محمد شعیب عادل
انتیس جولائی کو پاکستان میں دہشت گردی کا ایک اور باب ختم ہو گیا۔بیس سال سے زیادہ دہشت گردی اور فرقہ وارانہ قتل وغارت میں ملوث ملک اسحاق اپنے مخالفین کی بجائے اپنے ہی ماسڑز کی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔ اگر وہ اپنی من مانی کرنے کی بجائے اپنے ماسٹرز کی ہدایات پر عمل کرتا رہتا تو شاید کچھ سال اور زندہ رہ سکتا تھا۔
اس کی موت پر تبصرہ کرتے ہوئے کچھ نے اسے جہنم واصل ہونے کی نوید دی اور کچھ نے اسے شہادت کے رتبے پر فائز کیا ہے۔ملک اسحاق کے قتل سے ایک بار پھر واضح ہو گیاہے کہ کیسے ریاست اپنی مہم جوئیوں کے لیے’’مجاہد‘‘ تیار کرتی ہے اور پھر جب وہ آؤٹ آف کنٹرول ہو جائیں تو انہیں مار دیا جاتا ہے۔
بنیادی طور پر یہ خاموش پیغام ان تمام مجاہدوں کے لیے ہے جو اپنے ماسڑز کی حکم عدولی کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتوں خاص کر نام نہاد فاع پاکستان کونسل کے ارکان، جن میں حمید گل بھی پیش پیش ہیں، ملک اسحاق کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر یکجہتی کا اظہار کرتے تھے اورانہیں ہار پہنانے یا پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنے میں آگے آگے ہوتے تھے کی طرف سے ابھی تک کوئی مذمتی بیان سامنے نہیں آیا۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا ء اللہ جو انہیں سیاسی دھارے میں شامل کرنے کے لیے کوشاں رہے ہیں وہ بھی خاموش ہیں۔
ملک اسحاق کو 1997 میں گرفتار کیا گیاتھا اور چودہ سال بعد 2011 میں سپریم کورٹ نے اسے ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ اس پر سو سے زائد افراد کو قتل کرنے کے مقدمات تھے مگر کسی بھی عدالت کی طرف سے عدم ثبوت اور گواہوں کے پیش نہ ہونے کی وجہ سے اسے سزا نہ ہو سکی۔ پچھلے بیس سالوں میں تقریباً 72 ججو اور پراسیکیوشن کے وکیلوں نے اس کا کیس سننے سے انکار کر دیاتھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ عدلیہ کے مقابلے میں ریاست دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
آج بھی عدالتوں کو حافظ سعید یا ذکی الرحمن لکھوی کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملتے کیونکہ ریاست کو ابھی ان کی ضرورت ہے۔یہی حال لال مسجد والے مولانا عبدالعزیز کا ہے۔جب وہ آپے سے باہر ہوئے تھے تو ہمارے ہر دلعزیز نوجوان رہنما، جبران ناصر، نے ان کے خلاف مہم چلائی تھی مگر مولانا سمجھ دار نکلے اور سرکار کا اشارہ سمجھ گئے۔جبران ناصر واپس کراچی پدھارگئے اور الیکٹرانک میڈیا نے بھی ان کی سرگرمیوں سے منہ پھیر لیا۔
ملک اسحاق نے 1996 میں سپاہ صحابہ سے علیحدہ ہو کر اپنے ساتھیوں اکرم لاہوری اور ریاض بسرا کے ساتھ مل کر لشکر جھنگوی کی تشکیل کی۔ لشکر جھنگوی کی القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان اور جنداللہ سے ورکنگ ریلیشن شپ تھی۔ ملک اسحاق جیل میں بیٹھ کر دہشت گردی کی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کرتا تھا۔ 2009 میں اس نے جیل سے ہی سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی جس کے بعد پاکستان میں بین الاقوامی کھیلوں کا خاتمہ ہو گیا۔
ملک اسحاق اتنا طاقتور اور بااثر تھا کہ دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت کو جی ایچ کیو سے دہشت گردوں کا قبضہ چھڑانے کے لیے اس کا منت ترلہ کرنا پڑا اور اسے لاہور جیل سے آرمی ہیلی کاپٹر پر جی ایچ کیو لے جایا گیا جہاں اس نے دہشت گردوں سے مذاکرات کیے اور پاک فوج بمشکل اپنی عزت بچا سکی۔ 2011 میں اپنی رہائی کے بعد اس نے لشکر جھنگوی کو دوبارہ منظم کیا اور ملک میں فرقہ وارانہ قتل و غارت کا ایک نیا باب شروع ہو گیا تھا۔لشکر جھنگوی نے کوئٹہ، گلگت اور کراچی میں ہزارہ کمیونٹی اور دوسرے شیعہ افراد کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
ملک اسحاق کے قتل سے پھراس بحث کا آغاز ہو گیا ہے کہ کیا اس کا ماورائے عدالت قتل درست ہے؟اس کا جواب ریاست کی ترجیحات میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ جب ریاست ان دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کی پشت پناہی کرے گی تو پھر عدلیہ کیسے ان کوکیفر کردار تک پہنچائے گی۔
ریاست انتہا پسندی کا خاتمہ نہیں بلکہ اسے کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔یہی وجہ ہے کہچاہے مُلا عمر ہوں یا اسامہ بن لادن یا دوسرے رہنما سرکاری مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ملک اسحاق کے دوسرے ساتھی ، مولانا احمد لدھیانوی، مولانا فضل الرحمن خلیل (امیر حرکت المجاہدین) اور مفتی عبدالرؤف( مولانا مسعود اظہر کے چھوٹے بھائی) جنہوں نے جی ایچ کیو میں دہشت گردوں سے مذاکرات کیے تھے ابھی بھی ’’پرامن‘‘ رہ کر اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ضروری نہیں کہ وہ دہشت گردی کی کاروائیاں کریں بلکہ اپنے مدرسوں اور مساجد میں نفرت انگیز تعلیمات کا پرچار کرنے میں مصروف ہیں۔مذہبی تعلیمات اور لٹریچر کے ساتھ ساتھ ہمارا تعلیمی نصاب بھی نفرت کے بیج بوتا ہے۔
سولہ دسمبر2014 کو آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کے بعد ملٹری ایسٹیبلشمنٹ نے سول حکومت اور عدلیہ کی کارگردگی پر سوال اٹھائے تھے اور کہا گیا کہدونوں دہشت گردوں کو سزا دینے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ جرنیلوں نے اس کا حل ملٹری کورٹس اور موت کی سزا بحال کرنے میں تلاش کیا تھا مگر یہ دونوں حل بھی ناکام ہو چکے ہیں۔
ملٹری کورٹس بھی ان کے لیے ہیں جو ملٹری ایسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرے گا۔ ایک سال سے زیادہ عرصے سے جاری آپریشن ضرب عضب پر بھی اب سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ ابھی تک شمالی وزیرستان ان کے کنٹرول میں نہیں آیا اور آئی ڈی پیز بدستور کیمپوں میں کسمپرسی کی حالت میں جانوروں جیسی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں جبکہ ہمارے آزاد میڈیا کو ان مسائل کو اجاگر کرنے کی بجائے آیان علی یا ریحام خان کے شب و روز میں دلچسپی ہے۔
3 Comments