رزاق سربازی
بلوچ سیاست کا خام نہیں ، پختہ خیال یہی ہے کہ بلوچوں کی قسمت کی خرابی کا آغاز 1948 کو ہوا جب بلوچستان کو بزور پاکستان سے الحاق پر مجبور کیا گیا۔ بلوچ سیاست میں پاکستان کیساتھ الحاق کو خرابیوں کی ماں تصور کیا جاتا ہے۔ جب بلوچستان کیخلاف پہلا فوجی آپریشن کیا گیا تاآنکہ یہ سلسلہ پانچویں مرتبہ فوج کشی تک جاری ہے۔ ہرچند اس مرتبہ بلوچ مزاحمت کو موت کو سرمایہ بنانے والی شخصیات ملی ہیں۔ جن میں نواب اکبر بگٹی کا نام سرفہرست ناموں میں شامل ہے۔
نواب اکبر بگٹی
سیستان کی گرد آلود فضاؤں سے نکل کر تاریخ کےکسی زمانے میں نواب اکبر بگٹی کے اجداد ڈیرہ بگٹی آکر، آباد ہوئے۔ تاریخ پر مفروضوں کی گرد چھائی ہوئی ہے ، ورق ورق الٹنا آسان نہیں لیکن نواب اکبر بگٹی کی سیاسی تاریخ اس قدر گرد آلود نہیں ۔ بلوچستان کے پاکستان کیساتھ الحاق کے حق میں انہوں نے 1948 میں ووٹ ڈالا ۔ یہ ان کی سیاسی زندگی کا آغاز تھا۔ جس کا خاتمہ 26 اگست 2006 کو ہوا ۔ ان کی سیاسی زندگی 58 سال پر محیط رہی۔ جس میں وہ وفاقی وزیر مملکت برائے دفاع ، گورنر اور وزیر اعلٰی بلوچستان بھی رہے۔ ان کی سیاسی زندگی کا بیشتر حصہ مرکز سے چپقلش ، مذاکرات ، قید و بند میں گزرے ۔ ان برسوں میں انہوں نے حتٰی الامکان وفاق کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ مضبوط پاکستان کیلئے اکائیوں سے بنا کر رکھے اور انہیں ساتھ لے کر چلے۔ وہ ناکام رہے کیونکہ ہیئت حاکمہ یا مقتدرہ کو شاید اکائیوں سے بناکر رکھنے کی نہیں، دبانے کر رکھنے کی عادت پڑگئی ہے۔
پاکستان ائر فورس کے ریٹائرڈ سینئر افسر سید سجاد حیدر اپنی کتاب “ شاہین کی پرواز ” میں لکھتے ہیں “ بگٹی قبیلے کے سردار نواب محراب خان ( نواب اکبر بگٹی کے والد ) کے تعمیر کروائے گئے بگٹی کمپلیکس میں ، ایک چھوٹے سے ٹین کی چھت والے گھر میں منتقل ہونے سے قبل ، ہم بگٹی ہاؤس میں پلے بڑھے۔۔۔ نواب محراب خان بگٹی میرے والد کے قریبی دوست تھے۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ نواب صاحب جب کبھی کوئٹہ تشریف لاتے، بلاناغہ میرے والد کیساتھ دوپہر کا کھانا تناول کرتے۔ یہی وجہ تھی کہ میری ہمشیرہ اور میں نے اپنا بچپن بگٹی ہاؤس میں بسر کیا۔ جہاں بعد میں نواب اکبر بگٹی اپنے خاندان کے ہمراہ آخری دن تک رہائش پذیر رہے۔۔۔ مجھے اکبر بگٹی ایک رعب دار اور سخت شخص کی حیثیت سے یاد ہیں، جو مجھے ہمیشہ مریل اور دبلا پتلا لڑکا کہہ کر پکارتے تھے۔ شاہین کی پرواز ، سید سجاد حیدر ، ص 26 و 27
سلویا میتھیسن اپنی کتاب “ دی ٹائیگرز آف بلوچستان ” میں نواب اکبر بگٹی کی شخصیت کا بیان ان الفاظ میں کرتی ہیں “ دراز قد ۔۔۔ پھیلے ہوئے کندھے والا سر ۔ اس کی آنکھیں کسی محبوب عورت کی چمکدار آنکھوں کی طرح پھیلی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس نواب کا قد چھ فٹ سے متجاوز تھا۔ اس کا شاندار سر ، چمکدار گھنگریالے بالوں سے بھرا ہوا تھا اور سر کے بال داڑھی سے باہم ملے ہوئے تھے ۔ نہایت متجسس آنکھیں تھیں اور خوشگوار منہ ( جو کہ مڑی ہوئی اعلٰی مونچھوں کے نیچے دیکھا جاسکتا تھا جس کے نیچے داڑھی بھی تھی ) چہرہ عمدہ اور واضح دکھائی دے رہا تھا ۔ تقریباً نہیں بلکہ حقیقت میں قابل دید تھا ” ( ص 2 ) نیلام گھر ( ٹی وی شو ) میں ایک سوال پوچھا گیا کہ وہ کون سا لیڈر ہے جس کی صورت شیر کے مشابہہ ہے ، جواب میں ایک آدمی نے کہا نواب اکبر بگٹی تو وہ انعام کا حقدار ٹھہرا۔ ” بگٹی قبیلہ ، کامران اعظم ، ص 129
بلوچستان کے مشرق میں واقع ڈیرہ بگٹی اور مشرقی یورپ کے ملک بوسنیا میں کچھ بھی مشترک نہیں ۔ بس دونوں مقامات کو جنرلوں کے ہاتھوں یکساں مار پڑی۔ سابق یوگوسلاویہ کے سرب جنرل ، جنرل ملاویدک 1990 کی دہائی کی بالقان منطقہ کی جنگ کے دنوں میں ایک دن اپنے مورچے کے سامنے واقع پہاڑی پر ایک گھر کو نشانہ پر لیتا ہے۔ گھر میں رہائش پذیر لوگوں کو صرف پانچ منٹ دیئے جاتے ہیں کہ اپنے خاندان کی یادگار تصاویر لےکر گھر خالی کردیں کیونکہ جنرل ملاویدک اس گھر پر راکٹ فائر کرنے کا پورا ارادہ کرچکے تھے ۔ بالقان منطقہ کی تاریخ کی آنکھیں اس دن اس واقعہ پر بےپناہ روئی ہوئی ہونگی ۔ تاریخ حملہ آور اور صاحبخانہ دونوں سے شناسائی رکھتی تھی۔ ایک سرب جنرل ہے اور دوسرا البانوی نژاد بوسنین ۔ جنگ سے قبل دونوں کا رشتہ دوستی کا تھا جو جنگ کے دنوں میں دشمنی میں تبدیل ہوگئی تھی ۔
نواب اکبر بگٹی کو بھی دنیا میں سب سے زیادہ پیار اپنے پہاڑوں سے تھا ۔ آخری سانس بھی لی تو ان ہی پہاڑوں کی آغوش میں ۔
کیا یہ قصہ دور کہیں کی کہانی ہے ؟
جنرل مشرف نے، مری و بگٹی علاقہ کے سنگم پر جنرل ملاویدک بن کر ، ویسے ہی نواب بگٹی کو ہٹ نہیں کیا؟
2 Comments