خان زمان کاکڑ
سول سوسائٹی کوئی نئی اصطلاح نہيں۔ٹيکسٹ ميں يہ بہت پہلے سے موجود ہے۔ يہ اصطلاح جان لاک، ادم سمتھ، فريڈرک ہيگل، کارل مارکس،انٹونيو گرامشی اور کئی ديگر مفکروں کے نظريات ميں مختلف معنوں ميں ملتی ہے۔ بنيادی طور پرلبرل طبقے کی نظر ميں سول سوسائٹی رياست ميں شہريوں کے حقوق کی حفاظت کرتی ہے ، رياست کو طاقت کے غلط استعمال سے روکتی ہے اور ساتھ شہريوں ميں اپنی ذمہ دارياں موثر طور پر نبهانے کا احساس بهی پيدا کرتی ہے۔ ليفٹ کے دانشور سول سوسائٹی کو طبقاتی معاشرے کے ايک ايسے سيکشن يا سيکٹر کے طور پر ديکهتے ہيں جو رياست کے شانہ بشانہ يا رياست کے ساتھ ايک الحاق کی صورت ميں سرمايہ دارانہ نظام کا دفاع کرتا ہے۔
لبرل جمہوريتوں ميں سول سوسائٹی کی اصطلاح کا ايک بہت ہی وسيع استعمال ڈسکورسز ميں ملتا ہے۔ ہيبرماس سے ليکر پارتها چٹرجی او ر نيرا چانڈهوکے تک۔لبرل جمہوريتوں ميں سول سوسائٹی کی اصطلاح کبهی ايک کائناتی تصور کے طور پر استعمال ہوتی ہے، کبهی رياست کی نظرياتی اور ثقافتی بالاد ستی کو يقين بنانے والے سيکٹر کے طور پر، کبهی ‘پوليٹيکل سوسائٹی‘ کے مدمقابل محاذ کے طور پر، کبهی رياست اور شہريوں کے درميان ايک ثالث کے طور پر اور کبهی رياست کی ذمہ دارياں افراد ، گروپوں اور کمپنيوں کو سپرد کرنے والی قوت کے طور پر ۔ مطلب يہ کہ يہ کوئی ايسی اصطلاح نہيں کہ جس کا کچھ واضح اور تسليم شده مفہوم ہو۔
بيسويں صدی کی آخری دو دہائيوں ميں سول سوسائٹی کی اصطلاح نئے سرے سے دريافت ہوتی ہے اور نئے معنوں ميں استعمال ہونا شروع ہوتی ہے۔يہ کوئی خوشگوار ڈيولپمنٹ کا نتيجہ نہيں بلکہ گلوبلائزيشن، اينٹی گلوبلائزيشن کی تحريکوں اور سماجی تحريکوں کی طرح يہ بهی سردجنگ اور بعد کے حالات کی پيداوار ہے جس کے پسِ منظر ميں محکوم طبقات کی سياست کی پسپائی کارفرما رہی ہے۔ جمہوريت، گُڈ گورننس، کامن پبلک گُڈ، انسانی حقوق، تعليم، ترقی، جنسی برابری، رواداری اور غربت کا خاتمہ وغيره وه نعرے ہيں جونيولبرل ازم نے مقبول عام بنادئيے۔ سول سوسائٹی کا تصور بهی انہی نعروں کو مزيد مقبول عام اور کائناتی سچ کے طورپر منوانے کيلئے اتنے بڑے پيمانے پہ اختيار کيا گيا۔
نيولبرل ايجنڈے پر کام کرنے والے اس تصو ر کو کہيں بهی کئی معنوں ميں استعمال کرسکتے ہيں۔ سول سوسائٹی کی تعريف کی کوئی خاص حدود نہيں، ابهی تو اس نے ايک ايسے خانے يا خلاء کی شکل اختيار کی ہے جس ميں کوئی بهی فِٹ ہوسکتا ہے سوا ئے اس کے جو کسی ريڈيکل تبديلي، ساختياتی تبديلي، سياست کے متشدد طريقہ ہائے کار اورمذہبی و نسلی امتياز پہ يقين رکهتا ہو۔ لبرل جمہوريت کی بہت ساری خصوصيات ميں سے ايک يہ بهی ہے کہ اس ميں کسی بهی مسئلے کی طبقاتی اور سياسی نوعيت کو سمجهنے کی بجائےانفرادی، معاشرتی اور ثفافتی تاويلات تراشنے کو اہميت حاصل ہوتی ہے۔
انٹونيو گرامشی سول سوسائٹی کو ايک ايسے sphere کے طور پر ديکهتے ہيں جس ميں حکمران طبقہ اپنا نظرياتی کنٹرول او ر بالادستی قائم رکهنے کيلئے معاشرےميں رضامندی پيدا کرتا ہے۔ سول سوسائٹی سرمايہ دار معاشروں ميں رياست اور شہری کے درميان ايک تعلق کا کام کرتی ہے۔ گرامشی کے بقول سول سوسائٹی حکمران طبقے کی طرفداری کرتی ہے ليکن اس کے ساتھ سياسی جماعتيں ايک الائنس کے طور پر کام کرسکتی ہيں اور خاص حالات ميں يہ حکمران طبقے کے خلاف استعمال بهی ہوسکتی ہے۔
اسی کی دہائی ميں مشرقی اور مرکزی يورپ ميں سول سوسائٹی کی تنظيموں نے مطلق العنان حکومتوں کے خلاف اپنے احتجاج اور جدوجہد ميں نہ صرف سوشلزم کو ايک ناکام نظام سے تعبير کيا بلکہ سياسی جماعتوں کے غيرجمہوری اور غيرنمائنده روئيوں کو بنياد بنا کر بلاواسطہ طور پر سياست کو بهی ايک منفی عمل ہونے کا تاثر ديا۔سياسی حقوق کی بجائے انسانی اور سول حقوق کے نعروں نے ايک مختلف قسم کے ايکٹوازم کو جنم ديا جس کے ذريعے اگر ايک طرف رياستی جبر اور سياسی مفاد پرستی کو چيلنج کيا جاتا تو دوسری طرف کسی بهی ريڈيکل يا انقلابی تبديلی کی سخت مخالفت کی جاتی۔ مشرقی اور مرکزی يورپ کے علاوه لاطينی امريکہ اور جنوبی افريقہ ميں بهی اسی لائن پہ سول سوسائٹی کی جدوجہد نماياں رہی اور بڑی حد تک يہ جدوجہد ايک فيصلہ کن نتيجے پر اس صورت ميں پہنچی کہ اس کے احتجاج اور جدوجہد کے سامنے مطلق العنان حکومتيں کمزور پڑگئيں۔
سول سوسائٹی اداروں، تنظيموں اور افراد کے ايک ايسے مجموعے، اتحاد يا نيٹ ورک کا نام ہے جو خاندان، رياست اور مارکيٹ کے درميان کہيں موجود ہوتا ہے. اس کو ان تينوں سے بالکل عليحده ايک آزاد حثيت ميں سمجهنے کی لبرل دانشورانہ روايت اگرچہ بڑی مقبول رہی ہے ليکن تاريخ بتاتی ہے کہ سول سوسائٹی کو معاشرے، رياست اور مارکيٹ کے ساتھ تعلق ميں ديکهے بغير نہيں سمجها جاسکتا۔ ايک مثال ہم يہ دے سکتے ہيں کہ انڈيا کی کيرالا رياست ميں چونکہ بائيں بازو کی حکومت بڑے لمبے عرصے تک رہی تو وہاں پہ سول سوسائٹی کسی آزاد حیثيت کے بغير حکومت کے ساتھ اس تمام پروجیکٹ ميں شامل رہی جس کو ہم آج کيرالا ماڈل کے طور پر جانتے ہيں۔
يورپ اور امريکا ميں فری مارکيٹ اکانومی اور لبرل جمہوريت کی حقانيت کو ثابت کرنے ميں وہاں کی سول سوسائٹيز پيش پيش رہی ہيں۔ پاکستانی رياست کا نيچر اپنے پوسٹ کالونيل تناظر ميں بڑی حد تک بقول حمزه علوی ملٹری اور بيوروکريسی کے گٹھ جوڑ کے طور پر رہا ہے۔ جدیدیت اور گلوبلائزيشن کے پهيلاؤ کے ساتھ پاکستان ميں سول سوسائٹی کے ظہور کو بهی کسی حادثاتی واقعے کے طور پر نہيں ديکها جاسکتا۔ جس طرح مذہبی طبقے کو ستر اور اسی کی دہائی ميں ملٹر ی اور بيوروکريسی کے اس الحاق ميں خاص سياسی مقاصد پانے کيلئے باقاعده طور پر حصے دار بنايا گيا ،اسی طرح سول سوسائٹی نے بهی اکيسويں صدی کے شروع ہوتے ہی اپنا کچھ حصہ مانگنا شروع کرديا۔
اس مختصر عرصے ميں سول سوسائٹی اتنی ہی فوج کے‘ خلاف ‘ رہی جتنا مذہبی سياسی حلقہ رہا ہے۔ پرويزمشرف کے ‘روشن خيالی‘ پروجیکٹ کے اعلان پر اسی سوسائٹی کے بيشتر لوگوں نے جشن منايا تها اگرچہ اس وقت وه کچھ زياده منظم ہونا شروع نہيں ہوئے تهے اور نہ ہی سول سوسائٹی کے تحت منظرِ عام پہ آتے تهے۔مشرف کے دور ميں بلوچوں پر بدترين فوج کشی کی گئی ليکن سول سوسائٹی نا م کی کوئی چيز دکهائی نہيں ديتی تهی، مشرف نے فاٹا کودنيا جہاں کے دہشت گردوں کے حوالے کرديا ليکن کوئی سول سوسائٹی نامی شے ہم نے نہيں ديکهی۔البتہ اس دور ميں جو ‘آزاد ميڈيا‘ ابهر رہا تها اس کے ساتھ ايک سول سائٹی کا تصور بهی جڑا ہوا تها اور يہ تصور اپنی نوعيت ميں اتنا ہی ‘آزاد‘ تها جتنا ميڈيا ‘آزاد‘ تها۔
پاکستان ميں سول سوسائٹی کی اصل تاريخ تب شروع ہوتی ہے جب سياسی جدوجہد کے سامنے پرويز مشرف زياده دير تک ٹهہرنے کے قابل نہيں رہے۔ خصوصاً ‘آزاد عدليہ‘ کی تحريک ميں پنجاب سے کچھ نام نہاد سماجی تنظيميں اور شخصيات سول سوسائٹی کے نام سے سرگرم ہوگئيں اور انہوں نے مشرف کو ہٹانے کا کريڈٹ سياسی جماعتوں کے مقابلے ميں بڑی حد تک اپنے نام کرليا۔ اس لئے کہ سول سوسائٹی کے نمائندوں کی رسائی پروجیکشن کے ايونيوز تک کسی سیاسی جماعت کے مقابلے ميں زياده تهی۔ ميڈيا سياست کو بدنام کرتا رہا اور اين جی اوز والوں کو عوام کے نمائندوں کے طور پر پيش کرتا رہا اور يہ سول سوسائٹی والےايسٹیبلشمنٹ کے اتنا ہی خلاف تهے جتنا خلاف ‘آزاد‘ ميڈيا تها يا ‘آزاد‘ عدليہ تهی۔
يہ سول سوسائٹی غيرپنجابی عوام کے مسائل کو اتنی ہی اہميت ديتی آئی ہے جتنی اہميت ‘آزاد ميڈيا‘ اور ‘آزاد عدليہ‘ نے دی ہے۔پاکستان پيپلز پارٹی کی پچھلی جمہوری حکومت کے ساتھ سول سوسائٹی نے اتنا ہی ‘تعاون‘ کيا جتنا ‘آزاد ميڈيا‘ اور ‘آزاد عدليہ‘ نے کيا۔ 12 مئی 2007 کو کراچی ميں ‘غريب بندے کے جج‘ کی حمايت ميں نکلے ہوئے پچاس سے زائدپشتون سياسی کارکنوں کو دن دہاڑے قتل کيا گيا اور اس قتل عام کو پرويز مشرف نے عوام کی قوت کے مظاہرے کا نام ديا ۔ اس کيس کو سول سوسائٹی نے اتنا ہی نظر انداز کرديا جتنا ‘آزاد ميڈيا‘ اور ‘آزاد عدليہ‘ نے کيا. سرائيکی صوبے کے مسئلے پر بهی تينوں کا موقف ايک رہا۔
وجہ یہی ہے کہ ان تينوں کا تعلق ايک صوبے سے رہا ہے جوکہ مقتدر صوبہ ہے۔ اس صوبے کی بالادستی کی وجہ تاريخی طور پر سامراج کے ساتھ اس کا گٹھ جوڑ ہے۔ برطانوی سامراج کے وہی نوکر ابهی تک فوج او رحکمران طبقے ميں نسل در نسل چلے آرہے ہيں۔ فوج نے جو بڑی معاشی بالادستی پاکستان ميں قائم رکهی ہے وه غيرپنجابی اقوام کے وسائل کے لوٹنے اور ان کے وسائل ، ساحل اور جيوسٹريٹجک اہميت پر دنيا کے ساتھ کاروبار ميں ممکن ہوئی ہے۔ سول سوسائٹی کے نام پر سرگرم طبقے نے قوموں کے اس استحصال کو ختم کرنے کی بجائے ان قوموں کے اندر سے ‘پسماندگی‘ اور ‘ناخواندگی‘ ختم کرنے کی مہم شروع کردی ہے۔
بڑی سنجيده نوعيت کے سياسی، قومی اور طبقاتی مسائل کو ‘پاکستانی قوم‘ کے غيرمنطقی کے عنوان کے تحت لاکر ان کو لوگوں کے اپنے سماجی اور ثفافتی کردار کا مسئلہ بنايا گيا ہے۔ بلوچوں کی رياست کے ساتھ ستر سالہ تصادم کا حل بلوچستان ميں تعليم کے نظام کو موثر بنانا بتايا جاتا ہے اور بالکل يہی نسخہ فاٹا ميں بدترين نوعيت کی رياستی دہشت گردی کو ختم کرنے کيلئے ديا جاتا ہے۔ ساتھ ميں اس پر زور ديا جاتا ہے کہ اگر رياست يہ کام نہيں کرتی تو ہميں خود رضاکارانہ طور پر کرنا چائيے۔ سول سوسائٹی بالکل اس حقيقت کو نظر انداز کرتی ہے کہ اگر تعليم شدت پسندی کا جواب ہوتی تو سوات ميں طالبان اپنی سلطنت قائم کرنے کا خواب بهی نہيں ديکھ سکتے۔
سوات کا مسئلہ ہی لے لیجیے۔ جب وہاں پہ طالبان اپنا کنٹرول قائم کررہے تهے، قتلِ عام کررہے تهے اور وہاں پہ لوگوں کی ہر انسانی، قومی و ثفافتی قدر کو تباه کررہے تهے تو کسی سول سوسائٹی نے اس کے خلاف آواز اٹهانے کی ضرورت محسوس نہيں کی ليکن جب فوج سرگرم ہوگئی تو سول سوسائٹی کی آواز بهی ہم تک پہنچنے لگی۔ سوات ميں طالبان کی جگہ ظاہری طور پر جب فوج نے لے لی تو سول سائٹی کے نام کے تحت کسی نے بهی يہ سوال نہيں اٹهايا کہ آخر سوات ميں معاملہ کيا تها اور ہوا کيا؟ لوگوں کا اختيار اپنی سرزمين پر آج بهی اتنا ہی محدود ہے جتنا طالبان کے دور ميں تها۔
سوات کے مقامی لوگ تو يہ ماننے کيلئے بهی تيا ر نہيں کہ ايک دور ختم ہوا اور دوسرا شروع ہوا ہے بلکہ وه طالبان کے ظہور سے ليکر فوج کی ايک بڑی چهاؤنی بنانے کے اعلان تک اس سارے معاملے کو ايک ہی دور کا نام ديتے ہيں اور اس دور کو وه “سقوطِ سوات” سے تعبير کرتے ہيں۔ اپنی سرزمين کی ملکيت کا دعویٰ کرنے والے سياسی کارکنوں کو ايک ايک کرکے قتل کرديا گيا، سول سوسائٹی کی اس سياسی مسئلے ميں کوئی دلچسپی نہيں بلکہ اس کی دلچسپی سوات کے “ثقافتی بيانيے” کو منظرعام پر لانے ميں ہے۔ حقيقت ميں يہ کوئی سوات کا مقامی ثقافتی بيانيہ نہيں بلکہ سوات کے اوپر کاغذوں ميں اين جی اوز والوں کی اپنی تخليق کی ہوئی داستانيں ہيں۔
امن کے نام سے جو تقريبات منعقد کی جاتی ہيں وہاں پہ لوگوں کو رواداری کے کلچر کو تقويت دينے کی تبليغ دی جاتی ہے جيسا کہ انہوں نے خود ايک دوسرے کو قتل کرکے پهر خود ہی قبروں سے ايک دوسرے کی لاشيں نکال کر درختوں سے لٹکائی ہوں۔ برداشت اور رواداری کا سبق اس کو کبهی نہيں پڑهايا گیا جس نے بڑا منظم ظلم کيا، جس نے تزويراتی گہرائی کيلئے گہری شدت پسندی پهيلائی جبکہ ٹکرائے ہووں کو برداشت اور تحمل سے کام لينے کی نصحيت کی جاتی ہے۔ يہ اس سے بڑھ کر کچھ نہيں جسکو انگريزی ميں blaming the victim کہا جاتا ہے۔
پچهلے سال سولہ دسمبر کو پشاور پبلک سکول ميں تقريباً ڈيڑھ سو بچوں کو قتل کرنے کا جو روح لرزنے والا واقعہ ہوا اس کے اوپر احتجاج کرتے ہوئے سول سوسائٹی کی ممبر تنظيميں اور افراد باہر نکل آئے اور کافی عرصے تک باہر رہے۔رياست سے طالبان کے خلاف سخت کاروائی کرنے کا مطالبہ کيا بلکہ عوام سے رياست کا اس دعوے کا ساتھ دينے کا پرزورمطالبہ شروع کيا کہ کوئی اچهے اور برے طالبان ميں مزيد فرق نہيں رہا سب کو ختم کيا جائے گا۔سول سوسائٹی کے ان مظاہروں نے لال مسجد کے سامنے اپنے پاکستان اور اپنی مسجدوں کو ری کلیم کرنے کا نعره لگايا اور اس نعرے کو ملکی اور بين الاقوامی سطح پر بڑی پزيرائی ملی۔ بہت سارے تجزيہ نگاروں نے يہ بهی لکها کہ پاکستانی رياست تب تک دہشت گردوں سے نہيں نمٹ سکتی جب تک سول سوسائٹی کے نمائندوں کو بهی پاليسی بنانے ميں شامل نہ کيا جائے گا۔
سول سوسائٹی کی اس ‘تحريک‘ کا ہيرو کراچی سے تعلق رکهنے والا ايک اٹهائيس سالہ جوان جبران ناصر بنا جو لال مسجد کے سامنے مظاہروں کے فوراً بعد دنيا کی دو درجن يونيورسٹيوں ميں پاکستان کی ‘صحيح‘ نمائندگی کرنے کيلئے بلايا گيا اور وہاں پر اس نے جو ليکچرز دئيے ہيں ان ميں ملٹی ميڈيا پر تقريباً ساری بڑی سياسی جماعتوں کے راہنماؤں اور کالعدم تنظيموں کے سربراہوں کی ملاقاتوں کی تصاوير دکها کر يہ ثابت کيا گيا ہے کہ پاکستان ميں دہشت گردوں کو سياسی جماعتوں نے مضبوط کررکها ہے اور يہ سياسی جماعتيں طالبان کے خلاف رياست کی کاروائی کی راه ميں رکاوٹيں کهڑی کرتی آئی ہيں۔ اس کے يوٹيوب پر موجود سارے ليکچرز کا تنقيدی جائزه بہت ضروری ہے ليکن وه اس ايک مضمون ميں ممکن نہيں۔ اس پہ کئی تعداد مضامين لکهنے پڑیں گے۔
يہاں پاک ٹی ہاؤس ڈاٹ نيٹ پر موجود جبران ناصر کے ايک حاليہ مضمون سے چند الفاظ نقل کروں گا جو اس نے ملک اسحاق کی ہلاکت پر لکها ہے۔ اس مضمون ميں وه بلوچ آزادی خواہوؤں کو بهی دہشت گردتنظيموں کے لسٹ ميں ڈالتا ہے اور ان کے خلاف آرمی کی کاروائيوں کو سراہتا ہے. مضمون کے آخر ميں کچھ يو ں فرماتا ہے:
“For now, due to the self serving politics of our politicians and flawed policies of some generals, these killers are not treated as terrorists but as stakeholders”
بہت واضح طور پر سارے سياستدانوں کی سياست کو ذاتی مفادات پر مبنی بتايا گيا ہے ليکن بعض جرنيلوں کی غلط پاليسيوں کا ذکر کيا گيا ہے۔ا س کا مطلب ہے کہ سياستدان سارے غلط اور ذاتی مفادات کيلئے کام کرتے ہيں جبکہ جرنيل نہ تو سارے غلط ہيں اور نہ ان کے ادارے ميں کوئی خامی ہے بلکہ کچھ افراد کی پاليساں غلط ہيں۔ اس حوالے سے تو کوئی بهی مڈل کلاس کا بنده فوراً ہی يہ معذرت خواہانہ جملہ استعمال کرسکتا ہے کہ ہاتھ کی پانچ انگلياں بهی برابر نہيں، کچھ افراد غلط ہوسکتے ہيں، ان کی ٹهيک کرنے کی کوشش کی جانی چائيے۔رہی سياستدانوں کی بات وه بقول جبران ناصر سارے اپنے مفادات کيلئے لگے ہوئے ہيں۔
جب سارے غلط ہيں تو کس کس کو ٹهيک کيا جائے گا؟ مطلب يہ پيشہ ہی کچھ اس طرح کا ہے جس کو ذاتی مفادات کے لیے اختیار کیا جاتا ہے ۔ مندرجہ بالا جملے میں صرف سیاست دانوں کے بارے جبران کا رویہ اور موقف بتانا مقصود تھا۔ یہ تو اب پبلک نالج ہے کہ کس نے دہشت گردوں کو سٹیک ہولڈر بنایا؟ سیاستدانوں اور ان کی پارلیمان نے یا جرنیلوں اور ان کے ادارے نے؟
يہ “چند جرنيلوں کی غلط پاليسی” کی اصطلاح پاکستانی سول سوسائٹی کے تقريباً سارے لوگوں نے اختيار کی ہے اور وه يہ اس وقت استعمال کرتے ہيں جب دہشت گردی کے حوالے سےفوج کے ادارے پہ کوئی تنقيد آتی ہے۔ جب پشاور آرمی پبلک سکول کے واقعے کے دوسرے دن اسلام آباد پريس کلب کے سامنے پشتون قوم پرستوں اور پاکستانی ترقی پسند وں کے ايک شريک احتجاجی مظاہرے ميں فوج کے ادارے پہ سخت تنقيد ہوئی تو ايک بڑی مشہور خاتون ايکٹويسٹ فرزانہ باری (جو کہ بيک وقت ايک ليفٹيسٹ پارٹی کی مرکزی عہديدار بهی ہے اور سول سوسائٹی کی ممبر بهی) کهڑی ہوگئیں اور کہا کہ ساری فوج نہيں بلکہ چند جرنيلوں کی غلط پاليسيوں پہ تنقيد ہونی چائيے اور ساتھ ميں يہ بهی کہا کہ فوج کے اندر سے انقلاب آئے گا۔ پاکستانی سول سوسائٹی کا مجموعی طور پر بهی يہی خيال ہے کہ پاکستان ميں فوج اور اين جی اوز والے ہی انقلاب لائينگے۔
پروفيسر ڈاکٹر پرويزہودبهائی کی پاکستانی سول سائٹی ميں ايک متاثر کن شخصیت کی حیثيت ہے۔ پچهلے سال جب شمالی وزيرستان ميں آپريشن ضربِ عضب شروع ہونے والا تها تو انہوں نے ويوپوائنٹ آن لائن کو ايک انٹرويو ميں بتايا کہ پاک فوج دہشت گردوں کو ختم کرنے ميں سنجيده ہے۔ فوج پر شک کرنے والے دراصل دشمن کو مضبوط کرنا چاہتے ہيں۔ اس وقت ميں نے ان کو تفصيلی جواب ايک مضمون کی صورت ميں ديا تها جو آپ اس لنک
پر پڑھ سکتے ہيں۔
ڈاکٹر ہودبهائی نے ۱۰ جنوری ۲۰۱۵ کے ڈان ميں (مسجد بمقابلہ رياست ) کے عنوان کے تحت ايک مضمون تحرير کيا ہے جس ميں انہوں نے رياست پہ بڑا زور ديا ہے کہ وه مساجد کو اپنے کنٹرول ميں لے۔ اس لئے کہ مسجد اب صرف کوئی مذہبی اداره نہيں رہا بلکہ اس نے ايک سياسی ادارے اور ايسٹبلشمنٹ کی شکل اختيار کی ہے اور رياست کو چيلنج کيا ہے۔ وه لال مسجد کو حوالہ بناکر تفصيل سے بتاتے ہيں کہ کس طرح مشرف کے دور ميں مسجد کی متوازی حکومت رہی اور رياست اس کو کنٹرول کرنے ميں ناکام ہوگئی۔ ملٹری اور سياسی ليڈروں کی “کوتاہيوں” کے علاوه وه ايک وجہ عوامی ردعمل بهی بتاتے ہيں جس کی وجہ سے رياست مسجد کو اپنے کنٹرول ميں نہيں لے سکی ہے۔
نيشنل ايکشن پلان منظور کرانے اور ملٹری کورٹس قائم کرنے کيلئے فوج ہی نے يہ ٹاسک ان سول سوسائٹی کے لوگوں کو سپرد کيا تها کہ مسجد کو رياست کيلئے ايک بہت بڑے خطرے کے طور پر پيش کيا جائے۔مجهے سول سوسائٹی کے ايک ممبر نے بتايا تها کہ فوج کے شانہ بشانہ کهڑا ہونے کا وقت ہے، فوج اب دہشت گردوں کو ختم کرنے ميں نہايت سنجيده ہے، اگر فوج ہمارے ساتھ نہ ہوتی کيا ہم لال مسجد کے مولانا عبدالعزيز کے خلاف مقدمہ درج کراسکتے تهے۔ يہی وجہ تهی کہ لال مسجد کے سامنے اور باقی جگہوں پر کئی دنوں تک “پاک فوج زنده باد” کے نعرے لگتے رہے اور بینروں پر “فوجی عدالتوں کے بنانے پر ہم پارليمنٹ کا شکريہ ادا کرتے ہيں” کے نعرے لکهے ہوئے تهے۔
شمالی وزيرستان ميں آپريشن ضربِ عضب کو اس سول سوسائٹی کی مکمل حمايت حاصل رہی ۔آپريشن کس کے خلاف ہوا اور کس کو ختم کيا؟ اس کے ساتھ سول سوسائٹی کا کوئی سروکار نہيں۔ لوگوں پہ جو گزرا، جس طرح ان کو دربدر کيا گيا اس حوالے سے سول سوسائٹی والے صرف اتنا کہنا پسند کرتے ہيں کہ سياست سے بالاتر ہوکر سوچنے اور کام کرنے کا وقت ہے۔اتنے شديد سياسی مسئلے پر سياست سے بالاتر ہو کر کے سوچنے کا مقصد ہے کہ کوئی اختلافی، احتجاجی اور مزاحمتی رويہ نہ اختيار کيا جائے بلکہ اگر کرسکتے ہيں تو نيسلے پانی کی بوتليں اٹها کر آئی ڈی پيز (مجهے اس نام کے ساتھ بڑا مسئلہ رہا ہے) کے پاس جانا۔
بالفاظ ديگر ايک سياسی کارکن کی بجائے ايک رضاکار بننے کا وقت ہے اور يہی وجہ تهی کہ پاکستان کی سول سوسائٹی نے ہنگو کے ايک سکول ميں خودکش حملہ آور کو روکنے والے شہيد بچے اعتزاز احسن کو رول ماڈل قرار ديا، سوشل ميڈيا پر“طره امتياز ہوجائيں، آؤ سب اعتزاز ہوجائيں” کا نعره لگايا اور ساتھ ميں يہ بهی کہا کہ اگر آرمی پبلک سکول پشاور ميں اعتزاز احسن جيسا “بہادر” بچہ ہوتا تو اتنی جانيں ضائع نہيں ہوتيں۔ يہ کسی جذبات ميں نہيں بلکہ سوچے سمجهے منصوبے کے تحت کہا گيا۔
سوال يہ ہے کہ جب سکول کو سيکوريٹی فراہم کرنا اعتزاز جيسے معصوم بچوں کی ذمہ داری بن جاتی ہے تو رياست کے پاس اسی سکول کے چهت پر اپنا جهنڈا لہرانے کا کيا جواز بچتا ہے؟ سول سوسائٹی کی ابهی يہ بهرپور کوشش ہے کہ سياسی کارکن کی جگہ کسی رضاکار کو کهڑا کردے۔رضا کارانہ نفسیات کو تقویت دینے کے لیے تو صرف مڈل کلاس کی یہ دانش ہی کافی ہے کہ ہميں خود کچھ کرنا چائيے۔ تنقيد تو بات آسان ہے، کام کرنا مشکل ہے۔ ہميں پہلے اپنے آپ کو ٹهيک کرنا چائيے۔ ہم ہميشہ کہتے ہيں کہ پاکستان نے ہميں کيا ديا ہے ليکن يہ کبهی نہيں سوچا ہے کہ ہم نے پاکستان کو کيا ديا ہے!”
يہ پنجاب اور پنجاب کے ساتھ ايک سول لائف اورسوشل موبلٹی ميں شريکِ سفر تعليم يافتہ، نوکر پيشہ اور ٹهيکے دار “پاکستانيوں” کی ذہنيت ہے جس سے پاکستانی سول سوسائٹی کا بيانيہ بهی تشکيل پاتا ہے۔ يہ لوگ رضاکاروں کو رول ماڈل بنا کرکے پھریں گے ليکن اپنی اپنی قومی شناخت اور اپنے محکوم طبقے کا دفاع کرنے والے سياسی کارکنوں کی چهلنی لاشوں پہ وه بالکل خاموش رہیں گے۔ سول سوسائٹی کی بلوچ اور سندهی سياسی کارکنوں کے خلاف “قتل کردو اور پهينک دو” کی پاليسی سے اپنے آپ کو لاتعلق رکهنے کی وجہ اب ہرکسی کی سمجھ ميں آتی ہے۔
تعليم اور شعور کی چمپئن سول سوسائٹی اس وقت بالکل خاموش رہی جب صوبہ پختونخوا ميں سکولوں کے اندر استادوں کو بندوق دينے اور ان کی جنگی تربيت کرنے کا اعلان ہوا۔يہ ملٹری کورٹس کے تناظر ميں بہت بڑے پيمانے پر ملٹرائزيشن کرنے کی کوشش تهی جس پہ سول سوسائٹی بالکل خاموش رہی۔ اس لئے کہ ايک طرف پختونخوا ميں پورا سماجی ڈهانچہ عسکری بن رہا تها اور دوسری طرف رياست کی ذمہ داريوں ميں کمی آرہی تهی۔ سول سوسائٹی رياست کی براه راست عسکريت کی بجائے اس کی ايک حد تک غير رسمی عسکريت کو فوکس کرتی ہے۔ اس کی نظر ميں پاکستانی رياست اور معاشرے کو خطره مسجدوں اور مدرسوں سے ہے۔ اس مفروضے کو ثابت کرنے کيلئے مسجدوں اور مدرسوں کو رياست کے کنٹرول سے باہر دکهايا جاتا ہے۔ کم سے کم گزشتہ چاليس سال سے تو يہ عوام کی آنکهوں کے سامنے گزرا ہے کہ کس طرح رياست اور مدرسے کے الحاق نے انسانوں کا اختيار اپنی زندگی اور زمين پر خطرناک حد تک محدود کرديا۔
جب بهی کسی سکول پہ دہشت گردی کا حملہ ہوتا ہے تو سول سوسائٹی والے چِلانے شروع کرديتے ہيں کہ دہشت گرد ہماری آئنده نسلوں کا مستقبل تاريک بنانے چاہتے ہيں اور معاشرے کو پتهر کے زمانے ميں واپس بهيجنا چاہتے ہيں۔ وه سکول کو روشنی کا مرکز قرار ديتے ہيں۔ ليکن انہی دہشت گردوں نے مسجدوں کو سکو لوں سے زياده ٹار
گٹ کيا ہے تو مسجد وں کو ٹارگٹ کرنے کے ذريعے پهر معاشرے کو کس زمانے ميں بهيجنا چاہتے ہيں؟ دہشت گردوں کا کام عوامی زندگی کو اجيرن بنانا او ر بانجھ رکهنا ہوتا ہے، وه ہر اس جگہ کو ٹارگٹ کرتے ہيں جہاں پہ لوگوں کے اجتماعی، ثقافتی اور سياسی تعلقلات بنتے ہيں يا جہاں پر معاشرتی زندگی خود کو قائم اور توانا رکهتی ہے۔
نظرياتی لحاظ سے ديکها جائے تو نہ سکول کا نصاب دہشت گردی کے خلاف ہے اور نہ مسجد ميں مولوی صاحب کا خطبہ! سکول کا نصاب ، مدرسے کا نصاب اور مساجد کی تقارير ميں دہشت گردی کو اخلاقی جواز اور نظرياتی خوراک فراہم کيا جاتا ہے۔يہ اس لئے نہيں کہ ان اداروں کا کوئی اپنا مسئلہ اور مفاد ہے بلکہ يہ بنيادی طور پر رياست کا مسئلہ ہے۔ جس طرح رياست کی فطرت ہے اسی طرح اس کے تعليمی ادارے، مذہبی ادارے، سياسی اور عسکری ادارے ہيں۔
رياست کے ساتھ مذہبی اداروں کا تاريخی الحاق بهی ايک سول سوسائٹی کے طور پر ہے۔ لبرل لوگوں کے نازک مزاجوں پہ جتنا بھی گراں گزرے مدرسہ اور ديگر مذہبی ادارے سول سوسائٹی کا حصہ رہیں گے، نام چاہے جو بهی ہو۔ لبرل لوگوں کا تصوف او ر “صحيح و اصلی اسلام” کے حوالے سے معذرت خواہانہ رويہ کسی مذہبی بندے کی تشريح کو آخری تجزيے ميں مقدم قرار دے گا۔ حافظ سعيد کے مقابلے ميں جاويد احمد غامدی کی تشريح کا سہارا ليا جائے گا۔ سول سوسائٹی کا مقبول مفروضہ بهی يہی ہے کہ “صحيح و اصلی اسلام” امن کا سرچشمہ ہے، کام چند مُلاوں نے بگاڑا ہوا ہے۔سول سوسائٹی والوں کے خيال ميں رياست جب مسجد کو اپنے کنٹرول ميں لے گی تو پهر وه اسلام شروع ہوجائيگا جو امن، شانتی اوررواداری کا اسلام ہے۔
ا س کے علاوه سول سوسائٹی “جناح کا پاکستان” واپس لانے کیلئے بهی جدوجہد کرتی آئی ہے۔ جب بهی اقليتوں پہ کوئی حملہ ہوتا ہے يا مذہبی دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ ہوجاتا ہے تو سول سوسائٹی کے لوگ “جناح کا پاکستان” بحال کرنے کا مطالبہ شروع کرتے ہيں۔ يہ “جناح کا پاکستان” ايک انتہائی غيرتاريخی اور بے بنياد پروپيگنڈه ہے۔ نہ تو جناح کا رياست کے حوالے سے کوئی واضح نقطہ نظر تها اور نہ اس اکیسويں صدی کے لوگ جناح کی دانش کے محتاج ہيں۔ مسلم ليگ، تحريک پاکستان اور ہندوستان کی تقسيم جناح کو سيکولر ثابت کرنے کی ہر کوشش کو سرے سے بے معنی ، غيرتاريخی اور بے بنياد ٹھہراتی ہے۔ پاکستان کے اس پہلے گورنر جنرل کا جمہوريت کے ساتھ بهی دور دور تک کوئی تعلق نہيں رہا ہے.۔
پاکستان بننے کے فوراً بعد منتخب حکومتوں کو بهی اسی گورنر جنرل کے حکم سے برطرف کيا گيا۔ پشتونوں، بلوچوں اور بنگاليوں کو پاکستان بنتے ہی محکوميت کا احساس اسی بابائے قوم نے دلايا۔ پشتونوں اور بلوچوں کو زبردستی پاکستان ميں شامل کرنے کی حقيقت تو اپنی جگہ، يہ جو اردو کو قومی زبان بنانے پر تلے ہوئے تهے کيا ثابت کرنا چاہتے تهے؟ جناح صاحب کی زندگی ميں چارسده ميں بابڑه کے مقام پر ايک دن ميں تقريباً ساڑے چھ سو خدائی خدمتگاروں کو مسلم ليگی حکومت نے قتل کيا۔ کس کے حکم پر يہ کيا اور بابائے قوم نے اس کے حوالے سے کيا کچھ کہنا گوارا کيا؟ آج کا جو پاکستان ہے يہ وہی “جناح کا پاکستان” ہے۔
يہ وضاحت بهی بہت ضروی ہے کہ سول سوسائٹی ايک مکمل طور پر سيکولر نظام کی بات بهی نہيں کرتی ہے البتہ ايک ہلکی قسم کے سيکولرازم کی خواہش ضرور رکهتی ہے۔ اس نکتے کی وضاحت ضروری ہے کہ ايک سيکولر رياست بهی پاکستان ميں موجود تمام مسائل کا حل نہيں۔ يہاں عوام کے مسائل قومی، معاشی اور سياسی نوعيت کےہيں۔ مذہب بذاتِ خود ايک مسئلہ نہيں بلکہ ايک بڑے مسئلے کا حصہ ہے۔مذہب رياست کے ہاتھ ميں ايک خطرناک ہتهيار کے طور پر رہا ہے۔ انگريزوں کا ہندوستان ہو يا جناح، ضياء اور پاشا کاپاکستان، کالونيلزم تب بهی تها اور آج بهی ہے۔ مسئلہ اصل ميں کالونيلزم کا ہے، يہ کسی مسجد کا بنايا ہوا نہيں۔ مسجد نے کالونيلزم کا ساتھ نبهايا ہے، يونيورسٹيوں نے نبهايا ، ميڈيا اور دانشوروں نے نبهايا، خيراتی تنظيموں اور اين جی اوز نے نبهايا ہے اور سول سوسائٹی نے نبهايا ہے۔
سول سوسائٹی کا ڈيولپمنٹ ڈسکورس کسی بهی صورت ميں کالونيلزم سے عليحده نہيں۔ اورينٹلسٹ لائن پر سوچنے والے سول سوسائٹی کے لوگ ہی ہيں جو بلا خوف و جهجک تاريخی قوموں اور علاقوں کو “پسمانده” ڈکلئير کرتے ہيں اور اس “پسماندگی” کو ختم کرنے کيلئے وہاں پہ ڈيولپمنٹ پروگرام کے نام پر ہر قسم کی مداخلت کا حق اپنے آپ کو ديتے ہيں۔
سول سوسائٹی کے ڈسکورس اور کارکردگی سے جڑے ہوئے ايک بڑے واقعے کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے ۔ وه ہے ايک رائٹ اور آرٹ ايکٹيويسٹ سبين محمود کا قتل۔ ان کے قتل کی صرف ايک وجہ ہماری سمجھ ميں آتی ہے کہ انہوں نے خواندگی، صنفی برابری، ترقی اور رواداری کے مقبول نعروں سے ہٹ کر ايک انتہائی غيرمقبول کيس کو اٹهايا۔ ان کے قتل کے ذريعے سول سوسائٹی کے کسی بهی فرد کو اپنی لبرل پاپولر لائن پہ رہنے کا پيغام ديا گيا۔ جيسے پہلے كہا گيا بلوچ، پشتون اور سندهی سياسی کارکنوں کے خلاف رياست جو کچھ کرتی ہے اس پر کوئی ردعمل ظاہر کرنا سول سوسائٹی کا کام نہيں، سول سوسائٹی کا کام بلوچستان، پختونخوا اور سندھ ميں پسماندگی اور ناخواندگی کوختم کرنا ہے۔
‘پسماندگی‘ اور ‘ناخواندگی‘ کو زياده فوکس کرنے سے مسئلے کی اصلی نوعيت ہی اب بدل چکی ہے. اب زياده تر لوگوں کا خيال ہے کہ فاٹا ميں جو دہشت گردی ہے وه وہاں پہ موجود پسماندگی اور ناخواندگی کی وجہ سے ہے. مبارک حيدر جيسے دانشور تو قبائلی علاقوں ميں موجود دہشت گردی کو وہاں کی ‘تہذيب‘ سے جوڑنے ميں کوئی دير نہيں کرتے. کالونيلزم کا تو يہی کمال ہے کہ لوگوں کو قتل بهی کرتا ہے، ان کے وسائل کو لوٹتا بهی ہے اور اوپر سے ان کو بری طرح بدنام بهی کرتا ہے۔
چند ايک ايسے لوگ بهی ہيں جو فاٹا کی اپنی سول سوسائٹی ديکهناچاہتے ہيں، ان کے خيال ميں جس دن فاٹا کی اپنی سول سوسائٹی سامنے آئی گی، اس دن وہاں پہ امن اور آسودگی کا دور شروع ہوجائے گا۔ جس علاقے ميں ابهی تک شہريت کی کيٹيگری وجود ميں نہيں آئی ہے، جہاں پہ رياست لوگوں کے ساتھ پہلے دن سے ايف سی آر کے تحت ايک نوآبادياتی برتاؤ کرتی آئی ہے اور ايک صدی سے زائد عرصہ گزرچکا ہے کہ لوگ بنيادی انسانی حقوق سے محروم ہيں وہاں پہ سول سوسائٹی کا دعوی ٰايک بڑا فکری مغالطہ اور ملٹری کا حربہ ہے۔گزشتہ ايک دہائی ميں فاٹا کے سينکڑوں قومی اور قبائلی مشیران کو بہت ہی منظم طريقے سے قتل کيا گيا، وہا ں کے قبائلی سياسی ميکانزم کو تباه کرديا گيا ، سب کچھ يا تو دنيا جہا ں کے دہشت گردو ں کے حوالے کرديا گيا اور يا فوج نے اپنے براه راست کنٹرول ميں رکها۔
اتنی بڑی تباہی ميں جو ابهی تک ختم ہونے کا نام بهی نہيں ليتی چند اين جی اوز والوں کو سول سوسائٹی کے نام سے متعارف کروانے، فاٹا کے اوپر پروجکٹس کروانے اور تهينک ٹينکس کهلوانے کی کوشش ايک بڑی جنگی معيشت کا حصہ ہے۔ فاٹا کے لوگوں کی نجات ایک پولیٹیکل سوسائٹی پانے کے بغیر کسی بھی چیز میں نہیں۔
اس کے علاوه آئی ايس پی آر خطے ميں ‘امن‘ قائم کرنے کيلئے فلميں بهی سپانسر کرتا ہے تاکہ “پاکستانی ثقافت کو پروان چڑها کر يہود وہنود کی ‘ثقافتی يلغار‘ کو ناکام بنايا جائے اور پاکستان ميں ‘نان سٹيٹ ايکٹرز‘ کی تخريبی کاروائيوں کے خلاف پاک فوج کی قربانيوں کو خراجِ تحسين پيش کيا جائے۔آئی ايس پی آر اور فنکاروں کے اس ‘باہمی تعاون‘ کو بڑی آسانی سے سول سوسائٹی کا نام ديا جاسکتا ہے۔
کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے لٹريری فيسٹيولز ميں بهی اکثر مباحث پاکستان ميں انتہاء پسندی اور دہشت گردی کو شکست دينے کيلئے آرمی کو تعاون فراہم کرنے کے گرد گهومتے ہيں۔ ان لٹريری فيسٹيولز ميں لٹريچر کم اور پاکستان کا دفاع زياده ہوتا ہے۔ريٹائرڈ بيوروکريٹس اور دفاع تجزيہ نگار سارے فيسٹيول پر اس طرح چهائے ہوتے ہيں جس طرح ٹی وی چينلز پر ہوتے ہيں۔
جنسی امتياز کے خلاف سرگرم اس سول سوسائٹی کو اس سارے مسئلے کی جڑ معاشرے ميں لوگوں کی ثقافت کے اندر نظر آتی ہے۔ سول سوسائٹی پدرسری سماج کا تجزيہ کبهی بهی اس کی سياسی معيشت او ر تاريخی ماديت کی روشنی ميں نہيں کرتی بلکہ لوگوں کو مورد الزام ٹهہرانا، کلچرز کو ليبل کرنا اور سرسری حل پيش کرنا اس کی روايت رہی ہے۔سول سوسائٹی کی اس جدوجہد کے نتيجے ميں کچھ خواتين تو اين جی اوز ميں نوکری پيدا کرنے ميں کامياب ہوجاتی ہيں ليکن جو بنيادی مسئلہ ہے وه نظرياتی حوالے سے اور بهی گهمبير صورت اختيار کرجاتا ہے۔ سول سوسائٹی والے جنسی امتياز کے موضوع پر اپنے بيانيے ميں رياست کو ايک حوالے کے طور پر بهی شامل نہيں کرتے ہيں کہ کس طرح اس نے ايک پدرسری ادارے کے طور پر جنسی امتياز کو گہرا کر رکها ہے اور خواتين کے جسموں کو کس طرح جنگی محاذوں ميں تبديل کررکها ہے۔
ايک آخری حوالہ پاکستان کی سول سوسائٹی کے مرکز اسلام آباد کا دينا ہے۔ لال مسجد کے خلاف مظاہروں ميں بهی اور عمران خان اور طاہرالقادری کے دہرنوں کے خلاف احتجاج ميں بهی سول سوسائٹی نے اپنے اس خوبصورت شہرکی ملکيت اور حفاظت کا دعویٰ کيا اور کہا کہ اسلام آباد زندگی کا شہر ہے ہم اس کو برباد اور گنده نہيں ہونے ديں گے۔ ابهی جب پاکستانی رياست نے اسلام آباد ميں کچی آباديوں کا صفايا کيا اور تيس چاليس سے آباد سينکڑوں پشتون خاندانوں کے گهروں کو جبر و زبردستی سے مسمار کيا تو سول سوسائٹی خاموش تماشائی کے طور پر شايد رياست کو اس اقدام پر خراج ِ تشکر پيش کررہی تهی کہ اس نے بڑی کاميابی سے اس خوبصورت شہر اور زندگی کے شہر اسلام آباد کو گندے مزدوروں سے پاک کيا۔
اس بحث سے يہ نتیجہ نکالنا اب بڑا اسان ہے کہ سول سوسائٹی کی اپنی کوئی آزاد حیثیت نہيں ہوتی بلکہ رياست کے ساتھ کسی نہ کسی حوالے سے اتحاد ميں شريک ہوتی ہے۔ پاکستانی رياست کی نوعيت چونکہ ملٹری اور سول اداروں کے ايک گٹھ جوڑ کے طور پر رہی ہے، اس لئے پاکستان ميں سول سوسائٹی نہيں بلکہ سول ملٹری سوسائٹی اپنی جڑ پکڑنے ميں بڑی حد تک کامياب ہوئی ہے اور مستقبل قريب ميں رياست کی فيصلہ سازی کے عمل ميں بهی ايک موثر رول پانے ميں کامياب ہوجائے گی۔ اس کے بعد اس ملک ميں سول ملٹری سياست کيلئے گنجائش تو ہوگی ليکن احتجاجی، مزاحمتی، ترقی پسند اور قوم پرست سياست کا پبلک ميں ايک بڑے پيمانے پر فحش مذاق اڑانے کا دور شروع ہوجائيگا۔
سول ملٹری سوسائٹی اس ملک اور معاشرے ميں سياسی کارکنوں کيلئے بڑی تيزی سے گنجائش ختم کرتی جارہی ہے. ‘سياست کی مخالفت کرو، سياست کرو‘ کی پاليسی کے تحت بہت کچھ اب بدلنے والا ہے، حتیٰ کہ سياست بهی اتنی بدل چکی ہے کہ اکثر سياستدان ‘سياست نہيں رياست بچاؤ‘ ، ‘يہ قومی مسئلہ ہے اس پر سياست نہيں ہونی چائيے‘ اور ‘سياست سے بالاتر ہوکر قومی مفاد کيلئے کام کرنے کا وقت ہے‘ کے نعرے لگا رہے ہيں. پاکستان ميں واحد مسئلہ “وسيع تر قومی مفاد” ہے جس پر ساری سياسی جماعتيں، سول سوسائٹی اور ميڈيا متفق ہيں۔ يہ تو اب ساری دنيا کو پتہ ہے کہ پاکستان ميں “وسيع تر قومی مفاد” کس کا بنايا ہوا نعره ہے۔
Twitter: @khanzamankakar
6 Comments