جاویداختربھٹی
آزادی کا سال 1947 ء بہت تکلیف اور اذیت کا سال ہے ۔ہجرت میں دونوں طرف قتل عام ہوا ۔عورتیں اغوا ہوئیں ۔مردوں کی گردنیں کاٹی گئیں،معصوم بچے مارے گئے،گھر لوٹے گئے۔لوگ بے گھر ہو کر اَن دیکھی منزل کی طرف روانہ ہوئے۔اِدھر اور اُدھرلوگ برسوں اپنے عزیزوں کو تلاش کرتے رہے ۔ہرگھر میں بہت سی داستانیں تھیں۔جنہیں سننے اور سنانے کے بعد آنکھوں میں آنسو جاری ہوجاتے تھے ۔اذیت کے اس سفرسے ہم نے سبق حاصل نہیں کیا۔اس ہجرت کے بڑے گواہ سعادت حسن منٹو،کرشن چندراور راجندرسنگھ بیدی ہیں۔انہوں نے وہ لکھاجو تاریخ کی گرفت میں نہیں آسکا۔
میں نے ہجرت کے حوالے سے پاکستان اور ہندوستان میں لکھی جانے والی بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے۔حال ہی میں ڈاکٹر ستیہ پال آنند اور کلدیپ نیرنے اپنی زندگیوں کو کتاب کیا ہے ،جہاں دونوں طرف سفاک لوگ موجود تھے۔جن میں تمام اخلاقی جذبے دم توڑچکے تھے اور ان کے اندر بھیانک لوگ جنم لے چکے تھے۔وہاں کچھ انسان بھی باقی تھے۔جب ہم آزادی کا جشن مناتے ہیں تو ہمیں چاہئے کہ مرنے اوراجڑنے والوں کے لئے ،فسادات کی نذرہونے والوں کے لئے موم بتیاں روشن کریں اور فاتحہ خوانی کریں۔ ہمارے نوجوان ہنگامہ کرتے ہیں،شورکرتے ہیں اور اسی کو جشن آزادی سمجھ لیتے ہیں۔
دونوں طرف سرحدوں پر فائرنگ ہو رہی ہے ہم 68 برسوں میں ایک دوسرے سے کوئی قابلِ ذکر معاہدہ نہیں کر سکے ۔کیا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا؟مودی نے بھی اختلافات میں تیزی پیدا کی ہے۔اسی طرح وہ انتہا پسندہندوؤں کو اپنے ساتھ رکھ سکتے ہیں۔جنہیں وہ اپنی طاقت تصور کرتے ہیں۔دونوں طرف فائر ہو رہے تھے اس کے باوجود نوازشریف کی طرف سے آموں کا تحفہ گیا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نئی نسل کے ساتھ بدسلوکی ہو رہی ہے۔اس سے کون واقف نہیں ہے۔بچوں کے ساتھ زیادتی نیا واقعہ نہیں ہے۔یہ برائی ہزاروں سال سے قائم ہے ۔آج بھی تعلیمی اداروں ،مدرسوں،مساجد اور گلی کوچوں میں بچوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے۔زیادتی کے بعد بچوں کو قتل بھی کیاگیا۔ہمارے ملک میں ہی نہیں پوری دنیا میں ایسے شرمناک واقعات ہوتے ہیں۔لیکن قصور کا واقعہ مختلف ہے۔ایک جرائم پیشہ گروہ بچوں کے ساتھ زیادتی کرتا ہے اور پھر ان کی ویڈیوزبنا کر فروخت کرتا ہے ۔ان بچوں کے والدین کو بھی بلیک میل کرتا ہے ۔ان واقعات کا افسوس ناک پہلویہ ہے کہ پنجاب کے وزراء جب میڈیا کے ساتھ گفتگوکرتے ہیں تو آئیں بائیں شائیں کے سوا کچھ نہیں کہتے۔رانا ثناء اﷲجس انداز میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہیں وہ سننے اور دیکھنے والوں کے لئے شرم کا باعث ہے ۔ملزموں کو بچانے کی کوشش جاری ہے۔حکومت اس پر کھل کر بات کرتی ہے اور نہ ہی شرمندہ ہونے کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔
284 بچوں کے ساتھ بدفعلی کی گئی اور ان کی ویڈیوزبنائی گئیں۔پولیس اور قصور کی مسلم لیگی قیادت ملزموں کا ساتھ دے رہی ہے۔قصور کے واقعہ کو میڈیا پر بہت زوروشور سے پیش کیا جا رہا ہے۔یقینابڑا واقعہ ہے اس لئے اسے ہر پروگرام میں باربارتفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔بحث کی جاتی ہے ایسا کرنا ضروری ہے لیکن اس واقعے کو اس تسلسل کے ساتھ پیش کرنا بچوں کے ذہنوں پر برے اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ایسے واقعات پر پروگرام رات 11-12 بجے نشر کرنا مناسب ہے۔
میں نے ان بچوں کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ آزادی کا جشن منانے والے ذرا سوچیں ہم اپنی نئی نسل کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالت انہیں کیا سزادیتی ہے یا پھر ثبوت کافی نہ ہونے پر انہیں باعزت بری کردیاجائے گا۔انصاف کرتے وقت برسراقتدارآنکھوں کا اشارہ نہ دیکھا جائے۔یہ دھنداجوذلیل لوگوں نے قصور میں کیا ۔ ایسے مکروہ اور قابل نفرت کاروبار کو ہمیشہ کے لئے ختم ہونا چاہئے۔
اس کیس کوجس انداز میں تیارکیا جا رہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے آگے چل کر الجھن کا شکار ہوگا کیونکہ پولیس کے لوگ بھی اس مکروہ کاروبار میں شامل ہیں۔اس کے باوجود ہمیں عوام کی طاقت پر یقین رکھنا چاہئے ۔حکومت نے عوامی دباؤپر کچھ اقدامات کئے ہیں۔ایڈیشنل آئی جی ،ڈی پی او اور دو ڈی ایس پی فارغ کردیئے گئے ہیں اور مقدمہ انسدادِدہشت گردی کی عدالت میں منتقل کردیاگیاہے۔اس کے ساتھ کچھ تماش بین سیاست دان بھی سامنے آئے ہیں جن کا خیال ہے کہ یہ ایسا واقعہ نہیں ہے کہ اس پر اس قدر ہنگامہ کیا جائے یہ تو روزانہ کا معمول ہے ۔اگر یہ کام سو سال سے بھی ہو رہا ہے پھر بھی اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔یہ صرف واقعہ نہیں ہے۔یہ ایک کاروبار کی صورت ہے اس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے ہمارے قانون میں اس جرم کی زیادہ سزانہیں ہے۔اس لئے قانون سازی کی ضرورت ہے۔دیکھئے ہمارے ایوان کب بیدارہوتے ہیں۔
One Comment