پاکستان اس وقت مشکل حالات سے گزررہا ہے۔فوج کا جو کردار پاکستان میں ہے وہ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نظر نہیں آتا۔ تمام ادارے اپنی ذمہ داریوں سے دستبردارہوچکے ہیں۔اس لئے سیلاب آئے تو فوج ،کراچی کے حالات کو قابو میں لانے کے لئے فوج،بلوچستان کے علیحدگی پسندوں سے لڑنے کے لئے فوج،سپاہِ صحابہ اور لشکرجھنگوی کا نیٹ ورک ختم کرنے کے لئے فوج،اور عمران خان ایسا غیرسنجیدہ انقلابی جو بارباراپنے غیرسیاسی ہونے کا یقین دلاتا ہے،وہ بھی فوج کی انگلی کا منتظرہے۔
ہم ایسے سادہ لوگ ہیں کہ ماضی میں مارشل لاء کو بھی انقلاب تصور کیا کرتے تھے اورایک ایسی سیاسی منڈلی اپنی پر خلوص خدمات بخوشی فوجی حکمرانوں کے سپردکرنے کے لئے تیار رہتی ہے جس کی سیاسی دورِ حکومت میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
پاکستانی عوام کو تین اُمور پر بے بہرہ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔1 ۔ جمہوریت۔2۔انقلاب۔3 ۔تاریخ ۔ہر دفعہ کسی آمریت کو جمہوریت کا نام دے کر یقین دلایا جاتا ہے کہ یہی حقیقی جمہوریت ہے ۔یہ جمہوریت حکمرانوں کا جھوٹ،ان کے وزراء کی کرپشن اور سربراہِ حکومت کی مطلق العنانی کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔
ہمارے انقلابی، لوگوں سے چھپ کر،الگ تھلگ کسی مقام پر بیٹھ جاتے ہیں اور انقلاب کی گفتگو کرتے ہیں۔بہت سے سگریٹ پیتے ہیں۔جیب اجازت دے تو بوتلوں کو خراجِ تحسین بھی پیش کرتے ہیں۔اور اگر اس کے ساتھ بھرا ہوا سگریٹ مل جائے تو کیا ہی بات ہے۔انقلاب کا مزہ دوبالا ہوجاتا ہے۔ایک دوسرے کو کامریڈ۔کامریڈ۔۔۔کہہ کر پکارتے ہیں۔ان کے گھروں میں بچے ان کا انتظارکرتے ہیں اور یہ ساری رات انقلاب کے چنڈوخانوں میں بسر کرتے ہیں۔ایسے لوگ انقلاب کی عظمت کی توہین کرتے ہیں۔اور کچھ موقع پرست انقلابی دولت جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں۔اور ’’حقیقی انقلابی‘‘سگریٹ کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔کوئی ہنرہاتھ نہ آیااس لئے بے روزگاری کا لطف اپنی جگہ مزہ دیتا ہے۔
تاریخ کا المیہ بہت مختصرہے۔حکمرانوں کی خواہش ہے کہ پاکستان میں کوئی تاریخ کا مطالعہ نہ کرے۔کیونکہ تاریخ پڑھنے سے گمراہی پھیلتی ہے اس لئے پاکستان میں تاریخی کتب کو سرکاری اعزازات سے نہیں نوازاجاتا۔اور سونے میں سہاگہ موتیوں میں دھاگہ ،ہمارے ملک کے سب سے بڑے مؤرخ ڈاکٹرمبارک علی ہیں۔وہ انگریزی کتابوں سے ترجمہ کرتے رہتے ہیں اور خود کو متروکہ مغلیہ حکمرانی کی تاریخ پر اتھارٹی سمجھتے ہیں۔پاکستان کے شہروں کے بارے میں ان کی معلومات نہایت محدوداورسرسری ہیں۔سندھ کے لئے وہ چند کتابوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
اب امریکہ نے ایران کو مکمل معافی دے دی ہے۔اس لئے ایک بار پھر ایران کا کردار نمایاں ہوگا ۔شاہِ ایران کے دور میں ایران طاقتورتھا۔تو اس کا پاکستان پر بہت اثررسوخ تھا۔دیکھیے اب ایران طاقتور ہوگاتو اس کا کیا رنگ سامنے آئے گا۔یہ کہا جاتا ہے کہ ایران کے بڑھتے ہوئے تعلقات شیعہ مخالف عناصر کے خاتمے کی ایک وجہ ہے ان کی موجودگی میں ایران عدم تحفظ محسوس کرتا ہے۔
لیکن میرا خیال ہے کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔اس کے باوجود کہ مُلا عمر اور مُلاحقانی اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے ہیں۔ان کے مجاہدین (طالبان)آپس میں شدید اختلاف کا شکار ہیں امید کی جاسکتی ہے کہ کابل حکومت کے لئے آسانیاں پیداہوجائیں گی لیکن ہمیں یادرکھنا چاہئے کہ ہزاروں سال سے اس خطے کے لوگوں کا پیشہ جنگ ہے۔یہی وجہ ہے کہ افغانستان کبھی ترقی نہیں کرسکااور نہ ہی اس کے امکانات نظرآتے ہیں۔
دوسرا یہ کہ افغانستان کے لوگ مذہبی تعلیم حاصل کرتے ہیں کیونکہ کالج یونیورسٹی میں کافرانہ تعلیم دی جاتی ہے یہ اس لئے بھی درست ہے کالج یونیورسٹی کی تعلیم کے لئے بہت سا سرمایہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔جب کہ مذہبی تعلیم میں رہائش،کتابیں اور کھانا مفت ہوتا ہے۔اس لئے افغانستان کے نوجوانوں میں مذہبی رجحانات ہمیشہ قائم رہیں گے۔اور ان کا کوئی لیڈربھی سامنے آتا رہے گا۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم کسی تبدیلی کی طرف جا رہے ہیں؟میری عمراس وقت 57 سال سے زیادہ ہے میں اپنے تجربے اور مشاہدے کو دیکھتے ہوئے کہوں گاکہ نہیں۔ ہم کسی تبدیلی کی طرف نہیں جا رہے اور افغانستان بھی ترقی کرتا ہوا نظرنہیںآتا۔امریکہ کا اثر پاکستان پر بہت زیادہ ہے اب ایران بھی اس کے قریب ہوگیا ہے ،چین میں بھی توسیع پسندی کی خواہش اُبھری ہے۔اس لئے مستقبل میں گوادر کی بندرگاہ پر تصادم نظرآتا ہے
بہرحال چند برسوں میں کوئی بڑا واقعہ رونماہوگا۔اس بار بھی پاکستان کو ہی اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگااس کی وجہ شایدہمارے حکمران ہیں جو حکمرانی کی خواہش تو رکھتے ہیں لیکن ملک کے لئے مؤثر اقدامات کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔پی پی پی کے بعد نوازلیگ کی حکومت ایک ہی تسلسل ہے۔اور یہ نااہلی اور کرپشن کا تسلسل ہے۔ان حکمرانوں کی نظرمیں ملک کے اثاثے اہمیت رکھتے ہیں اور عوام غیراہم ہوتے ہیں۔اس کے بعد حکمرانوں کے لئے عوام کے دلوں میں ہمدردی نہیں رہتی اور وہ کسی دوسری طرف اپنی توقعات وابستہ کرتے ہیں جو عام طور پر خلاف جمہوریت فیصلہ ہوتا ہے۔
اور اب ایم کیو ایم کی بات بھی ہوجائے ۔ آج کل ایم کیو ایم کی آزمائش کا وقت بھی بہت سخت ہے۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی طاقت کو تو ڑدیاگیا ہے ادھر برطانیہ میں الطاف حسین کو مقدمے کا سامناہے۔(اگریہ ذمہ داری پنجاب پولیس کے پاس ہوتی تو اب تک وہ اپنا کام مکمل کرچکی ہوتی۔)برطانیہ کی پولیس مسلسل تفتیش کررہی ہے اور کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ کیا الطاف حسین کے بغیر ایم کیوایم زندہ رہے گی۔؟میراخیال ہے کہ ایسا ممکن نہیں۔الطاف حسین پاکستان میں نہیں رہتے اس کے باوجود یہ جماعت ان کی وجہ سے قائم ہے ۔ان کے بعد ان کے کارکنوں کو دوسری جماعتوں کا سہارا لینا پڑے گا۔
الطاف حسین کی صحت زیادہ اچھی نہیں۔اس وقت وہ شدیدذہنی دباؤمیں ہیں۔کارکنوں کے لئے ان کی تقریروں کا دفاع بہت مشکل ہوگیا ہے۔ ایم کیو ایم کے اندرونی حالات بھی اچھے نہیں رہے کارکنوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔آئندہ انتخابات میں اس کی کامیابی کے امکانات کم نظرآتے ہیں۔
اب دیکھا جائے تو پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم دونوں سندھ کی جماعتیں ہیں اور دونوں کا مستقبل زیادہ اچھا نہیں۔اگر سندھ میں یہ جماعتیں نہیں ہوں گی تو پھر سندھ میں مسلم لیگ کی حکومت ہوگی؟کیا سندھ کا مستقبل نوازشریف کے رحم و کرم پر ہوگا؟مجھے تو ایسا لگتا ہے ۔لیکن اس کے نتائج بھی اچھے نہیں ہوں گے۔
One Comment