ملک سانول رضا
آج ڈاکٹر شاہ محمد مری کی کتاب “چین آشنائی” کا ذکر ہو جائے۔
سنہ 2007 کے سال سنگت اکیڈمی کوئٹہ کی شائع کردہ اس کتاب کے پیش لفظ میں ڈاکٹر مری لکھتے ہیں۔
امریکہ بدمست پاور ہے۔ اس کی بپا کردہ جنگ و جدل کی دنیا ہے اور انسانیت مذلت کی جانب دھکیلی جا رہی ہے۔ فکری و نظریاتی کنفیوژن کا دور دورہ ہے۔ جھوٹ حاوی ہے اور امن پسندی کا دور دورہ ہے۔ پاکی پاکیزگی گوشہ کی طرف دھکیلی جا رہی ہے۔ لاٹھی حکمران ہے۔ وسائل بری طرح لوٹے جا رہے ہیں اور انسانی اقدار کچلی اور روندی جا رہی ہیں.. … چین کا ہمارا سفر ایسے مواقع پر ہوا ہے۔
اکیڈمی آف لیٹرز کے اہتمام کردہ اس سفر میں مشتاق احمد یوسفی آپ کے ساتھ ہیں . ہمارا یہ بلوچ ادیب کوئٹہ سے اسلام آباد ائیر پورٹ پہنچنے پر اپنے استقبال کا ذکر یوں کرتے ہیں۔
اسلام آباد ائیر پورٹ پر ہجوم میں ہم اپنے نام کا پلے کارڈ ڈھونڈھ رہے تھے کہ پروفیسر مری پکار کر ایک شخص بغل گیر ہو گیا وہ پتلون زیب تن کئے ہوئے ایک سندھی تھا. پوچھا تو اس نے تصدیق کی میرا نام میر نواز ہے سولنگی قبیلے سے ہوں۔ارے بھئی سندھی تم کہاں اسلام کہاں اور آبادی کہاں ۔۔۔یہاں تو صرف انہی کو ہونا چاہئے جن کے لئے بنایا گیا تھا۔
آگے لکھتے ہیں
” سندھی جب بھی بلوچ سے ملے گا محبت سے ملے گا اس لئے سسی، شاہ لطیف اور مستیں توکلی ان دو قوموں کی دوستی صدیوں پہلے پکی کر چکے تھے میں اور میر نواز تو محض ان صوفیوں ولیوں کی سنت پر چل رہے ہیں اور چلنے پر پابند ہیں۔
وطن سے روانگی سے قبل دارالسطنت کی سیر کرتے شکر پڑیاں پہ ناموں کے کلپ خریدنے کا تذکرہ یوں کرتے ہیں
“میں نے سوچا کہ اسلام آباد میں شاہ محمد والے نام تو بہت کم ہونگے مگر میں نے جب اپنا نام بتایا تو دکاندار نے فورا ایک چین ڈھونڈ کے دی جس پر شاہ محمد کندہ تھا. ہم نے وہ بھی خریدی اور ایک خواتین والا کلپ بھی خرید لیا۔ جس پر میرے پھیپھڑوں کی آکسیجن کے مالیکیول کا اسم اعظم لکھا ہوا تھا۔۔۔ کی چین کو مارو پھول مگر جس گرم جوشی سے میں نے کلپ تھامی اور جس تکریم سے میں نے اسے جیب میں رکھا ،رانا شفیق بھانپ گیا. دکاندار کو مفت واپس کر دیا کہ کہیں کسی موزوں نوجوان کو اس نام کے کلپ کی ضرورت پڑے گی اور مبادا اسے نہ ملے ہم تو ویسے ہی مست کے بقول روحوں کے آوارہ ہیں۔
وگرنہ دل چاہے دوستوں سے کہوں : اپنے اپنے نکال لو اور اونٹوں کے مہار کاٹ دو یہ چودہ اونٹنیاں میری محبوبہ کی ایک قمیض بھی نہیں ہو سکتیں ہیں اور اگر ان کی فروخت سے کچھ رقم بچی تو اپنے لئے ایک صدری خرید لوں گا اور صدری کی جیب میں اپنی محبوبہ کے لئے مصری ڈال کے لے جاؤں گا:” پروفیسر مری قدم قدم پہ قاری کو احساس دلاتا ہے کہ اپنا فوک پڑھے بغیر تم کچھ بھی نہیں ہو۔
اپنے بلوچ ہونے پہ فخر اپنے انسان ہونے پہ نازاں اپنے پیار کو سات سروں میں بیان کرنے پہ قادر درد کو دل کی اتھاہ گہرائیوں تک محسوس کرنے والے ڈاکٹر مری اپنی تحریروں میں مظلوم پر ہونے والے ظلم کا برملا اظہار کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔
دوران سفر کا منظر اور اس منظر سے کشید کیا گیا درد ملاحظہ فرمائیں اسلام آباد سے پرواز بیجنگ کی طرف۔
“کھانے کا وقت ہو جاتا ہے میرا دوست اپنا دل اپنی آنکھیں نثار کئے ملائم اور شیریں و عاجز ترین آواز میں اس کی زبان میں اس سے بات کرتا ہے ۔ ان پر اور ان کے صدقے مجھ پر من و سلویٰ کی بارش ہو جاتی ہے. قیامت کھڑی کرنے والی ساقی بن مانگے اورینج جوس کے کوثر کے حوض سامنے رکھ دیتی ہے اس کے چھوٹے چھوٹے خوبصورت شفاف ہاتھ خوراک کی میز پر ایسے حرکت کرتے ہیں جیسے فلسفی غنی خان کی محبوبہ پیانو بجا رہی ہو۔ میرا دوست تو نگاہ کرم کے ہاتھوں اسی جوس کے نشے سے سرور میں آ جاتا ہے ۔اوجھل ہوتی ہے تو آنکھ لگ جاتی ہے جلوہ افروز ہوتی ہے تو دیدے پھٹ پھٹ جاتے ہیں چولستان کے سے بادلوں کی بس ایک بجلی چمکی اور پھر پانچ سال تک ایک جھلک بھی نہیں۔ خشک آبہ والوں کی نادیدگی کی دید نہ حسن کو ٹکنے دیتی ہے نہ بادلوں کو آنے دیتی ہے اور نہ رحمتوں کو برسنے دیتی ہے ہر نعمت کا حمل ضائع ہو جاتا ہے ہمارے وطن میں… کاش بلوچ پٹھان کی آنکھوں میں جنموں پرانی پیاس اور بھوک نظر آنا چھوڑ دیں.. .. البتہ آج دس ہزار میٹر کی بلندی پہ جا کے کھلا کہ عام سے کسی پٹھان کو خوشحال کون بناتا ہے حبیبی، ترکئی، ناشناس، غنی خان کون بناتا ہے. رحمان بابا کس پراسس میں ڈھلتے ہیں۔ ارے حسن ہی تو ہے اس قوت کا نام۔ غنی خان حسن کو یوں بیان کرتا ہے۔
یہ سبب مرگ یہ ضرورت حیات یہ تعریف گناہ یہ معنئی نور یہ وجود عشق یہ راز محبت یہ لذت سوز یہ ساز مستی۔
کبھی وہ کبھی جہاز کبھی وہ دونوں فضا میں انگڑائیاں لیتے رہے اور انہی دو کی مناسبت سے ہمارے دوست کے خیالات بھی۔آہ یہ انگڑائی دنیا کی سب سے ہنر مند رقاصہ کی زندگی بھر کے مجموعہ ہائے رقص کے ہزار گنا سے بھی زیادہ اوریجنل آرٹسٹک اور جاذب ہے۔ اس نے مجھ سے کہا میں آگے نہیں جانا چاہتا مجھے وقت اور اسے یہیں ساکت کر دو”
پروفیسر مری جنگ افیون اور برطانیہ کی ریشہ دوانیاں بڑی تفصیل سے بتاتے ہیں قاری کو تاریخ کے گہرے مطالعے کی ضرورت قدم قدم پہ محسوس ہوتی ہے۔ چین میں پاکستانی سفیر سے ملاقات کے لئے کہا گیا تو.. لکھتے ہیں۔
’’دل میں سوچا دفع کرو کوئی مُلا ہو گا یا پھر شیروانی پہنے کوئی سفارش و رشوت کا پالا جاگیرداری کا پلا مسلم لیگی ہو گا۔ ادب آداب سکھائے گا۔ نظریہ پاکستان سمجھائے گا وہی پسماندہ بیوروکریسی والی گلی سڑی باتیں ہونگی انہی سفیروں نے تو بیچ کھایا پاکستان کو ورنہ ہم عام پاکستانیوں کو بھلا سیٹو کا کیا پتا سینٹو کی کیا خبر تھی‘‘۔
شہر ظلمات کی سیر کے دوران ملکہ کے نہلانے کا تذکرہ یوں کرتے ہیں
“ملکہ عالیہ نہاتی کیسے تھیں یہ جاننا بہت ضروری ہے ورنہ چین کی موجودہ ترقی سمجھ ہی نہ آ سکے گی اور اگر عوام کی تذلیل کی گہرائی تک نہیں پہنچا جائے گا ان کے آج کے معراج کو کیسے ناپا جا سکے گا”
انسان پر انسان کی غیر فطری حکمرانی کا احوال دیکھیئے۔
’’فیوڈل حکمران خواہ لسبیلہ کے ہوں سندھ کے ٹالپر ہوں لکھنو کے نواب ہوں یا قندھار کے خان ۔ خلیجی ریاستوں کے شیخ ہوں یا چین کے بادشاہ ان سب کی ایک جیسی کارستانیاں ایک جیسے شوق اور مشغلے ہوتے ہیں گھڑ سواری سے لیکر تیتر پالی تک بھنگ بازی سے لیکر چکور پالی تک بلکہ ایک بادشاہ کو جھینگر پالنے شوقین بھی تھے‘‘۔
کیسے نفیس انداز میں اقبال کے شعر کا رد پیش کرتے ہیں۔
’’یہ لوگ ہماری ہزارہ برادری کی طرح شیعہ بھی نہیں ہیں بلکہ حیران کن بات تو یہ ہے کہ چین میں عوام کی واضح اکثریت کسی مذہب کو سرے سے مانتی ہی نہیں۔ بلکہ علامہ اقبال کے فلسفے کے بالکل الٹ وہاں دین و سیاست پچاس برس سے جدا جدا ہیں ۔۔۔مگر سارے نظریہ پاکستان والے نوائے وقتیے اس چنگیزی والے ملک کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔۔۔ برسبیل تذکرہ دنیا کی آج کی ساری ترقی یافتہ حکومتیں عملًا سیکولر حکومتیں ہی ہیں‘‘۔