امیر خسرو جرمنی میں

ڈاکٹر پرویز پروازی


pakistani-writers-publishing-books-literature-2

ابھی کچھ عرصہ قبل ناظر فاروقی صاحب کی خودنوشت دیکھی اس کا عنوان تھا’’لکھنؤ سے لندن تک عمر خیام کی رباعیوں کے ہمراہ‘‘ اس ساری کتاب میں عمر خیام کی رباعیوں کا ذکر تک نہیں تھا۔ اب ڈاکٹر مشتاق اسماعیل صاحب کی یادداشتوں کا مجموعہ آیا ہے’’امیر خسرو جرمنی میں‘‘۔ اس میں امیر خسرو کا صرف اتنا ذکر ہے کہ جرمنی میں ان کے قیام کے دوران دو موسیقار جرمنی گئے تو آپ نے انہیں متعارف کروانے کے لئے طبلہ اور ستار کے حوالہ سے امیر خسرو کا ذکر کیا۔ اللہ اللہ خیر سلا۔

خدا معلوم ان لوگوں کو اپنے قارئین کے حسنِ ذوق پر اتنی بداعتمادی کیوں ہے کہ انہیں لاتعلق عنوانوں سے اپنی جانب کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں؟ ناظر صاحب دیواشریف کے تھے مشتاق اسماعیل صاحب پٹنہ کے ہیں۔ اس کتاب کی دوسری بوالعجبی یہ ہے کہ کتاب کے سرورق پر ملا دو پیازہ کی تصویر چھپی ہوئی ہے۔ امیر خسرو میں، ملادو پیازے میں اور مصنف میں کیا تعلق ہے اس کا اندازہ قارئین خود لگائیں ہمیں تو سمجھ نہیں آتی۔

مشتاق اسماعیل صاحب کی متفرق یادداشتوں یا یہ مجموعہ نقش پبلیکشنز ایم اے جناح روڈ کراچی کی جانب سے 2012ء میں چھپا ہے اور مصنف نے اسے’’زندگی آموزوزندگی آمیز اور حیرت انگیز دلچسپ سچے واقعات ‘‘کے نام سے موسوم کیا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب پیشہ کے لحاظ سے کیمسٹری کے عالم ہیں اور مشہور عالم سائنسدان ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی کے شاگرد رشید ہیں۔ کراچی یونیورسٹی سے متعلق رہے پھر یورپ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی ملازت کے سلسلہ میں لیبیا او ردیگر ممالک میں رہنے کا موقعہ ملا۔ اس لئے اجنبی دیار وامصارکے بہت سے واقعات قاری کے لئے دلچسپی او رکشش کا باعث بنتے ہیں ۔ان کا دعویٰ ہے کہ یہ سب ان کا اپنا دیکھا بھالا ہے مگر سب واقعات ان کے دیکھے ہوئے واقعات نہیں ہیں بڑھابھی لیتے ہیں ،کچھ زیب داستان کے لئے کا مضمون بھی ہے۔

جم کاربٹ کے سلسلہ میں ان کا لکھنا ہے’’1952ء میں انگلستان سے دو شہزادیاں شہزادی الزبیتھ اور شہزادی مارگریٹ کینیا آئیں اور ان کے لکڑی کے گھر میں قیام کیا۔۔۔ ان کی تصویریں جم کاربٹ نے اپنی کتاب Treetopsکے سرورق پر چھاپی ہیں‘‘ اب زیب داستان شروع ہوتی ہے۔ ’’دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ اس رات لندن میں جارج ششم کا انتقال ہوگیا اور شہزادی الزبیتھ ملکہ بن گئی۔ اس درخت پر دھات کی یہ تختی لگادی گئی کہ
“A Princess went up this tree when, she came down she was Queen.”

کہ یہ وہ درخت ہے کہ ایک شہزادی اس درخت پر چڑھی تو شہزادی تھی اتری تو ملکہ بن چکی تھی۔(امیر خسرو جرمنی میں صفحہ27) یہ بات سو فیصددرست ہے مگر شہزادی الزبیتھ اپنے شوہر پرنس فلپ کے ساتھ ہنی مون پر کینیا گئی تھی شہزادی مارگریٹ ان کے ساتھ نہیں تھی دو علیحدہ علیحدہ واقعات کو جن میں ایک سال کا فرق ہے ملالینا ڈاکٹر صاحب کا کمال ہے آخرنامیاتی کیمیاوالے یہی ’’ملانا جلانا‘‘ ہی تو کرتے ہیں نا!
لیبیا میں قذافی کے گھر ایک دعوت میں شریک ہوئے۔ صدر’’قذافی نے آفتابہ اور سلفچی لے کر خود ان کے ہاتھ دھلوائے او رکہا آپ میرے مہمان ہیں میرا فرض ہے کہ میں آپ کے ہاتھ خود دھلواؤں۔‘‘(صفحہ47)۔

زبان نہ جاننے کے باعث بعض اوقات ہوٹلوں میں کھانے کا آرڈر دیتے وقت بہت دقت پیش آتی ہے آپ بھی ایران کے سفر ایک ہوٹل میں کھانے کا مینو دیکھ کر بے سوچے سمجھے مینو کے سب سے مہنگے کھانے’’بختیاری‘‘ کا آرڈر دے بیٹھے۔ جب چار’’بختیاری‘‘ لائے گئے تو وہ چار سالم بھنے ہوئے بکرے تھے۔(صفحہ82ٌ)۔

ہمارے ایک سائیکا ٹرسٹ ڈاکٹر محمد شفیق نے اپنی خود نوشت میں نظام دکن کے بارے میں اپنی لاعلمی میں لکھ مارا تھا کہ’’نظام کو پاکستان سے کوئی محبت نہ تھی‘‘(کچھ یادیں کچھ سفر صفحہ102)ان کے برعکس ان کا کہنا ہے کہ1948ء میں’’میرے بہنوئی انوار احمد ندوی سٹیٹ بنک میں کرنسی افسر تھے۔ وہ۔۔۔ ایک پائلٹ سڈنی کاٹن کے ہمراہ حیدر آباد جاتے۔ جہاز ایک فٹ بال کے میدان میں اترتا وہاں اس پر سونے کی اینٹیں لادی جاتیں جو وہ لے کر کراچی آجاتا۔۔۔ یہ اپنے بہنوئی کو لینے ائیرپورٹ گئے اور سونے کی اینٹیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔۔۔ ان سونے کی اینٹوں کے عوض پاکستان کا سکہ رواں حرکت میں آیا‘‘(صفحہ102جستہ جستہ) یہ امر تو ریکارڈ پر ہے کہ حیدر آباد کے سفیر نواب مشتاق احمد خاں نے پاکستان کے لئے بہت سی رقم سفارتی ذرائع سے پاکستان منتقل کی مگریوں ہوائی جہاز سے سونا لانے کا ذکر ان کے ہاں پہلی بار پڑھا ہے۔ اور اس امر کو صحیح ثابت کرنے کو ان کے پاس کوئی قوی دلیل بھی نہیں ہے مگر یہ بات نظام کی پاکستان دوستی کی ایک دلیل ہے او ربہت سے دوسری خود نوشتوں سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔

ہمیں تو ان کی یہ بات بہت خوش آئی کہ آپ نے لاہور کو وہ شہر قرار دیا ہے جس سے پانچ نوبل لارئیٹ لوگوں کا تعلق رہا۔’’پہلے نوبل لارئیٹ رڈیارڈ کپلنگ تھے جو مدتوں لاہور میں مقیم رہے۔1907ء میں ادب کے نوبل انعام کے مستحق قرار پائے۔ دوسرے انگلستان کے کامپٹن تھے جنہوں نے لاہور آکر لاہو رکے سرشانتی سروپ بھٹنا گر کے بنائے ہوئے مقناطیسی ترازو پر کام کیا اور1927ء میں نوبل انعام حاصل کیا۔ تیسرے گووندکھورانہ تھے جو ملتان میں پیدا ہوئے لاہور میں تعلیم پائی گورنمنٹ کالج لاہور میں استاد رہے بعد کو امریکا جاکر آباد ہوئے اور جینیات کے موضوع پر تحقیقات کی اور1968ء میں میڈیسن کا نوبل انعام حاصل کیا۔ ہندوستانیوں نے بہت دھوم مچائی کہ ایک ہندوستانی کو نوبل انعام ملا ہے مگر ان کا بیان آیا کہ میں لاہوری ہوں۔ لاہور کے مغلپورہ ورکشاپ میں کام کرنے والے ایک انجینئر سبرانیم کے بیٹے چندر شیکھر نے پنجاب یونیورسٹی لاہو رمیں تعلیم پائی اور1983ء میں نوبل انعام پایا۔ اس نے بھی ہی اعلان کیا کہ وہ ہندوستانی نہیں لاہوری ہے۔ ڈاکٹر سلام جھنگ میں پیدا ہوئے مگر پنجاب یونیورسٹی لاہو رمیں پڑھے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم دیتے رہے۔ گویا پانچ نوبل لارئیٹ اس شہر لاہور سے متعلق ہیں۔‘‘(صفحہ125۔127) ہمارے لئے تو یہ بات نئی ہے شاید او رلوگوں کے لئے بھی نئی ہو۔

جناب منصور کاظم کی خودنوشت(میری داستان مطبوعہ 1955) کا تذکرہ پہلے ہوچکا ہے وہ ان کے ماموں ہیں۔ وہ ایکسپورٹ پروموشن بیورو کے سیکرٹیری تعینات ہوئے۔ ان کے زمانہ میں پاکستان سے سینکڑوں ڈالر کی مالیت کی مچھلی ٹن بند کرکے کینیڈا بھیجی گئی کینیڈا والوں نے ساری مچھلی پھینک دی کہ ٹن اندر سے زنگ آلود تھے۔ تحقیقات کی گئی کہ خرابی مچھلی میں تھی یا ٹن میں۔ معلوم ہوا کہ ٹن گوہر ایوب صاحب کی کمپنی کے بنائے ہوئے ہیں۔ اس لئے تحقیقات کا آخری نتیجہ یہ نکالا گیا کہ’’خرابی ٹن میں نہیں مچھلی میں تھی‘‘(صفحہ146)۔ منصور کاظم صاحب نے تو اس تحقیقات کا ذکر نہیں کیا ان کے بھانجے نے خوامخواہ بھانڈاپھوڑدیا۔ مگر غور کرنے پر معلوم ہوا کہ منصور کاظم صاحب کی خودنوشت1955ء میں چھپی تھی ان کے بھانجے یہ بات1968ء میں لکھ رہے ہیں۔

ڈاکٹر مشتاق صاحب ،ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی کے بہت مداح ہیں اور آپ نے ان کی سوانح عمری بھی لکھی تھی۔ ان کی95ویں سالگرہ منائی گئی۔ اس کا ایک واقعہ اہل نظر کی عبرت کوکافی ہے کہ ڈاکٹر عطاء الرحمن مہمان خصوصی تھے۔ انہوں نے ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی صاحب کے مرتبہ کے بارے میں ایسی باتیں کیں جو مناسب نہ تھیں۔ سلیم الزماں صدیقی نے صرف یہ شعر پڑھ کر بات ختم کردی کہ ؂
دعائیں مانگتے ہیں احباب میرے مرنے کی، خدا جو چاہے تو میں ان کی ضد میں مرکے نہ دوں، (صفحہ140)۔

یہ شعر راشدہ نثار کی خودنوشت’’آپ اپنی تماشائی‘‘ میں بھی درج ہے(صفحہ410) مگر اس کی شان نزول کا ذکر ان کے ہاں نہیں۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی جیسے نابغۂ روزگار سائنسدان کی شاگردی سے انکار کرکے ڈاکٹر عطاء الرحمن کی عزت وتوقیر میں کتنا اضافہ ہوا ہوگا؟

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی صاحب سے ان کی درازی عمر کا راز پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا’’ میں نے کبھی کسی شخص سے حسدنہیں کیا۔‘‘صفحہ130

ڈاکٹر مشتاق اسماعیل صاحب نے کالا باغ کے فولاد پر بھی ایک کتاب تصنیف فرمائی تھی۔ زیر نظر کتاب کی وجہ تصنیف میں عرض مصنف کے عنوان سے لکھا ہے’’“سٹیل فرام کالاباغ”لکھنے کے بعد میں نے عہد کرلیا کہ آئندہ کوئی کتاب نہیں لکھوں گا۔ یہ وہی کتاب ہے۔‘‘ گویا یہ کتاب ان کی بدعہدی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے اس ثبوت کے لے امیر خسرو جیسے بزرگ کو درمیان میں کھینچ لانے کی کیا ضرورت تھی؟

One Comment