چکے ہیں اور یہ بھی پاک فوج کے حد سے زیادہ اخراجات ہیں جس کی بدولت قوم آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم چلی آرہی ہے۔
کراچی جرائم ، لاقانونیت اور بدانتظامی کی جس دلدل میں دھنسا ہوا ہے اس کے ذمہ دار جرنیل ہی ہیں ۔جنرل ضیاء نے سندھ بالخصوص کراچی میں جمہوری قوتوں کو کچلنے کے لیے غیر جمہوری قوتوں کو کھڑا کیا اور ان کو پالا پوسا ۔ پاک فوج پچھلے کئی سالوں سے کراچی میں کرپشن ، لوٹ مار، بھتہ خوری اور قتل وغارت کا واویلا کرتی چلی آرہی ہے۔ پچھلے پندرہ سالوں سے طالبان کے خلاف کاروائیوں کا چرچا کرتی ہے لیکن پوری طاقت کے باوجود بھی صورتحال کو درست کرنے میں ناکام ہے۔ رینجرز کی اپنی کارگردگی کا تو یہحال ہے کہ پچھلے دو سالوں سے آپریشن کر رہے ہیں مگر حالات وہیں کے وہیں ہیں۔اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے کی بجائے سیاسی حکومتوں کو الزام دینا یا بھارتی ایجنسی راء کو مورودالزام ٹھہرانا زیادہ آسان کام ہے۔
پچھلے ہفتے ڈی جی رینجرز نے سندھ حکومت پر کرپشن کے سنجیدہ الزامات لگاتے ہوئے کہا تھا کہ یہاں سالانہ ۰۳۲ ارب روپوں کا کالادھن کا کاروبار ہوتا ہے جس میں سندھ کی اعلیٰ شخصیات شامل ہیں۔ جس پر اعتزاز احسن نے سینٹ میں کہا تھا کہ ڈی جی رینجرز کا یہ مینڈیٹ نہیں ہے ۔ ڈی جی رینجرز جو اعداد و شمار پیش کر رہے ہیں یہ کیسے تیار کیے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ کرپشن سے نمٹنے کے لیے ادارے بنے ہوئے ہیں یہ ان کا کام ہے فوج کا نہیں۔فرحت اللہ بابر نے سینٹ کو بتایا کہ رینجرز کو کراچی میں آئین کے آرٹیکل ۷۴۱ کے تحت دہشت گردی کو روکنے کے لیے بلایا گیا تھا۔ اس کا یہ کام نہیں کہ وہ ترقیاتی کاموں کا جائزہ لیے یا بلڈنگ کوڈز کی خلاف ورزیوں کا نوٹسلے ۔ کرپشن اور گورننس کے مسائل ان کا مینڈیٹ نہیں ۔ اس کے لیے اینٹی کرپشن محکمے، عدالتیں، نیب اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹیاں موجود ہیں ۔
فوج کی طرف سے سیاستدانوں پر الزامات لگانا کوئی نئی بات نہیں ۔ ماضی میں کرپشن کے الزامات لگا کر منتخب حکومت کو چلتا کیا جاتارہا ہے اور شاید یہی کوشش دوبارہ کی جارہی ہے۔ ایک ایسے ادارے کی طرف سے سیاستدانوں پر کرپشن کا الزام لگانا جو خود سر سے پاؤں تک کرپشن میں ملوث ہو حیرانگی کی بات ہے۔پورے ملک میں ڈیفنس ہاؤسنگ کے نام پر زمینیں ہتھیا کر عوام کے وسائل سے ڈویلپمنٹ کرنے والے کراچی میں پلاٹوں کے قبضے اور بلڈنگ کوڈز کی خلاف ورزیوں پر خون کے آنسو بہا رہے ہیں؟
مرکز میں نواز حکومت کے قائم ہونے کے فوراً بعد پاک فوج کی طرف سے حالات درست کرنے کے نام پر کراچی کے سیاسی معاملات میں مداخلت کچھ زیادہ ہی ہوگئی ہے۔دو سال سے آپریشن جاری ہے لیکن کارگردگی صفرہے۔ پہلے ذوالفقار مرزا کے ذریعے ایم کیو ایم کو نشانہ بنایا اور جب کامیابی نہ ہوئی تو آصف علی زرداری کی کردار کشی شروع کروادی۔آپریشن کے نام پرچند ماہ پہلے ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر پر چھاپہ مارنے اور ’’مجرم ‘‘ پکڑنے کا ڈرامہ بھی رچایا لیکن بعد میں تمام ’’مجرم‘‘ رہا کردیے۔ ان ڈراموں کا مقصد حالات کو درست کرنا نہیں بلکہ ان کو اپنے تابع کرنا ہے۔ تمام ’’ثبوتوں‘‘ کے باوجود کاروائی نہ کرنے کا مطلب مک مکا ہی ہو سکتا ہے۔ کور کمانڈر کراچی بھی حکومت کی بدانتظامی پر تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ تاجروں اور صنعت کاروں سے ملاقاتیں کرکے ان کے مسائل کو حل کرنے کی یقین دہانی کرارہے ہیں ۔ سندھ حکومت کو تو خود فوج نے عملی طور پر مفلوج کر رکھا ہے۔
زرداری نے کتنی کرپشن کی ہے اس کا فیصلہ جرنیلوں نے نہیں عدالتوں نے کرنا ہے جس کا ایک طریقہ کار موجود ہے۔ آصف زرداری کا شمار ان چند سیاستدانوں میں ہوتا ہے جو مجموعی طور پر ساڑھے گیارہ سال جیل بھگت چکے ہیں ۔ اگر زرداری حکومت یا سندھ حکومت پاکستانی عوام کو کچھ نہیں دے سکی تو اس کافیصلہ بھی عوام نے کرنا ہے ۔ لہذا عوام کے مینڈیٹ کی توہین نہیں کرنی چاہیے ۔ عوام نے جس حکومت کو پانچ سال کے لیے منتخب کیا ہے، اسے اپنا وقت پورا کرنے دیا جانا چاہیے۔عوام نے زرداری کو اگلے پانچ سال کے لیے منتخب نہیں کیا تو اس نے عوام کا فیصلہ قبول کیا۔گڈگورننس کی پہلی شرط ہی یہ ہے کہ تمام ادارے آئین کا نہ صرف احترام کریں بلکہ اس کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔
ملک سے لاقانونیت اور کرپشن کا خاتمہ ایک مسلسل سیاسی عمل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اگر یہ عمل جاری رہتا ہے تو پھر کسی زرداری کو این ار او یا چیخنے چلانے کی ضرورت نہ پڑے گی ۔ اورجرنیلوں کو یہی خوف ہے کہ سیاسی عمل کی بدولت ریاستی ادارے اتنے طاقتور نہ ہو جائیں کہ کل کو ان کا ہاتھ جرنیلوں کی گردنوں تک نہ پہنچ جائے۔ واقعی جمہوریت بہترین انتقام ہے۔۔۔