ایرانی پارلیمنٹ نے ( پچھلے سال) بچوں کے حقوق کے تحفظ کا ایک بل پاس کیا ہے، جس میں شامل ایک شق کسی شخص کو یہ اجازت دیتی ہے کہ وہ اپنی لے پالک بیٹی کے ساتھ شادی کرسکتا ہے، جبکہ اس کی عمر محض 13 برس کی ہو۔انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس بل کو خطرے کی گھنٹی قرار دیا ہے، جس کے نفاذ کی منظوری ایرانی پارلیمنٹ سے حاصل ہوگئی ہے۔ اس سے کسی گھرانے کے سرپرست کو اپنی لے پالک بیٹی سے شادی کا راستہ کھل سکتا ہے، اگر عدالت یہ حکم دے کہ ایسا کرنا اس بچی کے مفاد میں ہے۔
ایران کے آئینی نگراں گروپ یا سرپرست کونسل جو مذہبی علماء اور مذہبی فقہ کے ماہرین پر مشتمل ہے، کے سامنے تمام پارلیمانی بلز آئین اور اسلامی قوانین کا حصہ بنانے سے قبل پیش کیے جاتے ہیں، اور اس کونسل نے ابھی تک اس متنازعہ قانون سازی پر اپنا فیصلہ نہیں دیا ہے۔انسانی حقوق کی جدوجہد کرنے والے افراد کے لیے یہ مایوسی کا باعث ہے کہ اسلامک جمہوریہ ایران میں لڑکیوں کی تیرہ برس کی عمر میں اس کے والد کی اجازت سے شادی ہوسکتی ہے، جبکہ لڑکے پندرہ برس کی عمر میں شادی کرسکتے ہیں۔ایران میں تیرہ برس سے بھی کم عمر لڑکی کے ساتھ شادی کی جاسکتی ہے، لیکن اس کے لیے ایک جج کی اجازت ضروری ہے۔ تاہم اب تک سوتیلی اولاد کے ساتھ شادی کسی بھی صورت میں حرام ہے۔
ایران کی ایک نیوز ویب سائٹ تابناک کے مطابق ایک اندازے کے مطابق بیالیس ہزار بچے جن کی عمریں زیادہ سے زیادہ دس سے چودہ برس کے درمیان ہوں گی، ان کی شادیاں 2010ء میں ہوگئی تھیں۔ دس سال سے کم عمروں کے کم ازکم پچھتر بچوں کی صرف تہران میں شادیا ں کی گئیں۔
ایران میں انصاف کے لیے لندن میں قائم ایک گروپ سے وابستہ اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرام ایک وکیل شادی صدر نے برطانوی روزنامہ گارڈین کو بتایا کہ انہیں خوف ہے کہ ایرانی سرپرست کونسل اس بل کی منظوری دے دے گی، اس لیے کہ ایران کے اعتدال پسند صدر حسن روحانی نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے اپنے نیویارک کے دورے میں عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کرلی ہے۔انہوں نے خبردار کیا کہ یہ بل بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کو قانون کا حصہ بنادے گا، لے پالک بچوں کے ساتھ شادی کرنا ایران کی ثقافت کا حصہ نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ کم عمر بچوں کے ساتھ جنسی تعلقات کی بے ہودہ روایت دنیا بھر کے دیگر ممالک سے ہی یہاں آئی ہوں گی۔ لیکن یہ بل بچوں کے ساتھ جنسی تعلق کو قانون کا حصہ بنا کر ہمارے بچوں کی معصومیت کو خطرے میں ڈال دے گا، اور یہ جرم ہمارے ملک کی ثقافت کا حصہ بن جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کسی کو اس کے گود لیے ہوئے بچوں کے ساتھ شادی کی اجازت نہیں دینا چاہیے، اس کو یہیں روک دینا چاہیے۔ اگر ایک باپ اپنی لے پالک بیٹی جو کہ ابھی بہت چھوٹی ہے، کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتا ہے، تو یہ ریپ کہلائے گا۔شادی صدر کے مطابق ایرانی حکام اس طرز کی شادی کو رواج دے کر جنسی اباجیت کو فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔شادی صدر نے سوال کیا کہ کیا ایک لے پالک بیٹی سے توقع کی جائے گی کہ وہ اپنے والد کے سامنے حجاب پہنے اور ایک والدہ سے کہ وہ اپنے لے پالک بیٹے کے سامنے حجاب پہنے، چاہے وہ کتنا ہی کم عمر کیوں نہ ہو؟
انہوں نے کہا کہ اس بل کی صورت میں کیا آپ اپنی بچوں کے ساتھ جنسی ہوس پوری کرنا چاہتے ہیں اور لے پالک بچوں کے بہانے سے اپنا شکار ڈھونڈ رہے ہیں۔کچھ ماہرین کو یقین ہے کہ یہ نیا بل اسلامی عقائد سے متضاد ہے اور سرپرست کونسل اسے منظور نہیں کرے گی۔اس بل کا ابتدائی مسودہ، جس میں لے پالک بچوں کے ساتھ شادی پر مکمل پابندی عائد کی گئی تھی، کو اس کونسل نے منظور نہیں کیا تھا، اور اسی خدشے کی بناء پر اراکین پارلیمنٹ نے شادی کی نئی شرائط متعارف کرائیں تاکہ مذہبی علما اور فقہا مطمئن ہوسکیں۔ اور یہی وہ وجہ ہے کہ جس کی وجہ سے شادی صدر کو خوف ہے کہ سرپرست کونسل اس مرتبہ یہ بل منظور کرلے گی۔
یہ بل ایران میں ایک شدید ردّعمل پیدا کرچکا ہے، ایک اصلاح پسند اخبار شارغ نے اس سلسلے میں ایک انتباہی مضمون شائع کیا ہے، جس میں سوال کیا گیا ہے کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک ہی وقت میں کوئی آپ کا سرپرست بھی ہو اور شوہر بھی؟
ایران میں حالیہ برسوں کے دوران نابالغ مجرموں کو پھانسی کی سزا کے واقعات بھی بہت زیادہ توجہ کا باعث بنی ہے، جب کہ کچھ کیسز میں قانونی طور پر انہیں بچے ہی تسلیم کیا گیا تھا، اور ایرانی قانون کے مطابق مجرم کو سزا دینے کے لیے ایران میں کم سے کم عمر لڑکوں کے لیے پندرہ اور لڑکیوں کے لیے نو سال ہے۔
بشکریہ: گارڈین
One Comment