فلم آرکائیوز کی ضرورت

زاہد عکاسی

Blog_158
دنیا کا ہر ادارہ اپنے اصل کام کے ساتھ ساتھ ایسی یادگار چیزوں کو جمع بھی کرتا رہتا ہے جس کے ذریعے آنے والی نسلیں اپنے ماضی کی ان کوششوں اور جدوجہد کا اندازہ لگا سکتی ہیں جو کہ ان کے پرکھوں نے انجام دی تھیں۔ ماضی کی ان چیزوں کو عجائب خانوں میں محفوظ کیا جاتا ہے اور اسے آرکاےؤز کا نام دیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں فلم انڈسٹری ایک ایسا شعبہ ہے جسے ماضی میں بھی گناہ کبیرہ سمجھا جاتا تھا اورآج بھی حتیٰ کہ آج فلم انڈسٹری بالکل ہی بند ہوگئی ہے۔ سال میں جو ایک آدھ فلم ریلیز ہوتی ہے وہ اس قابل نہیں ہوتی کہ دیکھی جاسکے۔ چند ایک فن کار جو کسی چینل کے تعاون سے اچھی فلم بناتے ہیں وہ سینما میں ایک آدھ ہفتہ نمائش پذیر ہونے کے بعد اسی چینل کی زینت بن جاتی ہے۔

پاکستان فلم انڈسٹری ایک خودرو پودے کی طرح بڑھی پھولی ہے جس طرح خودرو پودے کی کوئی مالی دیکھ بھال نہیں کرتا اس طرح اس انڈسٹری کی نہ تو کسی نے دیکھ بھال کی اور نہ ہی کسی حکومت نے اس کو سنجیدگی سے لیا اورانڈسٹری کا درجہ دینے کی زحمت گواراکی۔1947ء میں بمبئی سے ہجرت کرکے آنے والے کچھ فلمسازوں نے یہاں کے آتشزدگی کا شکار ہوئے سٹوڈیوز پر شوبز کی عمارت استوار کرنے کی کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے لیکن ایک سال تک کوئی کام نہ ہوسکا۔ البتہ دلسکھ پنجولی کا سٹوڈیوز جو ہنگامہ کرنے والوں کی نظر سے اوجھل رہا تھا اور اُس کے مالک کو خوفزدہ کرکے کچھ عناصر نے بھگادیا تھا یہاں پاکستان کی پہلی فلم ’’تیری یاد‘‘ کی شوٹنگ شروع کی۔ اس فلم کے ہدایت کار داؤد چاند تھے جبکہ ہیروئن آشاپوسلے اور ہیرو دلیپ کمار (یوسف خان )کے بھائی ناصر خان تھے یہ فلم دو ستمبر1948ء کو ریلیز ہوئی اور ناکام ہوگئی۔ ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ستمبر1948ء کو قائداعظم رحلت فرما گئے اور یوں سینما ہال بند ہونے کی وجہ سے یہ فلم زیادہ عرصہ نمائش پذیر نہ ہوسکی۔

شاہ نور سٹوڈیوز جس کا نام شوری سٹوڈیوز تھا ملکہ ترنم نور جہاں اور ان کے شوہر سید شوکت حسین رضوی کوالاٹ ہوا تھا۔ اس سٹوڈیو میں فلم ’’ دوپٹہ‘‘ کا آغاز ہوا جس میں ہیروئن خود نور جہاں تھی۔ پھر ڈبلیو زیڈ احمد نے کواپریٹوز ڈیپارٹمنٹ کے تعاون سے فلم’’ روحی‘‘ تیار کی۔ یہ فلم مشرقی پاکستان میں نمائش کیلئے ممنوع قرار دے دی گئی جبکہ مغربی پاکستان میں فلاپ ہوگئی۔ اس پر پابندی لگانے کا جواز یہ بتایا گیا کہ یہ قیام پاکستان کے نظریہ کے خلاف ہے۔ اس کے بعد میڈم نور جہاں کی ہدایت میں پنجابی فلم’’ چن وے‘‘ مکمل ہوئی جو کافی مقبول ہوئی۔ اس کا گیت ۔تیرے مکھڑے تے کالا کالاتل وے، وے منڈیا سیالکوٹیاکافی مقبول ہوا۔

ڈبلیوزیداحمد نے ایک اور معیاری فلم ’’دعویٰ‘‘ بنائی جبکہ ایم اے رشید نے ’’آس پاس‘‘ مکمل کی۔ آس پاس بھارتی فلم’’ ہم لوگ‘‘ سے متاثر ہوکر تیار کی گئی تھی اور اس سے بہتر تھی۔ یہ پاکستان میں بائیں بازو کی پہلی فلم تھی جسے محفوظ کرنے کی ضرورت تھی۔ اس کے بعد پاکستان کی قومی یکجہتی پر فلم’’پھولے خان‘‘ بنائی گئی جبکہ ہند وپاک کی تقسیم پر فلم ’’کرتا رسنگھ‘‘نے بھی لوگوں کو ہلاکر رکھ دیا۔پھولے خان کی کہانی حزیں قادری نے کچھ اس طرح سے لکھی تھی کہ جو انجام اس فلم میں دکھایا گیا تھا چودہ برس بعد ہی یہی حشر پاکستان کا ہوا یعنی بنگلہ دیش کی شکل میں مشرقی پاکستان الگ ہوگیا۔

اس فلم کی کہانی کچھ یوں تھی کہ پاکستان کے پانچ صوبوں کے نوجوان مل کر ایک کاربناتے ہیں اور پھر سندھی، بلوچی، پٹھان، پنجابی اور بنگالی مل کر اس میں گھومتے ہیں۔ ایک موقع پر بنگالی ان سے ناراض ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے حصے کے پہیے میرے سپرد کردو۔ پہیے اتار کر اسے دے دئے جاتے ہیں اور گاڑی رک جاتی ہے۔ پھر ان میں صلح ہوتی ہے تو گاڑی دوبارہ چلنا شروع ہوجاتی ہے جبکہ مشرقی پاکستان ناراض ہوا تو نوبت علیحدگی پر پہنچ کر ہی ختم ہوئی اور فیض احمد فیضؔ کو کہنا پڑا۔ خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

ریاض شاہد اور خلیل قیصر میدان میں آئے تو سسرال، فرنگی، شہید جیسی فلموں نے ریکارڈ قائم کئے۔ ریاض شاہد نے بطور ہدایتکاردہشت،زرقا اور یہ امن تیار کیں۔ زرقا فلسطینوں کی جدوجہد آزادی پر تھی جس میں حبیب جالب کی وہ نظم بھی کچھ تبدیلی کے بعد رکھی گئی تھی جو ایوب شاہی کے زمانہ میں نیلو پر لکھی گئی تھی کہ اُس نے شہنشاہ ایران کی آمد پر اُس کے سامنے رقص کرنے سے انکار کردیا تھا۔تو کہ ناواقف آداب شہنشاہی تھی،رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے

اس طرح پرویز ملک کی پہچان، تلاش،پاکیزہ، انمول اور فضل کریم فضلی کی ’’چراغ جلتا‘‘ رہا نے لاتعداد فن کار متعارف کرائے جن میں زیبا، محمد علی، وحید مراد، دیبا اور دیگر ادا کار شامل ہیں۔

فیض احمد فیض کی جاگو ہوا سویرا، قسم اس وقت کی ، پریت کی ریت قابل ذکر ہیں۔’’ جاگو ہوا سویرا‘‘ باقاعدہ آرٹ فلم تھی جس کے ہدایت کار اجے کاردار تھے جبکہ ’’ہیررانجھا‘‘ نے بھی کلاسیکل فلم کی حیثیت حاصل کی۔

شروع کے سالوں میں پاکستان کی فلم انڈسٹری نے کافی معیاری فلمیں پیش کیں لیکن آہستہ آہستہ یہ معیار کم ہوتا گیا۔ دراصل شروع میں بھارت سے بھی فلمیں پاکستان آتی تھیں اور پاکستانی فلمسازوں کو ان کا مقابلہ کرنے کیلئے مجبوراً معیاری فلمیں بنانا پڑتی تھیں۔ لیکن1965ء کی جنگ کے بعد جب پرانی اور نئی بھارتی فلموں پر پابندی لگادی گئی تو یہ معیار ختم ہوگیا۔ اب جوجی چاہئے فلمساز بناتے تھے اور یہ فلمیں مارکیٹ میں نمائش پذیر ہوتی تھیں۔ خطرناک، خان زادہ اور نواب زادہ جیسی فلموں نے نہ صرف معیار خراب کیا بلکہ فحاشی اور لچرپن کو بھی رواج دیا ۔ بھارتی فلموں پرپابندی کی وجہ سے یہاں ان کے چربے تیار ہونے لگے۔1974ء میں جب سٹیٹ فلم اتھارٹی نے راقم سے چربہ فلموں کی فہرست مانگی تو راقم نے ایک سو سے زائد چربہ فلموں کی لسٹ فراہم کی تھی۔

احمد بشیر نے ’’نیلا پربت‘‘ کا آغاز کیا تو اس کی تیاری میں کافی مشکلات پیش آئیں۔ ممتاز مفتی کی کہانی کو ہدایت کار نے عجیب انداز میں فلمایا تھا۔ یہ ایک نفسیاتی کام تھا۔ جس کو فلم بین طبقہ نے قبول نہیں کیا تھا لیکن یہ فلم ایک آرٹ فلم تھی۔ اس طرح کی کچھ اور فلمیں بھی تیار ہوئیں۔ سنگیتا نے ’’سوسائٹی گرل‘‘ اور’’ مٹھی بھرچاول‘‘ پیش کرکے اچھی فلموں کی تعداد میں اضافہ کیا۔ جنرل ضیاء کے دور میں تو اندھا دھندقینچی استعمال کی گئی۔ مثلاً میری ہی ایک فلم میں جن گیتوں میں جام اواٹھا کے الفاظ آئے انہیں سنسرنے کاٹ دیا۔ یہی حال دیگر فلموں کا ہوا اور یہیں سے فلموں کا زوال شروع ہوگیا۔

اب جبکہ سٹوڈیوز پر تالے پڑگئے ہیں۔ سال میں چند فلمیں ہی تیار ہوپاتی ہیں۔ پشتو فلموں والے اپنا بوریا بستر پشاور لے گئے ہیں۔ فلم انڈسٹری مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کل فلموں کی تیاری نہ ہونے کے باوجود مختلف اداروں میں فلم میکنگ کی کلاسز شروع ہوچکی ہیں۔ این سی اے کے علاوہ بیکن ہاؤس، لمز میں بھی طلباء طالبات کو کیمرے، ہدایت کاری، ٹاک شوز، تدوین وغیرہ کی تربیت دی جارہی ہے۔ یہاں سے فارغ التحصل نوجوان فلم انڈسٹری کی طرف تو جا نہیں سکتے کہ وہاں اُلو بول رہے ہیں البتہ وہ مختلف پرائیویٹ چینلوں کا رخ ضرور کرتے ہیں۔

بہرحال کچھ بھی ہو یہ سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ 65سالوں کے دوران کسی حکومت یا آرٹ کے کسی ادارے نے یہ زحمت گوارا نہیں کی کہ یہاں جو اچھی فلمیں تیار ہوتی ہیں۔ ان کو ایک میوزیم یا آرکائیوز کی شکل میں محفوظ کرلیا جائے۔ سناہے پاکستان کو نسل آف آرٹس نے اس بارے میں سوچا تھا لیکن اس پر بھی عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ کیونکہ اس کیلئے بھی فنڈز کی ضرورت ہے۔

Comments are closed.