ثنا بلوچ
بہت خوب گزرتی اگر حالات حاضرہ پر تبصرہ کرکے دانشوری کا تاج اپنے سر پہ سجا لیتا۔۔۔ مگر یہ ہو نہ سکا۔۔۔ میں نے دانش کو تہذیب تمدن کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ سمیری تہذیب سے لے کر مصر کی تہذیب۔۔۔ مصر کی تہذیب سے لے کر بابل کی تہذیب۔۔۔ بابل سے ہندوستان، چائنا، جاپان کی تہذیبوں کو کْریدتا چلا گیا۔ انسان کیسے بنا۔۔۔ ارتقائی مراحل سے کیسے گزرا۔۔۔رویوں کی اساس کی نوعیت کیسی رہی۔ مذہبی، سائنس کی صدا کیسی گونجی۔ قدیم فلاسفر ایبقورس سے لے کر جدید فلاسفر ڈیگارٹ کا نقطہ نظر کیا رہا، مگر اک لاحاصل سفر۔۔۔ اور پھر ادب کی دنیا میں قدم رکھا۔ شاہد یہاں سے کاروبار زیست کا ساماں پا سکوں۔
ٹالسٹائی کے اعترافات سے لے کر دوستو فیسکی کے پاگل پن، چیخوف کے معاشرتی طنز سے لے کر البرٹ کامیو کی امید پرستی، سار ترکی دیدہ دلیری سے لے کرشیلے کے نغمہ سرائی تک سب راستوں سے کہکشاؤں سے، صحراؤں سے، گلستانوں سے، مرحلہ وار گزرتا گیا، مگر لاحاصل۔۔۔ کتنا آساں ہوتا اگر جون ایلیا کی فقط ایک ہی نصیحت کو اپنے اندر سمو لیتا کہ ’’بس صبح دم توفیق ہو تمہیں اخبار پڑھنے کی کاش تمہیں عادت نہ ہو کبھی دیوار پڑھنے کی‘‘ اور صبح دم اخبار بینی کی بدولت اپنے آپ کو جدت پسند کہلواتا، فقط یورپ کی بیداری پر ہی تو لکھنا تھا اور اس معاشرے کو غلیظ ہی تو کہنا تھا‘ ملاوٹ ملاوٹ کا رونا روتا اور پھر اپنے قلم کی روشنائی میں ملاوٹ کرکے چوہدری برادران، الطاف حسین کو بلندیوں کے مینارہ پر چڑھاتا اور یہ ملاوٹ کبھی ملاوٹ کے زمرے میں نہیں آتا۔
یورپ کی ایجادات، احسانات، تحقیق پر روزانہ درشن دیتا، مگر جب بلوچستان پہ کبھی ضمناً قلم اٹھاتا تو تحقیق سے عاری وہی گھسی پٹی جملے دہراتا کہ کیسے 1990میں میرا کوئٹہ جانا ہوا، وہاں ایئر پورٹ پر مجھے کچھ لوگ ملے اور انہوں نے کوئٹہ کے یہ حالات بیان کئے مگر اس سب کے باوجود بنگلہ دیش کے لئے مگرمچھ کے آنسو بھی بہاتا۔ زعم دانشوری کا لبادہ اوڑھ کر کیسے کیسے کو بے لباس کرتا اور اگر کوئی آئینہ دکھانے کی کوشش بھی کرتا تو انہیں ایسے تبرکات بھیجتا کہ دانش بھی دنگ رہ جاتی۔ کتنا آساں ہوتا۔۔۔ بس حکومت کے بدلنے کی دیر ہوتی کہ میرا کعبہ و قبلہ خود بخود بدل جاتا۔ بچوں کی ملازمت سے لے کر سرکاری مراعات کا دلداوہ ہوتا۔ میری کوٹھری کے باہر گاڑیوں کی ریل پیل ہوتی۔
زرد صحافت کا نمونہ ہونے کے باوجود میرے سیاسیات، اخلاقیات پر کئے گئے تجزیے کونے کونے میں پڑھے اور سنے جاتے۔ کبھی کسی بادشاہ وقت کے رازوں کا امین ہوتا، لیکن حکومت بدلنے کے ساتھ آصف زرداری کو بھی جمہوریت کے تسلسل کی آڑ میں چھپا لیتا۔ آصف زرداری کے جانے کی دیر ہوتی بلاول کو ابو سے ذہنی طور پر دور رہنے کا مشورہ بھی د یتا۔ کتنا دلکش منظر ہوتا ۔۔۔ رات کی تاریکی میں اک اک سگریٹ گنتا اور صبح صادق اپنے کالم میں پورا منظر پیش کرتا، محرومیت اس قدر کہ (الا ماں) ہربڑی شخصیت سے ملاقات کا طلبگار ہوتا پھر ملاقات کا ڈھنڈورا اپنے کالموں میں پیٹتا۔ ظلمت کو ضیاء لکھتا اور عصر حاضر کے جرنیل کو صبا لکھتا۔
گرچہ بروٹس کا کردار اور مسخ شدہ لاشوں کا ملنا اسی عصر حاضر جرنیل کے کارناموں میں سے ایک کارنامہ ہے مگر انہیں میں تاریخ کے عظیم جرنیلوں کے طور پر پیش کرتا۔ صوفی ازم کا چرچا اپنے ہر کالم میں لگا لیتا اور اسی کی آڑ میں ہر اس گند کو صاف کرتا جو اسٹیبلشمنٹ نے پھیلائی ہوئی ہوتی۔ (اسٹیبلشمنٹ سے مراد تو آپ لوگ سمجھ گئے ہوں گے؟) کتنا آساں ہوتا۔۔۔ بلوچستان کے دور افتادہ ضلع سے ہراساں کرنے پر میرا تبادلہ ہوتا لیکن قدامت پرستی، مذہبی اخلاقیات کا ڈھول پیٹنے سے وقت کا عظیم مفکر ہوتا۔ بیورو کریسی میں سفارش، مراعات کو آڑے ہاتھ لیتا مگر اْمت مسلمہ کو روز نئے شگوفوں کے ذریعے نئی جنگ کی نوید سناتا۔ جونہی وہ وقت گزرتا جس کی پیش گوئی کی گئی تھی تب نئی پیش گوئی کے لئے احادیث، روایات کا اعادہ کرتا۔ روز ایک نئے شگوفے کے ساتھ نوجوان نسل کو ایک شکر کا انتظار کرواتا۔ کتنا آساں ہوتا۔۔۔
اداکاری کا جوہرچونکہ میرے خون میں پہلے سے رچی بسی ہوئی تھی بس رمضان شروع ہوتے ہی اپنا میلہ سجا لیتا اور اداکاری کے نئے جوہر دکھاتا۔ مذہب کا بیوپار بن جانے میں بلا کیا ہرج ہے، اپنی قوم کو ایک ہی سانس میں مذہبی نقطہ نظر سے سمجھاتا کہ راء گرچہ خنزیر ہے لیکن موت سے بچنے کے لئے لازم ہے اسے کھایا جائے اور اسی سانس میں راء کو ایک سانپ کے طور پر پیش کرتا آخر اداکاری گر خون میں شامل ہے تو قلم کی روشنائی میں کیوں نہیں۔ مگر صد شکر کہ میں دانشوری کا تاج سر پر نہیں سجایا وگرنہ سار ترکی طرح جنرل ڈیگال سے میں کیسے کہتا یہ الحاق نہیں جبر ہے۔ بس پھر ایک گولی کی مار تھا، ایک گولی ہی کو تو ضائع ہونا تھی مجھ پر۔
پس تحریر۔۔۔ پنجاب کے جتنے بھی دانشور ہیں وہ مختلف میدانوں میں مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں مگر بلوچستان کے الحاق کے معاملے میں، جمہوریت کے علمبردار ہوں یا آمریت کے پرستار، جدیدیت کے طلبگار ہوں یا قدامت کے جاں نثار، سب ایک ہی میدان میں ایک ہی نقطہ نظر کے حامل نظر آتے ہیں۔ یہاں سچ، مذہب، صوفی ازم، جمہوریت، لبرل، قدامت پرستی سب پچھلی گلی میں کہیں گم ہوجاتے ہیں۔ شاید یہ سرزمین کوئی سارتر نہ پیدا کرسکے گی۔۔۔
3 Comments