افغانستان: جعلی جنگ اورجعلی امن

ڈاکٹر محمد تقی

Ghani-hotline

پچھلے کچھ دنوں سے کابل شہر کو دہشت گردی کی تازہ لہر کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس کا آغاز پہلے شاہ شہید کے ضلع سے ہوا جہاں جمعے کی صبح کو ایک ٹرک میں بم دھماکے ہوئے جس کا نشانہ افغان انٹیلی جنس کمپلیکس تھا جس میں پندرہ سویلین ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے جن میں زیادہ تر عورتیں اور بچے شامل ہیں۔اس حملے میں تقریباً ایک پورا بلاک تباہ ہو گیا۔جمعے کے دن ہی ایک خودکش حملہ آور نے پولیس اکیڈمی کے باہر اپنے آپ کو اڑا لیا جس میں 29 کیڈٹ ہلاک ہو گئے ۔ اسی دن تیسرا حملہ امریکی سپیشل فورسز کے ہیڈکوارٹر کے نزدیک کیا گیا جس میں ایک امریکی اور آٹھ افغان ہلاک ہوئے۔ سوموار کو حامد کرزئی انٹرنیشنل ائیر پورٹ کے باہر کار بم دھماکہ ہوا جس میں پانچ افرادد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔ یہ حملے حقانی نیٹ ورک کی جانب سے کیے گئے۔

افغان طالبان نے پاکستانی سرزمین پر اپنے نئے سربراہ مُلا محمد اختر منصور اور نائب امیر سراج الدین حقانی کا انتخاب کر لیا ہے ۔ افغان صدر اشرف غنی مسلسل پاکستان سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ افغان طالبان کو لگام ڈالے۔ انہوں نے ائیر پورٹ پر دہشت گردی کے حملے کے چند گھنٹے بعد پریس کانفرنس میں اس حملے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا ۔ڈاکٹر اشرف غنی جو حال ہی میں پاؤں کے آپریشن سے صحت یاب ہوئے ہیں اپنی پوری کابینہ کے ساتھ بیٹھے تھے ۔وہ تمام افغان زبانیں، دری، فارسی اور پشتو روانی سے بولتے ہیں انہوں نے بلا جھجک کہاکہ افغان قوم کا قتل کون کرا رہا ہے کون اس کا ذمہ دار ہے۔

ڈاکٹر اشرف غنی کی طرف سے پاکستان کی طالبان کے حوالے سے جاری پالیسی پر شدید تنقید سے ظاہر ہوتا ہے کہ پچھلے دس ماہ سے انہوں نے پاکستان کی سول ملٹری شپ سے جو دوستانہ تعلقات قائم کیے تھے وہ اب ختم ہورہے ہیں۔ ان کی گفتگو پراعتماد تھی لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں یہ احساس ہو چکا ہے کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہورہا ہے۔ افغان صدر نے کہا کہ پاکستان ابھی تک عسکریت پسندوں کے لیے زرخیز زمین ہے جہا ں سے مقدس جہاد کے لیے مسلسل لوگ تیارہور ہے ہیں۔ پچھلے دو ماہ خاص کر پچھلے ہفتے میں ہونے والے واقعات یہ بتاتے ہیں کہ ماضی میں پاکستان میں خودکش حملہ آوروں کے جو تربیتی کیمپ اور بم بنانے کی سہولیات تھیں وہ بدستور موجود ہیں جہاں سے معصوم افغانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔

ڈاکٹر اشرف غنی کی تقریر اور پریس کانفرنس یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ مُلا عمر کے نام پر جعلی جنگ لڑنے کے بعد اب جعلی امن کے لیے مری میں ہونے والے مذاکرات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈپلومیسی میں کوئی بھی اپنے سارے کارڈز مناسب وقت تک نہیں دکھاتالیکن ایک مرے ہوئے شخص کے نام پر مذاکرات اور امن کی گفتگو نہیں ہو سکتی۔ اعتماد کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ افغان درالحکومت پر مسلسل حملوں سے پاکستان کا امیج مزید خراب ہوا ہے جو اس نے امن کے پرچار کے لیے بنا رکھا ہے۔

پاکستانی لیڈر شپ کی یہ تکرار کے،افغان اپنے معاملات خود طے کریں گے اس وقت غلط ثابت ہوجاتی ہے کہ جب طالبان کے رہنماؤں کا سیاسی اور جسمانی طور پر جینا اور مرنا پاکستان کی سرزمین پرہوتا ہے۔ کچھ پاکستانی تجزیہ نگار اور اخبارات کے اداریے افغان صدر کی تقریر پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر اشرف غنی یہ باتیں افغان عوام کو مطمئن کرنے کے لیے کررہے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ دانشور اور تجزیہ کار افغانستان میں ہونے والی قتل وغارت کے ردعمل میں افغان غم و غصے کا درست اندازہ لگانے سے قاصر ہیں۔ڈاکٹر اشرف غنی کا غصہ شاید اس سے بھی زیادہ ہے۔ لہذا جب تک پاکستان کی افغان طالبان کو پناہ دینے کی پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آتی تو پھر اشرف غنی کا رویہ بھی تبدیل ہونے والا نہیں۔

افغان عوام، پارلیمنٹ اور دانشوروں نے ڈاکٹر اشرف غنی کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا ہے ۔ ملک کے چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے ایک علیحدہ انٹرویو میں اپنے صدر کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے رویے میں تبدیلی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان جن بونے جہادی گھوڑوں کی مدد کررہا ہے وہ سیاسی عمل میں فٹ ہی نہیں ہو سکتے ۔ وہ سیاسی عمل تو دور کی بات ابتدائی مشاورت کے قابل بھی نہیں چہ جائیکہ کہ وہ کسی بڑی فیصلہ سازی (جیسے جرگہ) کے عمل کا حصہ بن سکیں۔

Afghan security forces inspect a damaged car, which was used during a suicide bomb attack, outside the U.S. consulate in Herat province September 13, 2013. At least three people were killed when insurgents attacked the U.S. consulate in Herat on Friday, detonating a powerful truck bomb outside the front gates and launching a gunbattle with security forces, officials said. REUTERS/Mohammad Shoib (AFGHANISTAN - Tags: CIVIL UNREST MILITARY POLITICS TPX IMAGES OF THE DAY)

کابل میں تازہ حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان کی نئی قیادت بھی صرف اور صرف تشدد اور دہشت گردی پر ہی یقین رکھتی ہے ۔ اس کے علاوہ وہ کسی افغان حکومت اور افغان عوام کو متاثر کرنے کا ان کے پاس کوئی طریقہ نہیں ۔ طالبان اور ان کے سرپرستوں کو اس بات کا ادراک نہیں کہ ان حملوں کے کیا نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ افغان عوام ، دہشت زدہ ہونے کی بجائے ، میں غم و غصہ بڑھ رہا ہے ۔ افغانستان کے عوام اور بااثر حلقے افغان حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ ڈیورنڈ لائن پار کے طالبان کی پناہ گاہوں کا مسئلہ اقوام متحدہ میں اٹھایا جائے اور اس طرح کی سرگرم مضبوط بین الاقوامی ڈپلومیسی ہی اس مسئلے کو حل کرنے میں معاون ہو سکتی ہے۔

افغانستان اس مسئلے کا فوجی حل نہیں چاہتا اور نہ ہی وہ پراکسی وار کے ذریعے اس مسئلہ کاحل چاہتا ہے۔ فوجی حل سے وہ کچھ کامیابی تو حاصل کر لے لیکن دنیا بھر میں اپنی اخلاقی حمایت کھو بیٹھے گا۔ڈاکٹر اشرف غنی علاقائی اور عالمی طاقتوں کوساتھ ملا کر امن قائم کرنے کے لیے اپنا کیس تیار کر رہے ہیں۔ لہذا انہیں طالبان کی پناہ گاہوں کا معاملہ بھی علاقائی اور عالمی طاقتوں کے سامنے اٹھانا چاہیے۔ چین ، انڈیا ، ایران ، روس اوروسطی ایشیا کے ممالک کی کوئی خواہش نہیں کہ وہ طالبان کا ساتھ دے کر کابل کی جمہوری حکومت کو ختم کریں۔ پاکستان ڈپلومیٹک سطح پر حتیٰ کہ چین کو بھی ٹالنے کی پوزیشن میں نہیں۔امریکی حکام بھی خاص کر سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ بھی اس مسئلے پر خاموشی اختیار نہیں کر سکتے۔کابل حملوں پر امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ دونوں ممالک کے مفاد میں ہے کہ وہ طالبان کے محفوظ ٹھکانوں کا خاتمہ کریں اور سرحد کے دونوں طرف ان کے عمل دخل کو کم کریں‘‘۔

مُلا عمر کی پاکستان میں موجودگی اور پھراس کے انتقال پر لازمی طور پر بہت سے سوالات کھڑے ہو چکے ہیں اور امریکہ بھی یہ جانتا ہے۔امریکہ کو یہ معلوم ہو چکاہو گا کہ طالبان کا سربراہ جو درحقیقت مر چکا تھا مگر اس کے نام پر افغانستان میں جنگ جاری رکھی گئی، امریکی فورسز پر حملے ہوتے رہے۔سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ پاکستان کے ہاتھوں اس پالیسی کا پھل کھاتا رہا لیکن وہ افغان عوام کو ایساکرنے کے لیے نہیں کہے گا ۔ مری امن مذاکرات، جس میں امریکی بھی بیٹھے تھے، ناکارہ میزائل ثابت ہوا۔ مُلا عمر کا بھوت جنگ تو لڑ سکتا ہے مگر امن قائم نہیں کر سکتا۔

جعلی جنگ اور جعلی امن کے چکر کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان، امریکہ سمیت عالمی برادری کو باور کرائے کہ پاکستان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے ۔ آنے والے دنوں میں یہ ڈاکٹر اشرف غنی کے لیے بہت مشکلات ہیں لیکن ان کی تقریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ان مشکلات سے نمٹنے کے لیے نہ صرف تیار ہوچکے ہیں بلکہ انہوں نے اس پر عمل کرنے کا روڈ میپ بھی دے دیا ہے۔


بشکریہ :ڈیلی ٹائمز

Comments are closed.