احسان عزیز
ہم دنیا کی ان قوموں میں شمارہوتے ہیں جو بے عزتی کروا کے عزت بچا رہے ہوتے ہیں اورہم نے جہالت اور منافقت پہ مبنی عزت کے وہ معیار بنا رکھے ہیں جن کو انسانیت یا احساس چھو کے بھی نہیں گزرا ، فطرت اور فطری تقاضے تو ہماری غیرت اور روایات کے دشمن ہیں ۔سب جانتے ہوے بھی انجان بنے نسلوں سے بربادی کے تسلسل کو برقرار رکھے ہوے ہیں ، جس معاشرے اور ماحول میں والدین نے آنکھ کھولی اور جو وقت گزارا یا ان پہ گزرا کیا ان کو خبر نہیں ہوتی کہ اسی موڑ سے انھیں راہوں سے ان کی اولاد نے بھی گزرنا ہے ۔
اور کس قدر بد بختی ہے کہ اس راہ گزر پہ اولاد کو اکیلا روایتی خودداری اور عزت و احترام کے نام پہ چھوڑ دیا جاتا ہے ، جہاں سے شخصی بربادی کا وہ جہنم جنم لیتا ہے جو اپنی ہوس کی لپیٹ میں ہر اک کو لے لیتا ہے ،
ہمارا معاشرہ روایات اور آفاقی قوانین کی سطحی تشریحات میں جکڑا فرد واحد کی زندگی اجیرن کر رہا ہے اور عمل ردعمل کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ جو فرد کو نفسیاتی و جنسی پیچیدگیوں کا ایسا ملغوبہ بنا دیتا ہے کہ ایک طرف تو سجدے سے سر نہیں اٹھاتا دوسری طرف اس سے فرشتوں سے بڑھ کے معصوم اس کی ہوس کا شکار بن جاتے ہیں۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فرد کا جرم کیا صرف اس کا ہے یا معاشرہ بھی اس کا حصہ دار ہے ؟کیا معاشرے کے قوانین فطری ہیں ؟ میرا خیال ہے کہ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت انسان اور انسانی جبلتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور اپنے معاشرے کے ضوابط کو ان کے ہم آہنگ کرنے کی ۔آج ساءئنس تو بتاتی ہے کہ ہم جنس پرستی فطری ہوتی ہے اور مغربی معاشروں میں اس کی تقسیم بھی بہت واضح ہے ۔
مگر کیا ہمارے ہاں پائی جانی والی سدومیت فطری ہے اگر تجزیہ کیا جاہے تو نوے فی صد سے زائد یہ فعل غیر فطری طرز زندگی کے سبب حادثاتی ہوتا ہے۔ ہم دیہی اور شہری آبادیوں پہ مشتمل تین بنیادی طبقات میں بٹی قوم ہیں جن کے ہاں بنیادی اخلاقی پابندیاں اسی فی صد کے قریب ایک سی ہیں ۔
سب سے نچلا طبقہ جہاں جہالت اور غربت کا ازلی نکاح ہو چکا ہے ان کو فلک کا خود ساختہ نمائندہ یہ کہتا ہے کہ ہر بچہ اپنا مقدر ساتھ لاتا ہے وہ یہ نہیں بتاتا کہ اس کی محرومیاں بھی ابدی ہوتی ہیں۔ جہاں ایک ایک گھر میں سات سات دس دس بچے پیداو ہونے کے پانچویں چھٹے سال ہی مزدوی پہ لگ جاتے ہیں جہاں نوکری کا آغاز جی استاد جی، جی استاد جی سے ہوتا ہے اور جلد یا بدیر کسی شام ورکشاپ کی سنسان فضا نہیں استاد جی نہیں نہیں کی آوازیں سن کے سر جھکا لیتی ہے اور پھر جبر کا یہ تسلسل آگے منتقل ہوتا فاعل مفعول تشکیل کرتا چلا جاتا ہے۔ مدارس اور مساجد میں غالب اکثریت اپنے استاد سے مجروح ہونے سے لے کر اپنے سے کم سنوں پہ تجربات میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔
اس سب کا سبب روایتی جھجھک اور عزت کا وہ جھوٹا معیار ہے جو جنس کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا کہ فرد اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پہ گھٹ گھٹ کے مر سکتا ہے خودکشی کر سکتا ہے مگر کسی کو ہونے والی زیادتی سے آگاہ کرنے کی ہمت نہیں پاتا اور کسی کے گناہ کی سزا معاشرے کی بے حسی کے سبب خود کو دیتا ہے ، اور حوالے سے معاشرے میں لڑکا لڑکی کی کوہی تخصیص نہیں ، نابالغ بچہ اور بالغ لڑکی دونوں ہی غیر محفوظ ہیں۔
آفاقی قوانین کی من پسند تشریح کرنے والا گروہ انسانی نفسیات کی نازکی کو سمجھنے سے قطعی قاصر ہے فرد اور افراد کا باہم ادب و احترام اب اسی وقت ممکن ہے جب کوئی بھی فرد اپنے حقوق سے آگاہ ہوپاہے گا تبھی اس کو فرائض بھی بار گراں نہ لگے کہیں اور نہ ہے کسی کا اخلاقی نفسیاتی و نفسانی استحصال ہوگا ۔
مگر اس سب سے آگاہی سکول کی سطح پہ جنسی آگاہی کے بنا ممکن نہیں ، بصورت دیگر اکا دکا قصور کے واقعات منظرے عام پہ آتے رہیں گے اور راولپنڈی میں پیرودھائی جیسے بچوں کے استحصال کے اڈے پوری ڈھٹائی سے ہماری اخلاقیات کا منہ چڑاتے رہیں گے۔
23 Comments