بنگلہ دیش صرف نام کا ہی سیکولر بن رہا ہے

سلیل ترپاٹھی

shabagh

بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ مارچ 1971 میں شروع ہوئی تھی جب پاک فوج کے جوانوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے کیمپس پر دھاوا بولا تھااور سینکڑوں طالب علموں، پروفیسروں اور دانشور وں کو قتل کر دیا ۔ دسمبر 1971 میں جنگ کے خاتمے سے دو دن پہلے ، جماعت اسلامی کے غنڈوں نے پاک فوج کی حمایت سے درجنوں دانشوروں کا قتل کیا تھاجو کہ نئی بنگلہ قوم کی ریڑھ کی ہڈی بن سکتے تھے۔ایک بار پھر ایک بلاگر کو قتل کر دیا گیا۔

♦♦

ایک بار پھر ایک بلاگر کو قتل کر دیا گیا۔

سات اگست کو ڈھاکہ میں ایک اور بلاگر مستنصر الاسلام جو کہ نیلوئے نیل کے قلمی نام سے لکھتا تھا، انتہا پسندی کا نشانہ بن گیا۔ چند افراد پانچویں منزل پر واقع اس کے فلیٹ آئے اور اس پر چاقوؤں سے حملہ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ القاعدہ کی مقامی جماعت انصارالاسلام کے ترجمان مفتی عبدالرؤف نے اس کے قتل کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔

بارہ مئی کو اننتا وجے داس ، شمالی ضلع سلہٹ میں اپنے دفتر جارہا تھا کہ چار افرادنے چاقووں سے حملہ کرکے موقع پر ہی قتل کردیا۔ داس،مکتو منو، یعنی آزاد ذہن نامی ویب سائٹ پر لکھتا تھا جو بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کے خلاف اور سائنسی طرز فکر کو فروغ دیتی ہے۔اس ویب سائٹ پر لکھنے والے زیادہ تر بلاگر دہریے ہیں یا پھر لبرل اور روشن خیال۔

اس سے پہلے فروری میں اسی ویب سائٹ کو شروع کرنے والے اجیت رائے کو ڈھاکہ میں چاقووں کے حملہ کرکے مار ا گیا تھا جب کہ اس کی بیوی رافیدہ احمد سخت زخمی ہو گئی تھی۔مارچ میں ایک اور بلاگر وسیق الرحمن بھی اسی طرح کے حملے میں مارا جا چکا ہے۔

بلاگرز پر حملے دراصل آزادی اظہار رائے پر حملے ہیں۔لیکن اس کی وجوہات کیا ہیں؟ اس کو جاننے کے لیے ہمیں 1971 کی آزادی کی جنگ کو سمجھنا پڑے گا۔ کیا بنگلہ دیش سیکولر ہے یا مذہبی؟ کیا یہ مسلمان ہے یا بنگالی؟یہ سوالات ایک بڑے سوال سے جڑے ہوئے ہیں کہ جنگی جرائم کے مرتکب افراد کو معاف کر دیا جائے یا انصاف کا بول بالا ہو۔

بنگلہ دیش ،پاکستان کا مشرقی حصہ تھا جو 1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد وجود میں آیا۔ پاکستان اس خطے کے مسلمانوں کے لیے بنایا گیا تھا ۔ یہ کہا گیا تھا کہ مذہب مشرقی اور مغربی حصوں کو متحد رکھے گا لیکن زبان نے ان کو تقسیم کردیا۔مغربی پاکستان میں کئی زبانیں تھیں مگر اس نے اردو کو اپنی قومی زبان بنایا جبکہ مشرقی پاکستان بنگلہ ، جو کہ اس خطے کی زبان تھی، کو اردو کے برابر درجہ چاہتا تھا۔مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے اس کی مخالفت کی ۔

گو مشرقی پاکستان میں اکثریت مسلمانوں کی تھی مگر انہیں اپنی ثقافت جو ہندو، بدھسٹ اور دوسرے مذاہب کی رسوم و رواج پر مشتمل ہے، پر فخر تھا۔مغربی پاکستان کے حکمرانوں کی جاری زیادتیوں کے باعث بنگالیوں کے احساس محرومی میں اضافہ ہوتا گیا اور عوامی لیگ بنگالی عوام کی مقبول جماعت بن گئی جو مشرقی پاکستان کے لیے زیادہ خودمختاری اور حقوق کا تقاضہ کرتی تھی۔ اگر مغربی پاکستان اپنی شناخت مذہب کے حوالے سے کرتا تھا تو مشرقی پاکستان اپنی شناخت اپنی قدیم تہذیب و ثقافت کے حوالے سے کرنے پر مصر تھایعنی وہ سیکولر بھی ہے، بنگالی بھی اور مسلمان بھی۔

جب 1970 میں پاکستان میں پہلے حقیقی انتخابات کا انعقاد ہوا تو عوامی لیگ بھاری اکثریت سے جیت گئی۔لیکن مغربی پاکستان کے سیاستدان اس کو اقتدار دینے میں لیت ولعل کا مظاہر ہ کرنے لگے۔جنرل یحییٰ خان جو کہ اس وقت پاکستان کا حکمران تھا نے عوامی لیگ سے مذاکرات کا آغاز کیا کہ حکومت کیسے قائم کی جائے۔

یہ مذاکرات ناکام ہوگئے اور مارچ1971 میں پاک فوج نے مشرقی پاکستان میں آپریشن سرچ لائٹ شروع کردیاجس کے ردعمل میں پورے مشرقی پاکستان میں فسادات پھوٹ پڑے۔ان فسادات میں لاکھوں افراد(بنگالیوں کے مطابق تیس لاکھ)ہلاک ہوئے اور دولاکھ پچاس ہزار خواتین کا پاک فوج کے بہادر جوانوں نے ریپ کیا۔پاک فوج نے بنگالی نیشنل ازم ختم کرنے کی پوری کوشش کی۔ تم بنگالی ہو سکتے ہو یا مسلمان ، دونوں نہیں۔

بنگالی گوریلوں نے پاک فوج، جس کو عوام قبضہ گیر سمجھنا شروع ہو گئے تھے، کا ڈٹ کا مقابلہ کیا ۔ کوئی ایک کروڑ بنگالیوں نے اپنی جان بچانے کے لیے بھارت میں پناہ لی۔ دسمبر 1971 میں بھارت بھی اس جنگ میں کودا اور چند ہی دنوں میں پاک فوج کو شکست دے دی۔اور بنگلہ دیش آزاد ہو گیا۔

عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمن نے اس ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ انہوں نے بنگلہ دیش کو ایک سیکولر ملک قراردیا اور جنگی جرائم میں ملوث افراد پر مقدمہ چلانے کا اعلان کیا۔ لیکن1975 میں چند فوجی افسروں نے مجیب کو قتل کردیااور آنے والی حکومت نے اس کے قاتلوں کو معاف کر دیا۔

دوہزار آٹھ میں جب مجیب کی بیٹی شیخ حسینہ واجد نے انتخابات میں اکثریت حاصل کی تو اس نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے والد کے قاتلوں پر مقدمہ چلایا اور الزام ثابت ہونے پر پھانسی دے دی۔اس حکومت نے جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے انٹرنیشنل وار کرائم ٹربیونلز بھی تشکیل دیئے۔

کیا بنگلہ دیش سیکولر ہے ؟ یہ ایک پیچیدہ سوال ہے۔ عوامی لیگ اپنے آپ کو سیکولر ازم سے جوڑتی ہے مگر اس کا عمل کئی حوالوں سے سیکولر نہیں۔ جبکہ خالدہ ضیاء کی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی، اپنے آپ کو اسلامسٹ نہیں کہلواتی مگر مذہبی جماعت ، جماعت اسلامی کی اتحادی ہے۔ کیونکہ خالدہ ضیاء کے خاوند جنرل ضیاء الرحمن نے آئین میں پانچویں ترمیم کے ذریعے مذہبی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی تھی۔

دو ہزار تیرہ میں پانچویں ترمیم کے کچھ حصہ میں مزید ترمیم کی گئی تھی۔حسینہ واجد کی حکومت نے بنگلہ دیش کو سیکولر ملک تو قرار دیا مگر اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب بھی قرار دیا اور اس کے ساتھ ہی دوسرے مذاہب کو بھی برابری کا درجہ دیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی اظہار رائے اور سیکولر ازم کی راہ میں بنیاد پرستی سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی۔انصاف کیا جائے یا معاف کیا جائے کا تصادم شروع ہوگیا۔

فروری 2013 میں ایک بلاگر احمد رجیب حیدر کو قتل کردیا گیا تھاجو سوشل میڈیا پر جماعت اسلامی کے سابق رہنما، عبدالقادر مُلا کو سخت سے سخت سزا دینے کی مہم چلارہا تھا۔حکومت نے عبدالقادر کو جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے پر عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ ایک بڑی تعداد اس سزا سے ناخوش تھی ، ڈھاکہ کے مرکزی علاقے ،شاہ باغ میں ہزاروں افراد نے اس کی موت کا مطالبہ کیا۔

حکومت نے قانون میں ترمیم کی جس کے تحت پراسیکیوٹر کو سخت سزا دینے کے لیے اپیل کا حق مل گیا۔عدالت نے مُلا عبدالقادر کو موت کی سزادے دی۔رجیب نے سوشل میڈیا کے ذریعے ،شاہ باغ میں لوگوں کو اکٹھا کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔مارچ 2013 میں ایک اور بلاگر آصف محی الدین پر بھی چاقووں سے حملہ کیا گیا مگر وہ بچ گیا۔ پولیس نے حملہ آوروں کو گرفتار کر لیا جن کا تعلق انتہا پسندوں کے گروپ سے تھا۔

بنگلہ دیش میں مذہبی انتہا پسندی ، پاکستان کے مقابلے میں کم ہے لیکن بنیاد پرستوں میں اتنی طاقت ہے کہ ان کے ہزاروں کارکن مظاہرے کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل کر معمولات زندگی کو مفلوج کر دیتے ہیں۔
آئین میں پندرھویں ترمیم کی رو سے مذہبی جماعتوں کی سیاست میں حصہ لینے پر پابندی عائد کی گئی ہے جس سے بنیا د پرستوں کی مایوسی بڑھی ہے۔ جماعت اسلامی نے اس پابندی کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔

پچھلے کچھ سالوں سے بنگلہ دیش میں مذہبی انتہا پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔زیادہ تر بنگلہ دیشی ورکر جو سعودی عرب محنت مزدوری کرنے گئے تھے وہابی اسلام سے لیس ہو کر واپس آگئے ہیں۔ سعودی عرب ، وہابی مسجدوں اور مدرسوں کے تعمیر کے لیے فراخ دلی سے فنڈز مہیا کر رہا ہے۔اور یہی طبقہ سیکولرگروہ کے مدمقابل کھڑا ہو رہا ہے۔

بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ مارچ 1971 میں شروع ہوئی تھی جب پاک فوج کے جوانوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے کیمپس پر دھاوا بولا تھااور سینکڑوں طالب علموں، پروفیسروں اور دانشور وں کو قتل کر دیا ۔ دسمبر 1971 میں جنگ کے خاتمے سے دو دن پہلے ، جماعت اسلامی کے غنڈوں نے پاک فوج کی حمایت سے درجنوں دانشوروں کا قتل کیا تھاجو کہ نئی بنگلہ قوم کی ریڑھ کی ہڈی بن سکتے تھے۔

ڈھاکہ کے رائیر بازار میں ایک یادگار پر اسد چوہدری کی نظم کے یہ الفاظ کندہ ہیں ’’ کیا بنگلہ دیش کہہ رہا ہے کہ کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘ یہ نظم اپنے سوال کے جواب کا انتظار کر رہی ہے جبکہ اس دوران بلاگرز کا قتل جاری ہے۔

سلیل ترپاٹھی بلاگر ہیں ، ان کے بلاگ qz.com پر پڑھے جا سکتے ہیں۔

One Comment