ڈاکٹر ناظر محمود
حال ہی میں ایران کی جانب سے دو ایسی پیش رفت ہوئی ہیں جن کے اس خطے پر بہت مثبت اثرات پڑنے کی امید ہے۔ ان میں ایک تو ایران کی خاتون نائب صدر معصوبہ ابتکار کا دو ٹوک الفاظ میں یہ اعلان ہے کہ ایران قیام امن کے لیے حریف طاقتوں کے ساتھ مل کر بھی کام کرنے کو تیار ہے دوسرے یہ کہ ایران کے وزیر خارجہ جوادظریف نے چارماہ کے اندر دوسری بار پاکستان کا دورہ کیا ہے اور اب وہ 23 اگست کو بھارت میں اپنے ہم منصب سے ملاقات کریں گے۔
معصوبہ ابتکار نے برطانوی خبر رساں ادارے کو اپنے تازہ انٹرویو میں واضح طور پر کہا ہے کہ ان کا ملک پڑوسی ممالک پر اپنا اعتماد بحال کرنا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں تمام دہشت گرد گروہوں سے مقابلے کے لیے تعاون کرنے پر تیار ہے۔معصومہ ابتکار کو 2013میں دوسری بار ایران کا نائب صدر بنایا گیا تھا۔ اس سے قبل وہ سابق ایرانی صدر محمد خاتمی کے دور حکومت میں 1997سے 2005 تک تقریباً آٹھ سال ایران کی نائب صدر رہ چکی ہیں۔
ان کی اصل وجہ شہرت35سال قبل ان کا وہ قائدانہ کردار ہے جو انہوں نے بحیثیت طالب علم کے 1979 میں امریکی سفارت خانے پر قبضے کے دوران ادا کیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر صرف 19 سال تھی۔ انہوں نے طلبہ کے نمائندے کی حیثیت سے خاصی شہرت حاصل کی تھی۔وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں ۔ ان کے والد یونیورسٹی آف پنسلوا نیاکے فارغ التحصیل تھے اور خود معصومہ نے اپنی امریکی لہجے کی انگریزی امریکہ میں قیام کے دوران ہی سیکھی تھی۔پھرا یران واپس آکر علی شریعتی کے سیاسی اسلامی نظریات کی حامی بن گئی تھیں۔
ایران کی گذشتہ نصف صدی کی سیاست کو علی شریعتی کے نظریات کے بغیر سمجھنا خاصا مشکل ہے۔ 1970 کے عشرے میں جب معصوبہ ابتکار ایک طالب علم تھی ، علی شریعتی اس وقت تقریباً چالیس سال کے دانشور تھے۔ جن کا بنیادی کام مذہب اور سماجیات یا سوشیالوجی کے باہمی تعلق پر تھا۔مذہب کی سماجیات ایک ایسا شعبہ ہے جس میں لوگوں کے عقائد کے علاوہ مذہب کے تنظیمی ڈھانچے کو عمرانی علوم کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اس سلسلے میں علی شریعتی کو بیسیویں صدی کے ایران کا اہم ترین دانشور تسلیم کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے علی شریعتی جو ایران میں شاہ مخالف تحریک کے بڑے مفکر تھے صرف 43 سال کی عمر میں 1977 میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے مگر ان کے نظریات نے معصومہ ابتکار جیسے نوجوانوں کو بہت متاثر کیا جو آگے چل کر ایرانی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے والے تھے۔
آج کی ایرانی سیاست میں معصومہ ابتکار جیسے رہنماؤں کا کردار بہت اہم ہے کیونکہ مغربی طاقتوں کے ساتھ ایران کے حالیہ معاہدے پر ایران کے اندر اورباہر دو طرف سے تنقید کی جارہی ہے۔ خاص طور پر ایران کے حالیہ معاہدے پر ایران کے اندر قدامت پرست طبقے نے اسے قبول نہیں کیاہے پھر دیگر ممالک بھی شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ایسے میں معصومہ ابتکار نے بڑی عمدگی سے ایک معتدل اور قابل قبول موقف کا اظہار کیا ہے جس کی بنیادی بات یہ ہے کہ ایران گذشتہ ماہ ہونے والے جوہری معاہدے کے بعد مشرق وسطیٰ میں دیگر طاقتوں کے ساتھ مل کر امن و امان کا قیام چاہتا ہے۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بات بھی کہی کہ ایران اپنے دفاع کا حق رکھتا ہے لیکن وہ اس خطے پر غالب آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
دراصل ایران پر سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ وہ اس خطے میں بدامنی کو ہوا دے رہا ہے اور الزام کے پیچھے اسرائیل بھی شامل ہے اور خلیج کی دیگر عرب ریاستیں بھی پھر اس خطرے کی طرف بھی اشارہ کیا جاتا ہے کہ ایران شامی صدر بشار الاسد اور لبنانی شیعہ اسلامی گروپ حزب اللہ کی مدد کرنے کے علاوہ یمن کے باغی شیعہ حوثی تحریک کی بھی پشت پناہی کر تارہا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گذشتہ سال عراق میں دولت اسلامیہ کے خلاف بھی ایران نے شیعہ ملیشیا کو عراقی فوج کی مدد کے لیے تیار کیا ۔معصومہ ابتکار نے بڑی ہنرمندی سے ان تمام الزامات کو مسترد کیا اور ایرانی موقف کی وضاحت کرتے ہوئے ناقدین کے دعوے غلط ثابت ہوگئے اور ایران کی بدلتی ہوئی پالیسی کا ایک اظہار اس سے بھی ہوتاہے کہ بڑے عرصے بعد ایران میں مغربی خبر رساں اداروں کو رپورٹنگ کی اجازت دی گئی ہے۔
ابتکار نے دیگر جن باتوں پر زور دیا ان میں ثقافتی اور تجارتی سطح پر دنیا کے ساتھ کام کرنے کی خواہش کا اظہار تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے اسرائیل کے خلاف ایران کی پالیسی کا دفاع کیا اور کہاکہ ایران اسرائیل کے خلاف اپنا دفاع ضروری سمجھتا ہے ۔ ویسے ایران کو اسرائیل سے زیادہ سعودی حملے کے بارے میں تشویش ہے ۔ واضح رہے کہ ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے کے خلاف یمن میں ایک ایسی ہی پراکسی وارمیں شریک ہیں جیسا کہ افغانستان میں بھارت اور پاکستان۔جس طرح افغانستان میں گذشتہ پینتس سال کے دوران بھارت اور پاکستان نے اپنی اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کرنے کی کوششیں کی ہیں اسی طرح اب یمن میں سعودی عرب اور ایران ایسی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ لیکن معصومہ ابتکار نے واضح کیا ہے کہ ایران سعودی عرب کے ساتھ سفارتی سطح پربات چیت کے ذریعے یمن کے مسئلے کو حل کرنے کا خواہاں ہے جو ایک اچھی پیش رفت ہے۔
اس سلسلے میں ایرانی وزیر خارجہ جوادظریف بھی خاصے سرگرم ہیں ۔ پاکستان کے حالیہ دورے میں انہوں نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں پاکستان کے کردار کو سراہا ہے اور پاکستان اور ایران کے درمیان معاشی اور تجارتی تعاون بڑھانے پر زور دیا۔ واضح رہے کہ ایران پاکستان کے ساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون فراہم کرتا رہا ہے اور اب ایران پر پابندیاں ختم ہونے سے ترجیحی تجارت بھی ممکن ہو سکے گی۔ خاص کر ایران ، پاکستان گیس پائپ لائن کو جلد مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اب پاکستان اور ایران دونوں طالبان کے مقابلے میں نام نہاد دولت اسلامیہ کو زیادہ بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ مگر ہمارے خیال میں بڑی برائی کے مقابلے میں چھوٹی برائی کو گلے لگانا درست نہیں۔طالبان کی حالیہ کاروائیاں خاص کر پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل شجاع خانزادہ پر جان لیوا حملے سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ طالبان اب بھی شدت پسند کاروائیاں کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور عارضی خاموشی کے بعد بڑے حملے کرتے ہیں۔ اس لیے ایران پاکستان اور اس خطے کے دیگر ممالک کو دولت اسلامیہ کے مقابلے میں طالبان کو کم تر برائی کے طور پر قبول کرنے میں احتیاط کرنی چاہیے۔
مذہبی انتہا پسندی نے اس خطے اور پوری دنیا کو شدید نقصان پہنچایا ہے جب تک اس انتہ پسندی کی جڑ یعنی وہ جگہیں صاف نہیں کی جاتیں جہاں سے سب دہشت گرد تیار ہو کر نکل رہے ہیں جیسے نظر آنے والے کیڑوں کو مار عارضی طور پر خوش ہوا جائے۔ مگر جہاں سے کیڑے نکل کر آرہے ہیں ان نالیوں ، جوہڑوں اور چھتوں کو صاف نہ کیا جائے۔
بشکریہ: اخبار جہاں