امریکہ نہ صرف دنیا کا ایک بڑا ملک بلکہ عالمی طاقت ہے۔ اس کی معیشت بہت بڑی اور مضبوط ہے۔ اسے’’ مواقع کی سرزمین‘‘بھی کہا جاتا ہے جہاں دنیا بھر خاص کر پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے نوجوان ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کرکے آنا چاہتے ہیں۔امریکی نظام معیشت سرمایہ دارانہ ہے، یہاں ہر کسی کوکام کرنا پڑتا ہے ۔ عام تاثر یہ ہے کہ امریکہ میں زندگی سخت ہے ۔ بے شک زندگی سخت ہے مگر یہاں پاکستان کے برعکس محنت کا معاوضہ پورا ملتا ہے اور کم سے کم تنخواہ پانے والے کو بھی زندگی کی بنیادی سہولتیں حاصل ہیں۔
پاکستان میں بھی زندگی اتنی آسان نہیں، لوگ سخت محنت کرتے ہیں مثال کے طور پر ایک پھل فروش یا چنے کی ریڑھی لگانے والا صبح سے لے کر شام تک سخت موسم میں چاہے گرمی ہو یا سردی ،بارش ہو یا دھند کھڑا رہتا ہے مگر اس مشقت کے بعد بھی اتنی بچت نہیں ہوتی کہ وہ اپنا معیار زندگی بلند کر سکے یا اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلا سکے بلکہ وہ کسمپرسی کی زندگی گزار کر اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہےمگر امریکہ میں ایسا نہیں اگر آپ محنت کرتے ہیں توآپ کا معیار زندگی نہ صرف بلند ہوتا ہے بلکہ آپ کے بچوں کو بہترین تعلیم کے مواقع ملتے ہیں۔
امریکہ میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے جو تقریباً زندگی کے ہر شعبے میں کام کر رہے ہیں۔یہاں سے اردو کے چار پانچ ہفتہ وار اخبارات بھی شائع ہوتے ہیں۔ یہاں اخبارات فروخت نہیں ہوتے بلکہ دیسی سٹورز پر مفت ملتے ہیں۔ ان کی آمدنی کا ذریعہ اشتہارات ہیں جو زیادہ تر دیسی افراد کے کاروبار کی تشہیر کے لیےہوتے ہیں۔ان اخبارات کا صحافت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ بھی دکانداری کی ایک قسم ہے۔
خبروں اور مضامین کے لحاظ سے ان اخبارات کا معیار انتہائی پست ہے۔ مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے والی خبریں اور مضامین پاکستانی اخبارات سے نقل کر لیے جاتے ہیں ۔ کچھ مضامین امریکہ میں رہنے والے پاکستانی لکھتے ہیں جو اسلامی نظام کی خوبیاں بیان کرتے ہیں یا اس کے خلاف ہونے والی سازشوں کو بے نقاب کرتے ہیں ۔کچھ کالم نگار امریکیوں کو بیوقوف سمجھ کر ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔بدقسمتی سے اردو مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ گئی ہے چاہے وہ پاکستان جیسا پسماندہ ملک ہو یا امریکہ جیسا ترقی یافتہ ملک، اردو زبان میں لکھنے والوں کی اکثریت پاکستانیوں کی ذہنی پسماندگی کم کرنے کی بجائے اس میں اضافہ ہی کررہی ہے۔
اوسط درجے کا پاکستانی (بلکہ ہندوستانی مسلمان بھی) تو دور کی بات انتہائی پڑھے لکھے افرادیعنی وکیل، ڈاکٹر اور انجینئرزکی اکثریت امریکہ کو ایک سازشی ملک قرار دیتی ہے۔مگر وہ یہ نہیں سوچتے کہ اگر مغربی ممالک یا امریکہ نے مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہی کرنی ہیں تو پھر ہر سال ان کو اپنی شہریت کیوں دیتا ہے؟ انہیں اپنے ہاں وہ تمام مذہبی آزادیاں دیتا ہے جو مسلمانوں کو اپنے ملک میں بھی حاصل نہیں؟جبکہ اسلامی ریاست میں غیر مسلم دوسرے درجے کے شہری ہوتے ہیں۔یہ امریکہ ہی ہے جہاں رہ کر اس کے نظام پر لعنت ملامت کی جا سکتی ہے وگرنہ کوئی اسلامی ریاست یہ حق دینے کو تیار نہیں کہ آپ اس کے خلاف کوئی بات بھی کر سکیں کیونکہ اسلامی ریاست تو اطاعت امیر کے بغیر چل ہی نہیں سکتی۔
کہا جاتا ہے کہ مسلمان کبھی جمہوریت کو اپنا نہیں سکتا کیونکہ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہاں اقتدار میں آنے کے لیے وہ جمہوریت کو بحالت مجبوری قبول کرلیتے ہیں۔ ترکی کے وزیراعظم طیب اردگان نے کہا تھا کہ جمہوریت ایک ایسی ٹرین ہے جب آپ کا مطلوبہ سٹیشن آجائے تو وہاں اتر جائیں اور یہی کچھ مصر کے سابقہ صدر مرسی نے کیا ۔
مسلمان جمہوریت کو فریب کاری سمجھتے ہیں اور خلافت کے دعویدار ہیں۔ علامہ اقبال بھی کہیں فرما گئے ہیں جمہوریت میں سر گنے جاتے ہیں دماغ نہیں۔ایک پاکستانی انجینئر کا کہنا ہے کہ امریکہ کاجمہوری یا انتخابات کا نظام دھوکہ دہی پر مبنی ہے۔ یہاں پہلے سے فیصلے ہو جاتے ہیں کہ کس کو جتوانا ہے اور کس کو نہیں۔ان کے خیال میں امریکی میڈیا بالکل آزاد نہیں ہے۔ اصل بات (جس کا شاید انہیں خود بھی علم نہیں) وہ عوام کو بتاتا نہیں۔نہ ہی وہ’’ اصل بات‘‘ امریکہ سے چھپنے والے اردو کے اخبارات بتاتے ہیں۔
امریکہ میں بسنے والے پاکستانی اور ہندوستانی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نائن الیون کو یہودیوں کی سازش سمجھتے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو امریکہ نے خود تباہ کیا ہے تاکہ وہ مسلمانوں پر حملہ کر سکے وغیرہ وغیرہ۔ ایک سپیشلسٹ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ امریکی معیشت ایک تیسری قوت چلا رہی ہے جو نظر نہیں آتی یہ قوت چند افراد پر مشتمل ہے جو ہماری قسمتوں کا فیصلہ کرتے ہیں۔
کسی زمانے میں پاکستان کی بائیں بازو کی سیاست کرنے والے ایک صاحب اب امریکہ میں زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں لیکن ابھی بھی سرد جنگ کے زمانے میں جی رہے ہیں۔وہ امریکہ کے معاشی نظام کے سخت خلاف ہیں لیکن چین اور روس کے سرمایہ دارانہ نظام، جو کہ امریکی نظام سے کئی گنا گھناؤنا ہے ،کی تعریف کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی معیشت چین کے پیسوں سے چل رہی ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکہ چین کی بڑھتی ہوئی قوت سے بہت خوفزدہ ہے اور وہ اس کو ختم کرنے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے اور اب وہ ہندوستان کو اس مقصد کے لیے استعمال کرے گا۔ ان کو یقین ہے کہ جلد ہی چین اور روس امریکہ کو سبق سکھائیں گے۔
اسی نقطہ نظر کے حامل کچھ پاکستانیوں نے امریکہ کی برائیوں میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے ۔ یہ خواتین و حضرات کوئی بھی بات ہو گی وہ فوراً آپ کو بتائیں گے کہ امریکہ میں نئے سال کے آغاز کے بعد کتنے قتل اور ریپ کے واقعات ہوئے ہیں، کتنے لوگوں نے خودکشیاں کی ہیں،کتنے بڑے لوگ مالی بدعنوانی میں ملوث ہیں اور یہاں جیلوں میں کیسے منشیات سمگل کی جاتی ہیں، پولیس کیسے مظلوموں کو مارتی ہے اور یہاں کتنی معاشرتی برائیاں موجود ہیں۔یہ لوگ امریکی معاشرے کی ” برائیاں” لذت لے کر گنوائیں گے۔ ہم جنس پرستوں کو شادی کرنے کی اجازت دینے کی مذمت کرتے ہیں مگر ان کی سالانہ پریڈ بھی بہت شوق سے دیکھتے ہیں۔
امریکہ میں پاکستانیوں کی دو بڑی تنظیمیں ’’اپنا اوراکنا ہیں ۔اول الذکر ڈاکٹروں کی تنظیم ہے اور موخر الذکر امریکہ میں پاکستانی اور بھارتی مسلمانوں کی تنظیم ہے ۔ بلکہ ’’اکنا‘‘ کو جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ یہ تنظیمیں وقتاً فوقتاً بڑے بڑے سیمینارز منعقد کرتی ہیں مگر کسی تنظیم نے ملالہ یوسفزئی کو نوبل انعام ملنے پر کسی قسم کا ردعمل ظاہر نہیں کیا بلکہ خاموشی اختیار کی۔جب وہ امریکہ آئی تو چند پاکستانی افراد نے اپنی ذاتی حیثیت میں ہندوستانی تنظیم کے ساتھ مل کر اس کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی۔
پاکستان میں اگر مسجدوں کی بھرمار ہے تو امریکہ میں چرچ ہر گلی کی نکڑ پر نظر آئیں گے مگر فرق یہ ہے کہ امریکی مزاج سیکولر ہے۔ اس کی بنیادی وجہ امریکہ کا سیکولر نظام ہے جبکہ پاکستانی زندگی کے ہر شعبے میں مذہب کو گھسیڑ تے ہیں۔ شاندار ماضی ان کے ذ ہنوں سے نہیں نکلتا۔ہر وقت مسلمانوں کے خلاف ہونے والی غیر ملکی سازشوں کا ذکر کرتے نظر آئیں گے لیکن امریکہ میں انہیں کسی بھی قسم کی مذہبی پابندیوں کا سامنا نہیں۔ امریکہ میں رہتے ہوئے بھی انہیں اس بات کا پکا یقین ہے کہ یورپ اور امریکہ چاہتے ہی نہیں کہ مسلمان ترقی کر سکیں۔
امریکہ میں مسلمانوں کے تمام فرقوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے لیکن اس کے باوجود وہ مطمئن نہیں ہیں۔ احساس برتری کاعالم یہ ہے کہ امریکی معاشرے کی خوبیوں کو اسلام سے منسوب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ ان غیر مسلموں نے ہماری اچھی باتیں اپنا لی ہیں۔ایک امام مسجد جمعے کے خطبے میں فرمارہے تھے کہ پاکستان( بلکہ تمام اسلامی ممالک)میں ایمان ہے لیکن ایمانداری نہیں اور امریکہ میں ایماندار ی ہے اور ایمان نہیں۔وہ انتہائی تاسف کا اظہار کرتے ہیں کہ امریکی قوم اندھیرے میں ہے اور وہ ایمان کی روشنی سے فائدہ نہیں اٹھاتی اور ہمارا فرض ہے کہ ان تک ایمان کی روشنی پہنچائیں تاکہ وہ ’’ہماری طرح‘‘ سیدھے راستے پر آ جائیں۔