عرفان حبیب
معروف ہندوستانی تاریخ دان اور علی گڑھ یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر، سید عرفان حبیب نے حال ہی میں نشر ہونے والے ایک پروگرام میں اسلام اور اسلامزم ، سعودی وہابیت اور انتہا پسندی و دہشت گردی ، مذہب و ریاست کے باہمی تعلق ، سیکولر ریاست اور اسلامی ریاست کے فرق اور بر صغیر میں مذہبی جماعتوں کے کردار کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کی انتہا پسندانہ سوچ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بنگلہ دیش میں شاہ باغ تحریک کے شرکا اور ان کے مطالبات کی حمایت کی۔
شاہ باغ تحریک کے بارے میں بات کرتے ہو ئے عرفان حبیب کا کہنا تھا کہ شاہ باغ تحریک سیکولر بنگلہ دیش کے لئے چلائی جانے والی ایک تحریک ہے جس کا مقصد بنگلہ دیش کے قیام کے تقاضوں کے عین مطابق ہے ۔عرفان حبیب کا کہنا تھا کہ مجیب الرحمان نے جب بنگلہ دیش کے لئے تحریک چلائی تو وہ تحریک بھی سیکولر تھی اوربنگالی قوم سیکولر تھی جس نے مذہبی اور پنجابی امپریلزم کے خلاف جنگ لڑی تھی۔لیکن کچھ عرصہ بعد بنگلہ دیش کو کو بھی پاکستان کی طرز پہ ایک رجعت پسند ریاست بنانے کی تیاریاں شروع ہوگئیں اور آج بدقسمتی سے بنگلہ دیش مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہورہا ہے ۔
شاہ باغ تحریک بنگالی عوام کی تحریک ہے جو 2013 میں ڈھاکہ کے معروف مقام شاہ باغ سے شروع ہوئی اور آہستہ آہستہ پورے ملک میں پھیل گئی ۔ اس تحریک کا مقصدملک کو سیکولر قرار دینا ، مذہبی جماعتوں کی سیاست میں حصہ لینے پر پابندی اور سنہ اکہتر کے جنگی جرائم کے مرتکب افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ بنگلہ دیش کے پہلے منتخب وزیراعظم مجیب الرحمن کو چند فوجی افسروں نے قتل کرکے اقتدار پرقبضہ کر لیا تھا ۔ شیخ مجیب الرحمن نے بنگلہ دیش کو سیکولر ملک قرار دیا تھا مگر جنرل ضیاء الحق کی طرح بنگلہ دیش کے ڈکیٹر جنرل ضیاء الرحمن نے بھی اسلامائزیشن کا عمل شروع کردیاتھا ۔اس نے بنگلا دیش کے آئین میں ترمیم کرکے مذہب اور سیاست کو ملا دیا اور جماعت اسلامی اس کی بڑی اتحادی جماعت بن گئی ۔اسی جماعت اسلامی نے بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے وقت بنگالی عوام کا مذہب کے نام پر قتل عام کیا تھا۔
شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے سیکولرازم کے حوالے سے بہت سے اقدامات اٹھائے ہیں اور جنگی جرائم کے ٹربیونلز بنا کر مجرموں کو سزا دینے کا عمل بھی شروع کر دیاہے مگر بنگالی سماج میں مذہبی انتہا پسندی سرایت کر چکی ہے اور شاہ باغ تحریک کے مقابلے میں جماعت اسلامی بھی شاہ باغ سمیت پورے ملک میں سیکولر ازم کی مخالفت میں مظاہرے کررہی ہے۔
جماعت اسلامی کے منفی کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے عرفان حبیب کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کی اسلام کو استعمال کرنے کی کوششیں کوئی نئی بات نہیں ہے . پاکستان کے بعد جماعت اسلامی نے بنگلہ دیش میں بھی اسلام کو سیڑھی بنا کر اقتدار پہ قبضہ کرنے کے لئے لوگوں کو اسلام کے نام پہ بیوقوف بنانے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں ۔ بنگالیوں کی نسل کشی میں ملوث جماعت اسلامی ،اسلام کا سہارا لے کر اپنے کرتوتوں پہ پردہ ڈالنی چاہتی ہے۔
اسلام اور اسلامزم کے بارے میں بات کرتے ہوے عرفان حبیب کا کہنا تھا کہ اسلامزم ایک سیاسی نظریہ ہے جو اسلام کو سیاست کے لئے استعمال کرتا ہے ۔ دنیا کو اسلام اور اسلامزم میں فرق کرنا ہوگا ۔ اسلام ایک مذہب ہے جبکہ اسلامزم مذہب نہیں ایک ابن الوقت لوگوں کانظریہ ہے جو اسلام کو ذاتی مفاد کے تحفظ کے لئے استعمال کرتے ہیں جس میں شدت پسندی کا عنصرغالب رہتا ہے۔
اسلامی بینکنگ کے نام سے ہونے والے فراڈ کے بارے میں عرفان حبیب کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی حکومت اسلامی بینکنگ کے نام پہ جن ممالک کے بینکوں کو قرضے فراہم کر رہی ہے ان میں بنگلہ دیش بھی شامل ہے اور اس فنڈنگ کو وہابیت کے فروغ کے لئے استعمال کرنا سعودی حکومت کا پرانا اور آزمودہ طریقہ ہے جو پاکستان میں بھی آزمایا جا چکا ہے جس میں اسلامی بینکنگ کے نام پہ فنڈنگ کر کے اس کو وہابیت اور دہشت گردی کے فروغ اور وہابی نظریات کے پرچار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔