خالد احمد
پاکستانی ریاست اپنے آپ کو قابل قبول بنانے کے لیے بنیاد پرستوں کو اپنے ساتھ رکھتی ہے۔ اسی لیے پشاورہائی کورٹ کے ایک جج نے یہ سوال اُ ٹھایاکہ ’’جد یدبنکا ری نظا م اب تک پاکستان میں را ئج کیوں ہے؟‘‘ مو صو ف کا بیان تجاوز پرمبنی نہیں ہے کیو ں کہ پاکستا ن کی وفاقی شر عی عدالت ا سے پہلے ہی ممنوع قرار دے چکی ہے۔ آج کی بینکنگ جیسا کہ ہم جانتے ہیں ا سلام میں حرام ہے یہی حال انشو ر نس کا اور لاٹری کا بھی ہے۔ القاعدہ کا ایمن الظوا ہری بھی پاکستان کی مذمت اس لیے کر تا ہے کہ یہاں جدید بنکا ری نظام را ئج ہے۔
بات یہ ہے کہ پاکستا ن کی مذ ہبی جما عتیں انتخا بات میں کا میا بی کے قابل نہیں۔اس لیے ان کی طاقت کا سر چشمہ منتخب اسمبلیاں نہیں ، القاعدہ اور طا لبان ہیں جو اسلام کے نا م پر قتل و غارت کرتے ہیں اور مذہبی گروہوں میں اہل تشیع اور سنی بریلوی بلا امتیاز روزانہ کے حساب سے ا نکا نشانہ بنتے ہیں کہ ان کا عقیدہ درست نہیں ہے۔ لیکن حکومت پھربھی قاتلوں سے مذاکرات کا دفاع کر رہی ہے جو مذاکرات کی تیاری کے دوران بھی دہشت گردی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے کے روادار نہیں ۔اسلام آباد میں نیشنل یونیور سٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے ’عریانی‘ کے تدارک کے لیے کیمپس میں جینزپہننے والی طالبات پر جرمانہ عائد کرنا شروع کر دیا ہے۔
اِسلامی نظریاتی کونسل جسے مقننہ کی رہنمائی کا آئینی اختیار حا صل ہے، توہین رسالت کے قانون کے تحت جھوٹے الزامات لگانے وا لوں کو سزائے موت دینے سے انکار کیاہے جبکہ یہاں پیغمبرکی شان میں گستاخی کی، کم سے کم سزاموت ہے۔یہ ریپ کے واقعات میں انتہا ئی پرہیزگاری سے ڈی این اے ثبوت کو پہلے ہی ثانوی قرار دے چکی ہے، حالانکہ یہاں زنا بالجبر کے مرتکب اس لیے سزا سے بچ جاتے ہیں کہ ا یسے فعل کی تصدیق کیلے چار چشم دید گواہوں کاپیش ہونا ہر حال میں لازم ہے ۔ ا صل میں یہ ’حدود‘ (قرآنی سزاوں) کے تحت پہلے کی جانیوالی قا نون سازی میں مذکورہ قانونی’ سقم‘ کو دور کرنے کیلے ’اصل‘ کی بحالی تجویز کرتے ہیں۔
مسلمانوں کے ہاں بہترین شخصیات انہی ممالک میں تب جنم لیتی ہیں جب ان کے پاس اقتدارنہ ہو۔ فطری صلاحیتوں سے مالامال علامہ اِقبال اور محمدعبدہ جیسے دانشور اپنے ’روایت شکن ا فکار‘ کے ساتھ صرف برطانوی دور میں ہی ابھر کر سامنے آئے ۔کیونکہ اگر وہ کسی اسلامی ریاست میں جنم لیتے تو ان کے خیالات کو برداشت ہی نہ کیا جاتا۔ ریاست کے بارے میں مسلمانوں کا معاملہ عجیب ہے۔جب ریاست حاصل ہو جائے تو یہ نیم خوابی کے عالم میں مجرمانہ روش اپنا تے ہوئے ایک ہی رٹ پر بضد ہوتے ہیں ریاست ہو تو اسلامی ، ورنہ نہ ہو۔
پہلے یہ’ جدید اسلامی ریاست ‘کے متعلق شور و غو غا کرتے ہیں جب وہ وجود میںآتی ہے تو یہ اسکے حوالے سے آپس میں باہم دست و گریبان ہوجاتے ہیں۔ ان کے ’دینیاتی‘ انکار اپنی جگہ لیکن جب یہ ریاست کے بارے میں سوچتے ہیں تو ایک ہی طرح سوچتے ہیں۔ یہ اسلام میں ملائیت کی موجودگی سے توانکار کرتے ہیں لیکن معاشرہ ان کا ا سی ملائیت تلے رینگتا ہے۔ عجیب بات ہے ! ایک طرف یہ اپنے ہاں ملائیت کے ہو نے کا برملا اقرارکرتے ہیں تو دوسری طرف مانتے بھی ان ہی کی ہیں جن کے پاس قُرونِ وسطیٰ کے جموداور توہمات پر مبنی ’تعلیمات‘ کے سوا کچھ نہیں جن کی رو سے خواتین اور غیر مسلموں کے ساتھ وحشیا نہ سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
دوسری چیز تعلیم ہے جو مسلمانوں میں ذہنی خلفشار کا سبب ہے۔کبھی مسلمان سے یہ نہ پوچھنا کہ وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ وہ جدید تعلیم کو قبول کرے گا اور ساتھ ہی یہ بھی کہے گا کہ قرآن تمام زمانوں بشمول آج کے زمانے کے لیے ہے لیکن جب سیکولر تعلیم کا سنے گا تو فور اً منہ چڑھالے گا ۔ زمانہ عقلیت پسندی جس نے ہمیں جدید تعلیم سے نوازا، ان کا میدانِ طبع نہیں کیونکہ عقل کے بارے میں انکی سمجھ استخراجی منطق تک ہے۔ معاشیات کو قبول کرتا ہے جبکہ بنک اور سیونگ کے تصوارت کو نظریاتی بنیادوں پر ردکرتا ہے ۔ ’لفظ پرست‘ ہے ا س لیے بینکر بن کر بھی بینکنگ کونہیں مانتاہے۔
فزکس میں بھی قدرت کے عطاکردہ صلاحیتوں سے مالامال پاکستان کے بر طانوی تعلیم یافتہ نیوکلیر سائنسدان سلطان بشیر الدین محمود جو کہ یورینیم کی افزودگی کر تے کرتے بم بنانے تک جا پہنچا تھا، جنات پر ایمان رکھتاتھا ۔مو صوف نے اس کا اظہار جنرل ضیاء الحق کی خدمت میں اپنا مقالہ پڑ ھتے ہوئے یہ کہہ کر کیا تھاکہ وہ ایک جن کو ’قابو‘ کرکے سارے پاکستان کیلئے بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں سب زیادہ قابلِ نفرت سمجھے جانیوالے فزسسٹ پرویز ہودبھا ئی کے بقول مسلمان اپنے عقیدے کو پرا گندہ ہونے سے بچانے کے لیے سائنسی تھیوری سے دور رہتے ہیں اور سائنس کو صرف ’ٹیکنالوجی‘ کے طور پر سیکھتے ہیں۔سائنس کو تویہ پاکستان اور ایران میں نیوکلیر ہتھیار بنانے کے لیے’ چراتے‘ ہیں۔ ہود بھائی کااس وقت بھی کسی نے یقین نہیں کیاتھا جب انھو ں نے پانی کے ذریعے اپنی کار چلانے والے مسلمان ’سائنسدان‘ کی مذمت کرتے ہوئے اسے شعبدہ باز کہا تھا۔
دنیا سمجھتی ہے کہ مسلمان غریب اور جنونی اس لیے ہیں کہ تعلیم کے میدان میں ان کی ریاستو ں کا ریکارڈ نا گفتہ بہ ہے۔ اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ تعلیم کے ذریعے مسلمانوں کی حالت بہتر کی جاسکتی ہے تو پاکستانی نصاب کوہی سرسری دیکھ لیں۔صوبائی حکومت کی جانب سے نصاب میں جنگ کو ایک طرز زندگی کے طور پر پیش کرنے کے معاملے میں ایک معمو لی تبدیلی کی کوشش پر مُلاؤں نے سخت تنقید کی جس کے بعد میڈیا نے بھی غرانا شروع کر دیا۔ اور وزیر تعلیم نے فوری طور پر جہاد تمام مسلمانوں پر فرض ہے کو دوبارہ نصاب میں شامل کر دیا۔ یاد ر ہے کہ پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جو دوسروں کے لیے لڑی جانیوالی جنگوں کو جہاد کہتا رہا ، یعنی یہ ،یعنی پراکسی وارکی وجہ سے دنیا بھر میں بدنام ہے ۔
نصابی کتب کے نظر یاتی مواد میں کسی قسم کی تبدیلی پر یہاں کھلے عام دھمکیوں کے ساتھ سخت تنقید ہوتی ہے حتیٰ کے خارج شدہ اسباق کو دوبارہ نصاب میں شامل کیا جاتا ہے۔ چند ماہ پہلے خیبر پختون خوا ہ میں صوبائی حکومت نے طالبان حکومت کی تیاری کے سلسلے میں یہی کیا۔ مسلمان نو جوان روایت شکن ہے اس لیے نہیں کہ یہ پیدا دورِ جدید میں ہوئے ہے۔انکی جارحیت میں رجعت ہے۔ یہ روایت شکن ہیں لیکن جدیدیت سے ٹکراؤ کے معاملے میں۔اسلام میں ’’ریڈیکل ‘‘ کا مطلب پیچھے جانے کے ہے جبکہ یہی لفظ ’’انقلاب ‘‘ کے معنوں میں بھی بولا جاتا ہے ۔ عربی میں ’’ماڈرن‘‘ کا مطلب ’’جدید‘‘ ہے۔ جدید ’’جد‘‘ سے اور ’’جد ‘‘ کا مطلب ’’دادا ‘‘ ہے۔ پس مسلمان کو جتنا زیادہ تعلیم یافتہ بناؤگے، وہ اتنا ہی اپنے ملک اور باقی ماندہ دنیا کے لیے خطرناک بنے گا۔
اسلام پر میرا پسندیدہ لکھاری فرانسس اولیور رائے ہے ۔ اس لیے کہ جدید ر یا ست اوراسکے موجودہ اندازِ حکومت یا جمہوریت، کے بارے میں وہ مسلمانوں کے رویوں پر زیادہ نکتہ چینی نہیں کرتا۔ وہ کہتا ہے کہ اسلا م پسند اب اس قابل نہیں رہے کہ جمہوری عمل سے مزید منہ موڑسکیں کیوں کہ دنیا میں جمہوریت کے ہوتے ہوئے خلافت نہیں لا ئی جا سکتی۔ وہ مصر میں اخوان کے کردار کو کو دیکھتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کو جمہوریت کے بنیادی لوازمات میں شامل، انتخابات کے عمل کو، اپنی عوامی حمایت برقرار رکھنے کی خاطر بہرحال قبول کرنا ہی پڑے گا۔وہ مصرمیں اخوان،تیونس میں انہادہ اور یمن میں اصلاح کا ذکر کرتے ہوئے لکھتاہے کہ اسلام پسندوں کا جمہوریت کو قبول کرنے کا عمل ایک نیا مظہر ہے جو امید افزا ہے۔
لیکن مصر میں یہ تجربہ ناکام ہو گیا کیونکہ مصری عوام تو اخوان کے منتخب صدر محمد مرسی اور ان کی شریعت سے ایسے خوفز زدہ ہوئے ، جیسا کہ مارکسسٹ سکالر اعجاز احمد نے لکھا ہے، کہ مصریوں نے مرسی کے خلاف تاریخ کی سب سے بڑی ریلی نکالی جس کے بعد فوج نے مداخلت کر دی۔ ترکی میں بھی جدید کمالسٹ سٹیٹ اپنی سابقہ منزل کی طرف رواں ہے کیوں کہ وزیراعظم اردگان ترکی میں شریعت کے نفاذ کے معاملے میں فتح اللہ گولن سے بھی زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔
یہ فتح اللہ گولن ایک نژاد جینس تھا، ترکی پرجس کے رجعت پسندی کے سائے آج منڈلا رہے ہیں۔ ایران میں جمہوریت ہے اگر انتخابات ہی جمہوریت ہو تو ایران میں ملاؤں کی حکومت کو شروع ہوئے تیس سال ہونے کو ہے لیکن ایرانیوں کو مگر اب جاکر معلوم ہوا کہ یہ جمہوریت نہیں تھی۔ جبکہ پاکستان میں شریعت کا بھی پنجے گاڑھنے کا عمل جاری ہے۔ بہت جلد طالبان کے ہاتھوں اس میں مزید شدت متوقع ہے۔
تواولیور رائے کے بقول مسلمان اب انتشار پیدا کرنے میں مصروف ہے۔مفروضے کے مطابق اس انتشار کے خاتمے کے بعد ایک قا عد ہ یا ضابطہ حیات وضع ہو گا جس کے تحت ایک عام مسلمان صرف وہ زندگی گزار ے گاجو وہ گزارسکتاہے ۔ ہمارے پاس جو ہے اس کو القاعدہ سے جڑے گروپ ’’الشہاب ‘‘ کے بانی فلسفی ابوبکر ناجی نے اپنی کتاب کے عنوان دی مینجمنٹ آف سیوجری یعنی ’درندگی کا بندوبست‘‘ میں بیان کیا ہے۔پاکستان،اسی فیز یعنی درندگی کے بندوبست کے شکنجے میں ہے جہاں ’’ جدید ریاست ‘‘ کو معصوم انسانوں کے قتل کے ذریعے سے کسا جارہا ہے کہ مسلمان آبادی درندگی کی طرف مائل ہے کیونکہ طالبان کی شریعت کی روسے مو جودہ نظام غلط ہے ۔
بنگلہ دیش کو تو پاکستان کے ردعمل میں ’سیکولر‘ بنایا گیاتھا ، لیکن بعد میں فوج نے بنگالی مسلمانوں کی ’جےئنس‘ کو سننے کا فیصلہ کر کے اسے اسلامی کردینے میں زیادہ دیر نہیں کی۔ بنگلہ دیش کے سپریم کورٹ کا آئین میں اسلامی ترامیم کی شقوں کو مسترد کرنے اور اس کی سیکولر شکل بحال کر نے پر مسلمانانِ عالم جس انتہائی صدمے سے دو چار ہوئے تھے کو ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا ہے۔ لیکن پارلیمنٹ میں ایک چوتھائی اکثریت کے ہوتے ہوئے بھی شیخ حسینہ وا جد کی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق قانون سازی سے گریز کر ر ہی ہے ا س خوف سے کہ ریاست تقسیم پذیر نہ ہو ا ورمعاملات کی درستگی ‘ کے لیے کہیں اسلامی دنیا سے ’مجا ہدین ‘ ہی نہ ہتھیار اٹھا لیں۔
(بشکریہ انڈین ایکسپریس۔خالد احمد آجکل نیوز ویک پاکستان کے کنسلٹنٹ ایڈیٹر ہیں اور انڈین ایکسپریس کے لیے کالم لکھتے ہیں)