امرتا شیرگل۔۔۔ فن اور شخصیت

سید حسن رضا زیدی

large-Amrita Sher Gil

امرتا شیر گل ہندوستان کے ممتاز مصوروں میں شامل ہیں جنہوں نے جدید آرٹ کی بنیاد رکھی جو مغرب اور مشرق کا حسین امتزاج ہے۔امرتا شیر گل30جنوری1913ء کو بڈاپیسٹ (ہنگری) میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد سردار امراو سنگھ شیرگل سکھ مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ اور ایک بڑے زمیندار تھے۔ ان کی والدہ ہنگری کی رہنے والی تھیں۔ ان کے شروع کے آٹھ سال یورپ میں گزرے، پھر1921ء کی جنگ کے بعد یہ خاندان ہندوستان واپس آیا اورشملہ میں رہائش اختیار کرلی۔ تعلیم بھی گھر پر ہی دی جاتی رہی۔ ان کا بچپن ہندوستانی طرز معاشرت سے مختلف تھا او ریہی وجہ ہے کہ ان کی شروع کی تصویریں مغربی طرز معاشرت سے زیادہ قریب نظر آتی ہیں۔ ان پر والد سے زیادہ والدہ کا اثر رہا، جس نے ان کے آرٹ میں مغرب کا رنگ زیادہ غالب کردیا۔

امرتاگل کی والدہ نے جب ان میں مصوری کا شوق دیکھا تو 1924ء میں چند ماہ کے لئے فلورنس بھیج دیا۔ جہاں انہوں نے اٹلی کی فن مصوری کی ایک ماہر استانی سے تربیت پائی۔ والدہ کی ہی فرمائش پر1929ء میں پیرس میں ایک آرٹ اسکول
(Ecole Nationale Des Eeaux Arts)
میں داخلہ لے لیا اس پانچ سال کے عرصے میں امرتا نے روغنی رنگوں کی تصویریں بنانے میں مہارت حاصل کرلی۔ تین سال تک(1929ء تا 1931ء) وہاں مصوری کی سالانہ نمائش میں پورٹریٹ اور اسٹل لائف میں پہلا انعام حاصل کرتی رہیں۔1932ء میں گرینڈ سیلون میں اپنی تصویروں کی ایک نمائش کی۔ اس میں ایک تصویر(گفتگو) کو سراہا گیا۔ اس کے ایک سال بعد ہی وہ اس سوسائٹی کی ممبر منتخب کرلی گئیں۔ اس وقت ان کی عمر19سال کی تھی۔

شیر گل1934ء میں ہندوستان واپس آئیں تو ان کے ذہن پر دو مشہور آرٹسٹوں سیزال اور گوگاں کا اثر تھا جو ان کی اس وقت کی تصویروں سے ظاہر تھا۔ ان دونوں فن کاروں کی تصویروں کی سادگی، قدرتی مناظر، رنگوں کی چاشنی اور امتزاج نے گل کی تصویروں کو متاثر کیا۔ چنانچہ1933ء کے موسم خزاں تک وہ سیزاں کے زیرِ اثر اپنا تخلیقی آرٹ پیش کرتی رہیں۔ لیکن1933ء اور1934ء کے موسم سرما میں اُنہیں گوگاں کے شاہکاروں نے اپنی طرف متوجہ کرنا شروع کیا اور یہ ان کے سحر میں گم ہوگئیں۔ گوگاں کی تصویریں گرم علاقے سے تعلق رکھتی تھیں جو ہندوستانی طرز معاشرت سے بہت مشابہ تھیں۔ وہی کتھی اور میٹالے رنگ، وہی غربت کے مارے بدن، وہی سورج کی تپش، وہی چہروں پر ازلی غم۔

گوگاں کو اپنی تصویروں کے لئے افریقہ میں اور امرتا شیر گل کو ہندوستان میں کافی مواد ملا۔ امرتا، گوگاں کی تصویروں میں ایسی ڈوبیں کہ جب ابھریں تو معلوم ہوا کہ گوگاں کے خط وخال جھلک رہے تھے۔ اور ایک دوسرا گوگاں ہندوستان میں ابھر رہا تھا۔ امرتا شیر گل کی اس وقت کی تصویروں میں کہیں غم اور تنہائی جھلکتی تھی اور کہیں لوگ ایک ساتھ ٹولیوں میں نظر آتے تھے اور کسی جگہ شبہیں مختلف سمتوں میں گھورتی ہوتی نظر آتی تھیں۔ وہی بڑے بڑے بالو،اوپر کو چڑھی ہوئیں بھویں، بال اور خاص انداز کے کپڑے، جسم کے خطوط اور اعضا کا تیکھا پن۔ یہی نہیں بلکہ رنگوں کی پلیٹ تک آپس میں مناسبت رکھتی تھیں، لیکن گوگاں کے یہاں قوتِ حیات، آرام اور لااُبالی پن جھلکتا ہے اور شیر گل کے یہاں سرد مہری، بے تعلقی اور ایک راہبانہ پن نمایاں ہے۔ ان کی تصویروں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اپنے جذبات پر پورا قابو تھا، اسی لئے ان کی تصویروں میں توازن پایا جاتا ہے۔

ان کے پانچ خاص شاہکار 1935ء اور1937ء کے درمیان وجود میں آئے۔ ان سب میں ان کی اپنی انفرادیت جلوہ گر تھی۔ اسی زمانہ میں شملہ فائن آرٹ سوسائٹی کی طرف سے امرتا شیر گل کو ان کی بعض تخلیقات پر انعام دیا گیا۔امرتا نے ایک جگہ لکھا ہے کہ’’جونہی میں نے ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھا اس وقت سے میری تصویروں میں خیالات اور رحجانات بدل گئے۔ ان میں فنی اور بنیادی حیثیت سے بھی ہندوستانی رنگ شامل ہوگیا۔ اس وقت سے میرے دل میں ایک نئی تحریک نے جنم لیا کہ میں اپنی تصویروں اور شاہکاروں کے ذریعہ ہندوستان کے غریب عوام کی ترجمانی کروں، ایسے عوام کی جو خاموش ہیں، صابر ہیں، جن کے جسم دھوپ کی شدت سے جھلس چکے ہیں جو زبان سے اف تک نہیں کرتے بلکہ جن کی آنکھیں ان کے دلوں کی ترجمان ہیں۔‘‘ ایک جگہ امرتا یہ بھی کہتی ہیں۔

’’میں نے ہندوستانی کسانوں کی ترجمانی اس طرح کی ہے جس طرح تھائی تیاں میں گوگاں نے کی۔‘‘ ایک او رجگہ یہ بیان کیا ہے:’’ہندوستان میں موسم سرما کا تصور اس طرح سے آتا ہے کہ بڑے بڑے میدان اداس اور خاموش دکھائی دیتے ہیں، جن میں دور تک پیلی پیلی چمکدار فصلیں کھڑی نظر آتی ہیں او رکسان جن کے میٹالے رنگ، اداس چہرے، دبلے پتلے جسم ہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرتے نظر آتے ہیں۔‘‘

امرتا شیر گل1936ء میں اجنتا اور ایلور اگئیں جہاں انہوں نے مشہور زمانہ مجسموں اور تصویروں کا مشاہدہ کیا۔ اس سفر نے ان کے آرٹ میں ایک نئے باب کا اضافہ کردیا۔ امرتا کے رنگوں میں ہم آہنگی اور امتزاج اجنتا ہی کی دین ہے، جسمانی ساخت میں وہی سادگی، باہری خطوط میں وہی زور اور اعضا کے وہی دائرے جو بعد میں ان کا اپنا ایک انداز بن گیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ ان کو مغل، راجپوت اورکانگڑہ اسکولوں کی چھوٹی تصویروں( منی ایچرز)اور ان کے شاعرانہ خیالات، عمدہ ترتیب اور خوبصورت رنگوں نے بھی بہت متاثر کیا تھا۔

amrita-shergill

امرتانے شملہ میں اپنے اسٹوڈیو’’سمرہل‘‘ میں جو بڑی بڑی تصویریں بنائیں ان میں’’پہاڑی مرد اورپہاڑی عورتیں، قابل ذکر ہیں۔ اس کے لئے امرتا نے پہاڑی لوگوں کو ہی اپنا ماڈل بنایا اور انہیں پینٹ کیا۔ گوگاں کی تصویر ’’دوتھائی تیاں عورتیں‘‘ اورامرتا کی تصویر’’پہاڑی لوگ‘‘ رنگوں کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہیں۔ ان میں پیلا، بہت ہلکا، نیلا، برف کی مانند رنگ ایک عجیب سماں پیدا کردیتا ہے۔

ایک تصویر میں’’پہاڑی عورتیں‘‘ پیلے ہلکے ہرے اور بھورے رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے او رہاتھ میں گیروے رنگ کا ایک مٹی کا برتن لئے ہوئے ہیں، بیچ کی شبیہہ میں ایک کالے ہرے رنگ کی عورت ہے اور اس کے سامنے ایک لڑکی ہلکے ہرے اور پیلے رنگ کا دوپٹا اوڑھے ہوئے دکھائی گئی ہے۔ اس کو دیکھ کر گوگاں کی تصویر’ کبھی نہیںٗ یاد آجاتی ہے، جس میں اسی قسم کے رنگوں کی آمیزش سے کام لیا گیا ہے اس کے علاوہ’’پہاڑی مرد‘‘ میں امرتا نے بعض رنگ گوگاں کے انداز کے استعمال کئے ہیں مگر زیادہ تر رنگ وہ ہیں جن میں خود گل کی اپنی انفرادیت نمایاں ہے۔

اس کے علاوہ دو اور تصویریں’’تین لڑکیاں‘‘ اور چھوٹی عمر کی دلہن(بالک دلہن یا بال استری) بھی اسی زمانہ کی تصویریں ہیں(بال استری) میں دس گیارہ سال کی ایک شادی شدہ لڑکی دکھائی گئی ہے جو اداس اور خاموش بیٹھی ہے۔ سیاہ بکھرے ہوئے بال اور سیاہ آنکھیں جو خلا میں گھوررہی ہیں اس کے دلی جذبات کی غماز ہیں۔ ایک بہت ہی سوگوار ماحول پیدا کردیا گیا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بچپن کی شادی وقت سے پہلے بوڑھا بنادیتی ہے۔

رنگ بہت گہرے اورگوگاں سے بہت متاثر ہیں۔ شیر گل کو شمالی ہندوستان اور جنوبی ہندوستان دونوں جگہوں کے دیہات نے بہت متاثر کیا تھا۔ وہ 1937ء میں جنوبی ہند گئی تھیں اور وہاں سے بہت سے اسکیچ اپنے ساتھ شملہ لائی تھیں جنہیں بڑی بڑی تصویروں کی شکل میں پینٹ کیا ہے۔ ان میں’’دلہن کا سنگار‘‘ ’’برہم چاری‘‘ اور ’’جنوبی ہند کے دیہاتی بازار کو جاتے ہوئے‘‘ قابل ذکر ہیں۔ اس طرح کی تصویریں پینٹ کرنے کا مقصد یہاں کے اونچے طبقے کو عوام کی صحیح تصویریں دکھانا تھا۔ ایک تصویر ’’دلہن‘‘ میں زندگی کا سوزوگداز دکھایا گیا ہے۔ مستقبل کے خواب آنکھوں سے عیاں ہیں۔ ایک عجیب قسم کا انتظار نمایاں ہے۔

ان کی معرکہ آرا تصویر’’برہم چاری‘‘ ہے۔ اس میں پانچ بیٹھی ہوئی شبہیں خیالات میں غرق دکھائی گئی ہیں۔ جن کے چہروں پر ایک ربانی کیفیت ہے۔ ننگے بدن دنیا ومافیہا سے بے نیاز، ماتھے پر تلک، یہ سب مل کر ایک عجیب ماحول پیدا کررہے ہیں۔ تصویریں سفید، بھورا اور گیرواخاص رنگ ہیں۔

1937ء اور 1938ء کا زمانہ شیر گل کی تخلیقی قوت اور فن کی پختگی کا دور کہا جاسکتا ہے۔ اس عرصہ میں انہوں نے شملہ اور شملہ کے اطراف کی منظر کشی بڑی خوبی سے کی ہے۔ ایک تصویر میں شملہ کے جاڑے کا منظر دکھایا ہے۔ حد نظر تک سفید برف دکھائی دے رہی ہے او رگہرے کتھی رنگ سے سیدھے سیدھے درخت دکھائے گئے ہیں۔ جن پر کہیں ہریالی نظر نہیں آتی اور جو بہت خاموش اور ساکت نظر آتے ہیں ان کے بیچ سے ریل کی پٹریاں گزرتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ ساتھ ساتھ بجلی کے کھمبے بھی نظر آرہے ہیں۔

دور ایک مکان دکھائی دیتا ہے جس کی چھت ڈھلواں اور برف سے ڈھکی ہوئی ہے۔ قریب کے درخت پر ایک کتھی رنگ کا کوّا اتنہا بیٹھا ہے۔ پورے ماحول پر ایک سکون اور خاموشی طاری ہے جو برف باری کے بعد ہی پیدا ہوسکتی ہے۔ شملہ ہی کے ایک دوسرے لینڈاسکیپ(منظر کشی ) میں سیدھے سیدھے دیودار، صنوبر اور چیڑ کے درخت ایک عجیب سماں پیدا کررہے ہیں۔ گہرے ہرے نیلے رنگ کے سیدھے اور قد آور درخت قدرت کی نیرنگیوں کو ظاہر کررہے ہیں۔

پس منظر کی زمین کو سرخ رنگ سے دکھایا گیا ہے اور اس کے پیچھے بھی دور بہت دور چھوٹے چھوٹے گہرے، ہرے رنگ کے درخت بہت حسین معلوم ہوتے ہیں۔ قریب ہی بالکل سامنے درختوں کے نیچے ایک پہاڑی عورت کمر پر ایک ٹوکری رکھے چلی جارہی ہے۔ رنگوں میں تضاد ہے مگر اس خوبصورتی سے اسے کینوس پر لگایا گیا ہے کہ ایک عجیب رومانی فضا پیدا ہوگئی ہے پورے ماحول پر شام کی ایک دھندلی سی کیفیت طاری ہے۔ اس کو دیکھ کر فراق گورکھپوری کا ایک شعر یاد آجاتا ہے۔

شام بھی تھی دھواں دھواں، حسن بھی تھا اداس اداس
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آگے رہ گئیں

امرتا کے پورٹریٹ(شبہیوں)کا بھی اپنا ایک مقام ہے ان میں بڑی حقیقت پسندی اور ندرت ہے۔ انہوں نے خود اپنی بھی تین چار تصویریں (پورٹریٹ) بنائی ہیں۔ ایک میں کینوس پہ کام کررہی ہیں ، دوسری میں مسکراتی ہوئی بالوں میں کنگھا کررہی ہیں۔ ایک میں ان کی بہن بیٹھی ہیں۔ ان سب میں مغربیت کو زیادہ دخل ہے۔ اسی انداز کے رنگ، برش کا ویسا ہی استعمال۔

امرتا شیر گل گفتگو میں جذباتی، تنقیدی اور آمادہ پیکار نظر آتی تھیں مگر اپنی تخلیقات میں بے حد متوازن، بلکہ بعض میں تو بالکل ساکت اور خاموش نظر آتی ہیں۔

amarta
امرتا1938ء میں اپنے ماموں زاد بھائی ڈاکٹر وکڑاایکن سے شادی کرنے ہنگری گئیں۔ وہاں سے سال بھر بعد1939ء میں دونوں ہندوستان واپس آئے اور سرایا (گورکھپور) میں سکونت اختیار کرلی، جہاں ان کے والد کی زمینداری تھی۔1941ء میں گل لاہو رچلی گئیں او ریہیں اسی سال5دسمبر کو نمونیا میں چند دن مبتلا رہ کر وفات پاگئیں۔

امرتا ایک ایسا روشن ستارہ ہیں جو آرٹ کے افق پر طلوع ہوتا ہے۔ دوسروں کو منزل کا سراغ دیتا ہے اور اپنا چاوداں نقش چھوڑجاتا ہے۔’’نیشنل گیلری آف ماڈرن آرٹ‘‘ نئی دہلی میں ان کی تخلیقات اور شاہکار فنی نمونے محفوظ ہیں۔
*

One Comment