منظور بلوچ
گل خان نصیر 2014ء میں
وہ آج بہت خوش تھا۔بڑا ہی مسرور،گنگنا رہا تھا۔کبھی چلتن کی چوٹیوں پر نظر ڈالتا،کبھی کوہِ مہردار کو غور سے دیکھتا۔۔۔۔اور پھر اپنی بھولی بسری یادوں کو ٹٹولتا رہتا۔۔
اْس کے سامنے ماضی تھا۔۔۔تکلیف سے بھرا ہوا۔۔۔اب اس کے صرف دو ہی دوست رہ گئے تھے۔۔۔ایک بائیں طرف ایک دائیں طرف کھڑا ،اسے حیرت سے دیکھتے،اور سمجھانے کی کوشش کرتے۔لیکن بھلا وہ ماننے والا ہی کب تھا۔۔۔اگر مانتا ہوتا۔۔۔تو قلی کیمپ کی اذیتیں کیوں برداشت کرتا۔۔۔اْسے اپنی نوجوانی کے دن یاد آگئے۔۔۔جو برباد ہوگئے تھے۔لیکن اْسے کوئی پچھتاوا بھی تو نہ تھا۔۔۔اس لئے کہ اْس نے جو راہ چْنی تھی،اپنی مرضی سے ہی چْنی تھی۔
اْس وقت اس کی آنکھوں میں کتنے ہی سپنے تھے۔سْہانے کل کے۔۔۔اس کے خیال میں وہ دن کبھی کے آچْکے ہونگے۔۔۔اس لئے کہ اْس نے اْن خوبصورت دنوں کے لئے بہت خراج دیا تھا۔
جب وہ دشت میں آیااور آگے مشرقی بائی پاس تھا۔وہاں پر قلعے نما آبادیاں دیکھ کر،ان آبادیوں کے نام دیکھ کر حیران رہ گیا۔اپنے دوستوں سے پوچھنے لگا۔“یہ کون سی جگہ ہے؟یہ وہ دشت نہیں ہے۔جہاں ہم گل لالہ کے پھول چْننے آتے تھے؟یہ نئی آبادیاں کِس کی ہیں؟یہ سارے تواجنبی او ر بیگانے لوگ ہیں۔۔۔ان کو یہاں کیسے آباد کیا گیا؟ یہ تو بلوچوں کی زمینیں تھیں۔۔۔“دائیں طرف والا دوست کہنے لگا۔۔۔“یہ آپ کے زمانے کا شال نہیں۔یہ زمینیں بلوچوں نے ہی بیچی ہیں۔اور یہ لوگ اجنبی نہیں بلکہ اب اسی سرزمین کے باسی ہیں“۔
“بلوچوں نے اپنی زمینیں کیوں فروخت کیں؟کیا ان کی سمجھ بوُجھ گھاس چَرنے کو چلی گئی تھی۔۔۔کہاں گئی ہماری نیشنلزم؟”
بائیں طرف کا دوست ہنسنے لگا۔اور کہا کہ اب تو نیشنلزم پیسے اور دولت کو کہتے ہیں۔اس سے کسی کو غرض نہیں کہ پیسہ کہاں سے آتا ہے۔بس پیسے آنے چاہئیں۔
وہ گویا ہوا۔“انہیں اپنی آنے والی نسلوں پر رحم نہیں آتا؟“وہی دوست بولا۔“ان کو اپنے آپ پر رحم نہیں آتا۔۔۔رہ گئیں آنے والی نسلیں۔۔۔“وہ قہقہے مار کر ہنسنے لگا۔پھر اْس نے دیکھا اْس کا دوست پریشان ہورہاہے تو اس کی توجہّ ہٹانے کو کہا ۔” ایک لطیفہ سْناؤں۔۔۔“اْس نے بے خیالی میں کہا۔ “سناؤ!”
“جب سے سرحد پار سے لوگ لاکھوں کی تعداد میں آئے اور آرہے ہیں انہوں نے بلوچوں سے زمینیں خرید کر وہاں اپنی آبادیاں بنائیں۔چونکہ یہاں پر پاکستانی دستاویزات رشوت سے ملتی ہیں۔انہی سرحد پار والوں میں سے ایک کونسلر بنا۔۔۔۔”
“کیسے؟” وہ مزید حیران ہوا۔۔۔تو دوست نے مزیدبتایاکہ ایک دن بلوچوں کی وسیع و عریض زمینوں کا مالک میر و معتبر،شاید وہ آپ کا دوست بھی رہا ہو۔۔۔وہ اپنے لوکل سرٹیفکیٹ کی تصدیق کیلئے اسی سرحد پار سے آنے والے کونسلر کے پاس گیا۔تاکہ وہ اْس کی شناخت کردے۔
یہ سْن کر وہ بھلا مانس اور پریشان ہوگیا۔دوستوں سے اْس کی حالت نہیں دیکھی جارہی تھی۔۔۔ایک کہنے لگا کہ آج سے بیس سال قبل نواب خیر بخش مری نے اس صورت حال کے خلاف لوگوں کی سوچ بدلنے کی کوشش کی۔اب وہ اشتیاق سے سننے لگا۔دوست نے بتایا کہ صحافیوں اور پڑھے لکھے بلوچوں نے اْن کی اس کوشش کا بہت مذاق اْڑایا اور کہا کہ ترقی کے راستے کوئی نہیں روک سکتا۔وہ ایک بار پھر ششدرہو کر رہ گیا۔۔۔“کیا اِسی کو ترقی کہتے ہیں؟”
“جی ہاں” دائیں طرف والا دوست بولا۔“آپ کے زمانے کی ڈکشنری اور آج کی ڈکشنری میں بہت فرق ہے۔اب استحصال کو ترقی اور میرٹ کا نام دیا جاتا ہے۔”
“لیکن ایسے کہاں ہوسکتا ہے؟“بائیں طرف والا دوست بول پڑا۔“یہاں توا یسے ہی ہوتا ہے،ابھی تو بہت کچھ ہونا ہے۔”
پھر اْس کے دوستوں نے اْس کی دلجوئی کی خاطر فیصلہ کیا کہ اْسے بلوچستان یونیورسٹی کی سیر کرائی جائے۔کیونکہ یہ ادارہ اس کے اور اس کے دوستوں سے بنا تھا۔
جب وہ بلوچستان یونیورسٹی پہنچے۔۔۔پہلے تو وہ گھبرا گیاکہ یونیورسٹی چاروں طرف سے سیکیوریٹی فورسز کے حصار میں تھا۔اْس نے کہا کہ ایسی صورت میں ہم اندر کیسے جاسکتے ہیں؟ پھر وہ خود اپنے آپ سے پوچھنے لگا کہ کیا سنگینوں کے سائے میں تعلیم دی جاسکتی ہے؟ خیر وہ یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔کسی نے اْن کی طرف دھیان ہی نہیں دیا۔
انہوں نے دیکھا کہ بلوچ نوجوان بہت ہی بن ٹھن کر گھوم رہے ہیں۔کسی نے بڑے بڑے بال چھوڑ رکھے ہیں۔کوئی اپنے پیچھے طلباء کو ریوڑ کی طرح لیئے چلا جارہا ہے۔کوئی کینٹین میں بیٹھا خوش گپّیوں میں مصروف ہے۔اورہر طلبہ تنظیم کا الگ سرکل ہے۔
وہ حیران اور پریشان ہورہا تھا۔اْس نے خوش ہوکر ایک مرتبہ کہا کہ بلوچ طلبہ تو یہاں شہزادوں کی طرح گھوم رہے ہیں لیکن ان کے سرکل کیوں الگ ہیں؟
بائیں طرف والے دوست نے کہا کہ آپ اس پہیلی کو نہیں بوجھ سکیں گے۔۔۔ اْس نے پوچھا۔“بلوچ طالب علم جس شان سے نظر آتے ہیں اْس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ تعلیم میں بھی بہت آگے ہیں۔“اس پر وہی دوست ایکبار پھر قہقہے لگانے لگا۔۔۔اس نے غصے سے اْس کی طرف دیکھا کہ یونیورسٹی میں یوں جاہلوں کی طرح ہنسنا ٹھیک نہیں۔تو دوست بولا۔“اس یونیورسٹی میں تعلیم کے سوا سب کچھ ہوتا ہے۔”
“سب کچھ،کیا مطلب؟”
دوسرا بولا۔“تعلیم ہی تو سب کچھ نہیں۔چونکہ شال میں تفریح کی جگہیں نہیں ہیں۔اس لئے لوگ یہاں تفریح کیلئے آتے ہیں۔اس مقصد کیلئے اس سے بہتر اور کوئی جگہ نہیں۔”
جب اْس نے جابجا اپنی تصویریں دیکھیں تو پوچھا” اگر تعلیم نہیں ہے تو یہ لوگ مجھے اتنے عرصہ کے بعد کیوں یاد کرتے ہیں؟ میری تصویریں کیوں آویزاں کرتے ہیں؟”
ایک دوست نے کہا کہ ان کو آپ سے بہت محبت ہے۔یہ آپ کی فکر اور دانش کے دلدادہ ہیں۔۔۔
“لیکن۔۔۔“وہ اپنی بات مکمل نہیں کرسکا۔
ایک دوست اس کی بات کو سمجھ گیا۔“آپ اپنی شاعری کی بات تو نہیں کررہے۔۔۔”
“ہاں۔۔۔“وہ بول پڑا۔۔۔“اصل میں آپ کی شاعری کو یہاں سمجھنے والے کم ہیں۔لیکن آپ کی شاعری کا بڑا شہرہ ہے۔آپ پر پیپرز پڑھے جاتے ہیں۔آپ سے متعلق یونیورسٹی میں ایک چیپٹر بھی قائم ہوچکا ہے۔وہ آپ کی زندگی اور آپ کے افکار پر کام کریں گے۔”
“مگر کیوں؟ اس کی کیا ضرورت ہے؟ ”
“ایک تو آپ پر تحقیق ہوگی۔دوسرا کچھ لوگوں کو روزگار بھی ملے گا۔ہمارے لوگ آج کل بہت بے روزگار ہیں۔پھر کچھ لوگ آپ کا نام لے کر سرکار سے قریب ہوسکتے ہیں۔اور آپ پر کام کرکے ایم فِل اور پی ایچ ڈی بھی کر سکتے ہیں۔”
“لیکن میرے افکار کا سرکارسے کیا تعلق ہے؟ انہی کی وجہ سے تو میں ہر دور میں معتوب ٹھہرا یاگیا ہوں۔”
دوست بولا۔“آپ سے پہلے کہ دیا کہ آپ کے زمانے کی ڈکشنری تبدیل ہوچکی ہے۔۔”
وہ خوش تھا۔اْس نے پوچھا۔“اب بلوچ بھی ایم فِل او رپی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کررہے ہیں؟”
“آپ کو سْن کر خوشی ہوگی کہ اب ان کی تعداد بہت زیادہ ہے،ہر کوئی یہ ڈگری حاصل کرسکتا ہے۔اب تو ایم فِل اور پی ایچ ڈی سکالرز کی تعداد طلبہ سے زیادہ ہورہی ہے۔”
وہ اور خوش ہوا کہ اچھا ہمارے لوگ بہت پڑھ رہے ہونگے۔بائیں طرف کا دوست بولا۔“پی ایچ ڈی کیلئے پڑھنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔”
وہ مزید حیران ہوا کہ کیا پڑھے بغیر یہ اعلیٰ ترین ڈگری مل سکتی ہے؟
“یہی تو کمال کی بات ہے۔پی ایچ ڈی کا آجکل پڑھنے لکھنے سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔بس چند کلاسیں۔۔۔ایک آدھ امتحان۔۔۔۔سال بھر میں تھیسز۔۔۔۔رہے نام اللہ کا۔”
“یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ “اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہاتھا۔۔۔
“جی ہاں! یہ ایسے ہی ہوسکتا ہے۔جیسے کہ ہورہا ہے۔”
“لیکن کلاسیں تو ہوتی ہیں۔وہاں کچھ نہ کچھ پڑھایا جاتا تو ہوگا۔میرا دل کرتا ہے کہ میں بھی جاکر پڑھاؤں۔”
“لیکن آپ نہیں پڑھا سکتے!!”
وہ غصے میں آیا۔“میں کیوں نہیں پڑھا سکتا؟ ”
اس کے دوست نے سوال داغا کہ کیا آپ بلوچی میں ایم اے ہیں؟ اْس نے جواب دیا۔“نہیں۔”
“تو پھر آپ نہیں پڑھا سکتے“اْس نے کہا” میں ملازمت کی غرض سے بات نہیں کررہا۔”
“جی ہاں! ہم بھی جانتے ہیں“اس کے دوسرے دوست نے کہا۔“لیکن پڑھانے کیلئے آپ کے پاس ایم اے،ایم فِل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری ہونی چاہیئے۔اِ س کے بغیر نہیں۔”
“لیکن میں نے تو سْنا ہے کہ میرا کلام نصاب میں شامل ہے۔”
دوسرے دوست نے قہقہہ لگا کر کہا۔“اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟اصل بات یہ ہے کہ کیا آپ کے پاس ڈگری ہے؟ یہاں عالم فاضل وہی ہے جس کے پاس ڈگری ہو۔کتابیں لکھنے سے آدمی عالم فاضل نہیں بنتا۔۔۔”
“تو پھر۔“اْس نے غصے سے پوچھا“انہوں نے میری تصویریں کیوں آویزاں کی ہیں؟میرے دن کیوں منائے جارہے ہیں؟”
“سادہ سی بات ہے۔“دائیں طرف والا دوست بولنے لگا۔“اصل میں سرکار نے 2014ء کا سال آپ کے نام کر رکھا ہے۔”
“لیکن مجھے یہ سب پسند نہیں۔یہ کیا بات ہوئی لوگ پڑھے بغیر مجھ پر تحقیق کریں۔اور ڈاکٹر بنیں۔”
دوسرے دوست نے سرگوشی سے کہا( کہیں ان کی بات کوئی سن لے)”آپ سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔اگر آپ نے کوئی ایسی ویسی بات کہہ دی۔تو آپ کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔سارے دانش ور آپ کے پیچھے پڑ جائیں گے۔”
“مگر کیوں۔۔۔۔؟یہاں پر تنقید اور سوالات اْٹھانے کی کوئی روایت ہی نہیں!!”
“کیا یونیورسٹی میں سوالات اٹھائے نہیں جاتے؟”
پھر وہی دوست ہنسنے لگا۔۔۔۔کہا۔۔۔۔“سب کو اپنے تعلقات عزیز ہیں۔طالبعلموں نے سوال کیا تو وہ امتحان میں فیل ہونگے،اگر کسی سکالر نے ایسی جرات کی تو وہ مرجائیگا۔لیکن زندگی بھر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل نہیں کر سکے گا۔”
یہ سن کر اْس نے کہا کہ میرا دم گھْٹ رہا ہے،مجھے یہاں سے جلدی نکالو۔دوست اس کو وہاں سے لے کر سریاب روڈ پر لے آئے۔بڑی چہل پہل ہورہی تھی۔گاڑیاں اتنی زیادہ کہ ان کے دھوئیں سے وہ کھانسنے لگا۔یہاں وہاں دیکھا تاکہ پانی پی سکے۔لیکن ساری دکانیں تو اجنبیوں کی تھیں۔انہی کی،جو سرحد پار سے آئے تھے۔
“اْس نے کہا کہ ہمارے لوگ کہاں ہیں؟ وہ نظر کیوں نہیں آتے؟”
ایک دوست نے کہا ” شاید چند ایک لوگ مل جائیں گے۔لیکن اگلے چند سالوں میں یہ بھی نظر نہیں آئیں گے۔۔۔”
“کیوں؟”
دوست نے کہا۔“اس کیوں کا کوئی جواب نہیں۔”
“لیکن۔۔۔۔“وہ کہنے لگا۔۔۔“ہم نے 73ء کے اسمبلی میں بھی اس کی مخالفت کی تھی۔عبدالصمد خان اچکزئی کہتے تھے،یہ پاوندے ہیں،ان کو آنے ،رہنے کا یہاں حق ملنا چاہیئے۔لیکن میں نے نواب مری اور سردار مینگل نے اس وقت بھی اْس کی سختی سے مخالفت کی تھی۔جس پر ایک مرتبہ اچکزئی نے مجھے سرداروں کے ایجنٹ ہونے کا طعنہ بھی دیا تھا۔”
“لیکن یہ تو گئے دنوں کی بات ہے۔۔۔اب تو ،خاص طور پر افغان جنگ کے بعد لاکھوں لوگ یہاں آگئے ہیں۔اب تو وہ انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔بہت طاقتور لوگ ہیں۔ان کے پاس پیسہ بھی بہت ہے۔کوئی ان کی مخالفت کی سوچ بھی نہیں سکتا۔”
“لیکن ہم نے تو اپنے زمانے میں اس کی بھی مخالفت کی تھی۔۔۔”
دوست نے کہا۔“آپ کی کسی نے سْنی تھی؟۔۔۔اب تو ہمارے اپنے بلوچ ان کے سب سے بڑے غم خوار ہیں۔”
دوسرے دوست نے کہا۔“ایک دلچسپ بات بتاؤں؟”
“بتاؤ!”
“سریاب کے علاقہ سے حالیہ عام انتخابات میں اچکزئی کی جماعت کے ایک رہنما منتخب ہوگئے ہیں۔”
“کیا کہہ رہے ہو۔۔ایسے کیسے ہوسکتا ہے؟”
دوسرے دوست نے کندھا اْچکا کر کہا کہ یہ بلوچستان ہے۔یہاں سب کچھ ہوسکتا ہے۔آپ کو تو ہم نے اس سے زیادہ مزے داربات بھی نہیں بتائی
“وہ کیا؟“۔۔۔اب اس کی پیشانی پر تفکرات بڑھتے ہی جارہے تھے۔
“کوئٹہ چاغی کی قومی اسمبلی کی نشست پر بھی یہی لوگ کامیاب ہوئے ہیں۔یعنی آپ کے آبائی علاقے سے”
“کیا؟۔۔۔کیا تمھارا دماغ چل گیا ہے۔”
“نہیں۔۔۔“دوست نے کہا کہ میرا دماغ ٹھیک ہے۔میں تو وہی بتا رہاہوں جو حقیقت ہے۔
“تو بلوچ اور سیاسی جماعتیں کیا کررہی ہیں۔کیا وہ خواب خرگوش میں ہیں؟”
“اجی بلوچوں کی بات کیا کرتے ہیں۔انہوں نے سب کچھ قبول کرلیا ہے۔بلکہ بلوچستان کی حکومت بھی انہی لوگوں کے ساتھ مل کر بنائی گئی ہے۔شاید یہ غلط نہ ہو کہ بلوچستان حکومت انہی کی بیساکھیوں پر قائم ہے۔اور آپ کو شاید یہ معلوم نہ ہو کہ آپ سے متعلق جو انٹر نیشنل کانفرنس حال ہی میں منعقد ہوئی ہے۔اس کا افتتاح بھی آپ کے دیرینہ دوست کے صاحبزادے نے کی”
وہ خاموش رہا۔۔۔کافی دیر تک کچھ نہ بولا۔
پھر کہا کہ مجھے جناح روڈ لے جاؤ۔۔۔میں وہاں جاکر اسی پْرانے ریستوران میں چائے پینا چاہتا ہوں۔جہاں میں اور میرے دوست آتے۔گھنٹوں سیاسی بحثیں کرتے تھے۔
دوست اْس کو وہاں لے گئے۔۔۔لیکن وہ ان پر غصہ ہوگیا کہ یہ تم کہاں لے آئے؟ یہ تو وہ جگہ نہیں۔یہاں تو ریستوران ہیں ہی نہیں۔اور یہ تو اتنا گندہ اور آلودہ ہے کہ واقعتاََ میرا دم گْھٹنے لگا ہے۔یہاں پر تو ہر جگہ میڈیکل سٹور نظر آتے ہیں۔بیٹھنے اور چائے پینے کو تو کوئی جگہ ہی نہیں۔
ایک دوست نے تنگ آکر کہا کہ ہم لوگ آپ کو کیا کیا وضاحتیں کرتے رہیں۔۔۔لوگوں کو ریستورانوں کی نہیں۔۔۔۔ہسپتالوں اور میڈیکل سٹورز کی ضرورت ہے۔اس لئے کہ شہر کا ہر شخص بیمار ہے۔کسی کو فرسٹریشن ہے۔کوئی نفسیاتی امراض میں مبتلا ہے۔
“یہ ساری بلائیں اور بیماریاں کہاں سے آگئیں؟“پھر اپنے دوست کو ڈانٹتے ہوئے بولا۔۔۔“اب یہ نہ کہنا کہ یہ بھی سرحد پار سے آئی ہیں“۔
پھر وہ گزرتے گزرتے بلوچی اکیڈمی کی عمارت کے سامنے پہنچ گئے۔ایک دوست نے اْس کو خوش کرنے رکھنے کیلئے کہا۔دیکھیں کتنی ترقی ہوئی ہے۔آپ کے زمانے میں ادیبوں کے لیئے ایسی شاندار عمارت کہاں تھی؟
اْس نے پوچھا۔۔۔اس عمارت میں کیا ہوتا ہے؟
” یہاں مہمان ادیب آتے ہیں۔رہتے ہیں۔ملتے ہیں۔گھومتے ہیں۔لیکن ادب۔۔۔۔؟ اْس کے بدلے میں سالانہ ان ادبی اداروں کو فی کس ایک کروڑ روپے گرانٹ ملتی ہے۔”
“ایک کروڑ روپے۔۔۔۔“وہ حیرت کے سمندر وں میں ڈوبتا چلا گیا۔دوست نے کہا کہ ان کا احسان ماننا چاہیئے۔انہوں نے آپ کی دیدہ زیب کلیات چھاپی ہے۔وہی کلام جسے آپ کبھی چھاپنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔۔۔
“گویا! اب میں ان کا احسان مند ہوں”
“جی ہاں۔۔۔اگر آپ ان کے احسان کو نہیں مانیں گے تو لوگ آپ کو منفی سوچ کا حامل بتائیں گے۔۔۔وہ آپ پر طرح طرح کے الزامات لگائیں گے“۔
“لیکن مجھے بولنے اور بات کرنے کا حق تو حاصل ہے“۔
پھر وہی دوست قہقہے لگانے لگا۔“جناب بات کرنا،لکھنا،اپنے خیالات کو بیان کرنا اب ایک جرم بن چکا ہے۔”
“جرم۔۔۔کیسا جرم؟”
“آپ کو شاید پتہ نہیں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بھی کہا ہے کہ انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے۔لیکن ڈر کی وجہ سے اسے چھاپ نہیں سکتے۔”
“وہ کیوں ڈرتے ہیں؟”
دوست نے کندھا اْچکا کر کہا” مجھے نہیں معلوم ،یہ تو ڈاکٹر مالک کو ہی معلوم ہوگا۔”
“لیکن ہمارے زمانے میں تو ایسا نہیں تھا۔ہاں قید میں ڈالتے تھے۔اذیت بھی دیتے تھے۔”
دوست نے کہا کہ اب ایسا نہیں،قید کرنیکی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
“کیوں؟ کیا سرکار بہت فراخ دل اور روشن خیال ہوگئی؟”
“جی ہاں۔۔۔ایسا ہی ہے۔۔۔اب لکھنے اور بولنے والوں کو گمنام گولیاں ہی خاموش کراتی ہیں۔”
“کیا مطلب؟”
“آپ کو شاید معلوم نہیں۔۔۔جس روز آپ کے حوالے سے انٹرنیشنل کانفرنس سیرینا ہوٹل میں ہورہی تھی۔اسی روز گوادر میں ایک سکول کے بلوچ پرنسپل کو گولی مار کر ختم کر دیا گیا۔”
“مگر کیوں۔۔۔اس نے کیا جرم کیا تھا؟”
“تعلیم دینے سے بڑا جرم کوئی اور ہوسکتا ہے؟ خضدار میں چند سال قبل کالج کے ایک لیکچرر عبدالرزاق زہری کو صرف اس لئے قتل کیا گیا کہ وہ بچّوں کو انگریزی پڑھانے کی خاطر ایک سینٹر چلا رہا تھا۔”
وہ غصے میں آیا۔اور اپنے دوست کو ڈانٹا۔“تم مجھے غلط معلومات فراہم کررہے ہو۔۔۔میں نے آج تک نہیں سْنا کہ تعلیم دینے یا انگریزی پڑھانے پر کسی کو قتل کیا گیا ہو۔”
“آپ خفا ہوتے ہیں تو آپ کو بتاتا ہوں کہ بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسر صباء دشتیاری کو بھی چند سال پہلے قتل کردیا گیا۔”
“کیا۔۔۔۔؟“وہ چیخ پڑنے والا ہی تھا۔
“جی ہاں۔۔۔اْس کے خیالات سے طاقتور لوگ خوش نہیں تھے۔”
“یہ طاقتور لوگ کون ہیں؟”
دوست نے کہا کہ میں ان کا نام نہیں لینا چاہتا۔۔۔کیونکہ مجھے اپنی جان بھی عزیز ہے۔
“لیکن۔۔۔۔”
“چند سال قبل بلوچوں کے نوجوان ہونہار ادیب حنیف شریف کو بھی اغوا کیا گیا،اور اذیتیں دے کر انہیں چھوڑ دیا گیا۔”
“کیا۔۔۔۔۔”
“اور ہاں آپ کے دوست شاعر مبارک قاضی کے بیٹے کو حال ہی میں شہید کیا گیا۔۔۔۔”
“میں یہ کیا سْن رہا ہوں؟”
“اور ہاں۔۔۔آپ کو شاید معلوم نہ ہو۔۔۔آپ کی شاعری کو گانے والے بہت سے گلوکاروں کو بھی مار دیا گیا۔”
“یہ تو میں نے بڑا ظلم کیا!”
“آپ نے کونسا ظلم کیا۔۔۔“دوست نے حیرانگی سے پوچھا۔
“میں شاعری نہیں کرتا۔۔۔تو لوگوں کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔مجھے اب بہت افسوس ہورہا ہے۔۔۔مجھے ایسا کچھ نہیں کرنا چاہیئے تھا۔۔۔خاص طور پر شاعری۔۔۔۔”
دوست نے کہا۔“شاعری نہ بھی کرتے۔۔۔تو آپ کی تاریخ کی کتابیں اور تراجم۔۔۔۔”
“کیوں کیا ہوا؟”
“جن جن تعلیمی اداروں اور لائبریریوں میں ایسی کتابیں بھی موجود تھیں۔وہاں چھاپے مار کر طلبہ کو گرفتار کیا گیا۔”
“مگر کیوں؟”
“وہ اسے قابل اعتراض لٹریچر قرار دیتے ہیں۔”
“غضب خدا کا۔۔۔مجھے تو جرم کا احساس ہونے لگا ہے۔آخر مجھے یہ سب کچھ کرنے کی کیاضرورت تھی۔میں کوئی اور کام بھی تو کرسکتا تھا۔”
دائیں طرف والے دوست نے کہا کہ یہ تو آپ کو اْسی وقت سوچنا تھا۔اب کچھ نہیں ہوسکتا۔
“میرا خیال تھا کہ میں تو اچھا کام کررہا ہوں۔اپنے بچوں کو ان کی تاریخ سے واقف کررہا ہوں۔انہیں انگریزوں کی کارستانیوں سے آگاہ کررہا ہوں۔”
پھر تینوں دوست خاموش ہوگئے اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے پریس کلب کی مرعوب کرنے والی عمارت کے سامنے پہنچ گئے۔یہاں ایک دوست سے رہا نہیں گیا۔اْس نے کہا کہ یہ صحافیوں کا کلب ہے۔۔۔کیا؟ اب پھر وہ حیران ہورہا تھا۔
“لیکن صحافیوں کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آگئے؟”
” سرکار نے دئیے!”
“لیکن ہمارے زمانے میں صحافی تو جیلوں میں ہوتے تھے۔ان کے پریس،اخبارات ضبط کرلئے جاتے تھے۔ہمارے پاس اتنا پیسہ بھی نہ ہوتا کہ اگلے پرچے کو چھاپ سکیں۔”
دائیں طرف والا دوست پھر بول پڑا۔“ایک تو بار بار آپ اپنے زمانے کی بات کرتے ہیں۔”
“تو۔۔۔۔”
“اصل میں سرکار صحافیوں پر بڑی مہربان ہوئی ہے۔”
“صحافیوں پر مہربان۔۔۔۔؟”
“جی ہاں۔۔۔بلوچستان اس حوالے سے بھی منفرد ہے کہ یہاں ہر دور میں صحافیوں اور حکومت وقت کے تعلقات بڑے اچھے ہوتے ہیں۔بلکہ حکومت اس بات کو چھپاتی بھی نہیں۔اس کا میڈیا میں برملا اظہار کیا جاتا ہے۔”
“کیا ایسی باتوں سے کسی کو شرم نہیں آتی۔۔۔مجھے تو گھِن آنے لگی ہے۔۔۔۔ہم کیوں صحافی بنے؟”
“اب تو صحافیوں کا ایک خاص طبقہ بھی موجود ہے۔جن کے پاس گاڑیوں،بنگلوں اور بینک بیلنس کی کوئی کمی نہیں۔”
“صحافی اور دولت مندی؟”
“جی ہاں! صحافت انڈسٹری بن چکی ہے۔اب یہ نہ کہنا کہ بکاؤ مال بن چکی ہے۔ایسی باتیں کم از کم آپ کی زبان سے زیب نہیں دیتیں۔”
“اور ہاں ! آپ کو یہ بھی بتاؤں اس عظیم الشان کلب کاافتتاح امیر الملک مینگل نے گورنر کی حیثیت سے کیا تھا۔”
“کیا امیر الملک مینگل گورنر بنے ہیں؟”
“جی ہاں۔۔وہ بھی مارشل لا ء میں۔”
“کیا۔۔۔۔؟ میر اپہلے سے دم گْھٹ رہا تھا۔اب تو مجھ سے چلا بھی نہیں جارہا۔مجھے کہیں اور لے چلو۔”
“یہاں تو اب اس سے اچھی جگہ سیرینا ہوٹل ہے۔جہاں آپ اطمینان سے بیٹھ سکتے ہیں۔چائے پی سکتے ہیں۔آپ کے لئے جو انٹر نیشنل کانفرنس منعقد ہوئی ہے وہ بھی اسی ہوٹل میں منعقد ہوئی۔جس میں دنیا بھر سے لوگ آپ پر پیپر پڑھنے آئے تھے۔”
دوسرے دوست نے بتایا کہ آپ کو معلوم ہونا چاہئے۔وہ ذرا قیمتی ہے۔چائے کا جو کپ یہاں بیس یا تیس روپے میں ملتا ہے وہاں ایک سو یا دوسو روپے سے کم نہیں ہوگا۔”
تو اتنی مہنگی جگہ۔۔۔میری کانفرنس کیوں ہوئی۔کتنا خرچہ آیا ہوگا؟”
بائیں طرف کا دوست بولا۔“میں حساب کتاب میں درک نہیں رکھتا۔اگر کروڑوں نہیں تو لاکھوں روپے خرچ ہوئے ہونگے۔”
“کیا کہ رہے ہو؟۔۔اتنا خرچہ۔۔۔وہ بھی اس غریب معاشرے میں۔۔۔۔؟”
“جی امن و امان کا مسئلہ بھی تو ہے۔”
“لیکن تم لوگوں نے بتایا کہ موجودہ حکومت آنے کے بعد امن و امان کی صورت حال بہتر ہوگئی ہے۔”
“اصل میں کیا ہے کہ۔۔۔۔“دوسرا دوست ذرا محتاط انداز میں بولنے لگا۔“جہاں قبرستان آباد ہوتے ہیں وہاں خاموشی تو ہوتی ہے۔اسی خاموشی کو ہمارے ہاں امن و امان کی بہتری کا نام دیا جاتا ہے۔بلکہ حکام تو اس کا کریڈٹ بھی لیتے ہیں۔”
“لیکن یہ سب میرے نام پر کیوں ہورہا ہے؟”
“آپ سے حکومت وقت کو بہت محبت ہے۔بلکہ عشق ہے۔یہی وجہ ہے کہ بعض لکھنے والے آج کل حکومت کے قصیدے گارہے ہیں کہ بلوچستان میں آپ کے نام سے بہار آگئی ہے۔اور جو لوگ اس بہار پر تنقید کرتے ہیں۔وہ مایوس اور دل جلے لوگ ہیں۔یا پھر یوں کہیں کہ ان کو ہر اچھے کام میں کیڑے ڈالنے کی عادت ہے۔”
“لیکن مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی۔۔۔”
“آپ کو تو خوش ہونا چاہیئے کہ سرکار کہتی ہے کہ آپ کی فکر سے نوجوانوں کو روشناس کرا یا جارہاہے۔”
“لیکن میری فکر کیا ہے؟” وہ سوچنے لگا۔“کیا میں سوشلسٹ ہوں۔۔۔قوم پرست۔۔۔حریت پسند۔۔۔میں کیا ہوں ؟ مجھے خود معلوم نہیں۔”
“آپ بھی کمال کرتے ہیں کہ لوگوں کو تو معلوم ہے کہ آپ تو دراصل جمہوریت پسند تھے۔صوبائی خود مختاری آپ کا خواب تھا۔”
“لیکن یہ سب میں نے کب کہا؟”
“مسئلہ یہ ہے کہ خود آپ کو اپنی کہی ہوئی باتیں یاد نہیں آتیں! اس میں سرکار اور دانشوروں کا کیا قصور ہے؟”
“لیکن ہمارے زمانے میں جہوریت تو نہیں تھی۔ہوتی تو نیپ حکومت کا خاتمہ نہیں کیا جاتا۔”
“وہ کہتے ہیں کہ آپ کی جدوجہد کی برکت سے جمہوریت آئی ہے۔“یہ سن کر غصے سے اس کا چہرہ سرخ ہوگیا۔“ابھی تو تم لوگ کہہ رہے تھے کہ اساتذہ ،شعراء اور گلوکاروں پر بلوچستان کی زمین تنگ کردی گئی ہے۔”
“وہ بھی سچ ہے۔“دائیں طرف والا دوست بولا۔
“لیکن جمہوریت میں اظہار رائے کی آزادی ہوتی ہے۔”
“جی ہاں۔بالکل ہوتی ہے۔وہ اظہار رائے جو حکمرانوں،سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنوں کو پسند آئے۔”
“اگر میں ان ساری باتوں سے اختلاف کروں۔اور ان جھوٹی باتوں اور گمراہ کن جمہوریت کے خلاف لکھوں تو کیسا رہیگا؟”
“لیکن آپ ایسا نہیں کرسکتے۔“ایک دوست بولا۔
“کیوں۔۔۔کیوں؟”
“اس لئے کہ اگر آپ نے تعریف و توصیف سے کام نہیں لیا۔ایک بات بھی تلخ بات کہہ دی تو۔۔۔۔”
“تو کیا ہوگا۔۔۔یہ مجھے زندان میں ڈال دیں گے۔مار دیں گے۔۔۔بس۔۔۔”
“نہیں جناب۔اب ایک نیا طریقہ متعارف ہوا ہے۔”
“نیا طریقہ۔۔۔۔؟ وہ کیا؟”
“اول تو وہ آپ کے سچ پر انگلیاں اْٹھائینگے۔۔۔پھر وہ آپ کو یاد دلائیں گے کہ آپ نے بھی تو۔۔۔۔”
“کیا۔۔۔؟”
“رحیم الدین گورنر سے ملاقات کی تھی۔ضیاء مارشل لا کے حق میں بیان دیا تھا۔وہ اسی پر بس نہیں کرینگے۔۔۔۔”
“تو۔۔؟”
“آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے۔اس میں آپ کو گالیاں دینگے۔ایسی ایسی باتیں کہیں گے کہ آپ لکھنے سے توبہ کریں گے۔”
“یہ گالیاں کون دیتا ہے۔”
“سیاسی جماعتوں کے کارکن۔۔۔بلکہ اب ان کو کارندے کہنا زیادہ اچھا ہوگا۔وہ آپ کے گھر پر حملہ بھی کرسکتے ہیں،آپ کے خلاف لشکر کشی بھی کرسکتے ہیں۔تنقید کی کوئی گنجائش نہیں۔”
“تو ان کو کس نے حق دیا ہے کہ وہ میرے دن منائیں؟”
“آپ عوام کی پراپرٹی ہیں۔یہ حق تو آپ ان سے نہیں چھین سکتے۔پھر حکومت کے پاس آپ کے نام اور دن منانے کے سوا کوئی اور کریڈٹ بھی نہیں۔پھر وہ سارے لکھنے والے جو اس بہتی گنگا سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔وہ حکومت کی تعریف کیلئے نئے نکتے کہاں سے لے آئیں گے۔”
“اچھا یہ بتاؤ کہ ہم نے جو صبر آزما اور طویل جدو جہد کی۔اس کا کیا نتیجہ نکلا؟”
“یہ تو آپ کو اخبارات پڑھ کر اندازہ ہونا چاہیئے۔لاپتہ بلوچوں کے لواحقین سالوں سے احتجاج کررہے ہیں۔سیاسی رہنما اور کارکن مارے جارہے ہیں۔پیپلز پارٹی کی مفاہمتی جمہوریت میں ان کی مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔”
“اف خدا! کیا ہماری جدوجہد کا یہ نتیجہ نکلا ؟”
“جی نہیں۔ایک مثبت نتیجہ بھی نکلا ہے۔”
“پہلے اسلام آباد نیشنلزم اور خاص طور پر بلوچ نیشنلزم کو پسند نہیں کرتا تھا۔اب اس نے خود ہی بلوچستان میں بلوچ قوم پرستوں کی حکومت بنائی۔اسلام آباد اور بلوچ قوم پرست (نئی اصطلاح میں) ایک صفحے پر آگئے ہیں۔اور وہ بھی متوسط طبقہ کے بلوچ قوم پرست!”
“متوسط طبقہ۔۔۔یہ کیا ہوتا ہے؟”
“یہ بھی کچھ ہوتا ہے۔۔۔اسے جانے دیجئے۔”
“لیکن اسلام آباد قوم پرستوں پر اتنا مہربان کیوں ہے؟”
دوست بولا۔“تاکہ وہ ناراض بلوچوں سے بات چیت کرسکیں۔”
“ناراض بلوچ؟۔۔۔یہ ناراض بلوچ کون ہیں؟ ان سے متعلق تو میں نے پہلی بار سنا ہے۔بلوچ کس سے ناراض ہیں؟ کس بات پر ناراض ہیں؟ پھر ناراض لوگوں سے کون بات چیت کرتا ہے؟ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔”
“ناراض بلوچ وہ ہیں جنہوں نے اسلحہ اٹھا یا ہے یا مزاحمت پر یقین رکھتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ موجودہ پارلیمانی جمہوریت سے بلوچوں کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔”
“لیکن یہ ناراضگی والی بات سمجھ میں نہیں آرہی۔”
“آپ بھی کمال کرتے ہیں۔یہ نیا زمانہ ہے۔میڈیا کا دور ہے۔اس کی مرضی جیسی اصطلاح رائج کرے۔خواہ اس اصطلاح کا سر و پیر بھی نہ ہو۔”
“ایک اور بات بتاؤں۔لیکن آپ کو رنجیدہ خاطر نہیں ہونا چاہیئے۔“اس سے پہلے وہ کوئی بات کرتا۔دوست کہنے لگا کہ آپ کے سیاسی رفیق ،کسی زمانے میں سیاسی مخالف نواب اکبر خان بگٹی کو بھی شہید کردیا گیا ہے۔
“کیا۔۔۔؟ “اس سے آگے وہ کچھ نہیں بول سکا۔کافی توقف کے بعد بولا۔“انہیں کیوں شہید کیا گیا؟”
دوست بولا۔“سرکار انہیں باغی سمجھتا تھا۔انہیں 79سال کی عمر میں پہاڑوں میں شہید کیا گیا۔”
پہلے وہ گہری سوچ میں غرق رہا۔پھر بولا۔“شاید میں اور میرے دوست اس کو سمجھ نہیں سکے۔ہم سے کتنی بڑی غلطی ہوئی۔”
“اور ہاں۔نواب خیر بخش مری بھی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔وہ آخر دم تک اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔سرکار اور سرکاری لوگوں سے ملنے کو وہ گناہ سمجھتے تھے۔”
“ہاں۔وہ ضدی شخص تھا۔لیکن ہم میں سب سے پڑھا لکھا اور پیارا شخص بھی وہی تھا۔اورسردار عطاء اللہ مینگل۔۔۔؟”
دوسرے دوست نے بتایا کہ وہ الحمداللہ بقید حیات ہیں۔نواب بگٹی کی شہادت اور نواب مری کی رحلت کے بعد خاموشی اور گوشہ نشینی کے دن گزار رہے ہیں۔
اب وہ بہت اداس اور مغموم تھا۔اْس نے کہا کہ ہمیں یہاں سے چلناچاہیئے۔چلتے چلتے وہ زرغون روڈ پر پہنچے۔وہاں بڑے بڑے پینا فلیکس اور ان پر بنی تصویروں کو دیکھ کر پھر حیرت میں اضافہ ہوا۔پوچھنے لگا کہ اوپر کی تصویر تو میرغوث بخش بزنجو کی ہے۔ان کے ساتھ دیگر تصویریں کن کی ہیں؟
دائیں طرف والے دوست نے بتایا کہ ایک وزیر اعلیٰ کی ،دوسرے وزیر اعلیٰ کی جماعت کے صدر کی ہے۔
“لیکن میر غوث بخش بزنجو کا ان سے اور ان کا میر بزنجو سے کیا تعلق ہے؟”
بائیں طرف والے دوست نے کہا۔“آپ پھر مشکل سوال پوچھ رہے ہیں۔”
“اچھا! یہ بتاؤ بلوچوں پر یہ نئی اْفتاد کب اور کیوں آئی؟”
“یہ اْس وقت کی بات ہے جب امیر الملک مینگل گورنر تھے۔”
“کون۔۔۔؟ امیر الملک مینگل۔۔۔”
“جی ہاں ! امیر الملک مینگل۔”
وہ بولا” اب میں مزید یہاں نہیں رہ سکتا۔مجھے یہاں سے جتنی جلدی ہو۔۔۔چلے جانا چاہیئے۔۔۔وہاں جہاں سے میں آیا تھا۔”
پھر وہ اپنے دوستوں کو لیکر پیدل ہی تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا چلتن کی طرف چل پڑا۔ہوا میں خنکی تھی۔شام ہونے والی تھی۔وہ تینوں دوست ،انجانے مسافر چلتے چلے گئے۔یہاں تک دور سے وہ نقطے معلوم ہونے لگے۔چلتن پہنچنے کے بعد وہ کہاں چلے گئے۔۔۔کسی کو پتہ نہیں۔۔۔
5 Comments