محمد شعیب عادل
نومبر 2013 میں جب آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالا تو حسب روایت پاکستانی میڈیا نے انہیں ایک پیشہ ور سپاہی کا خطاب دیا جس کا کام سیاست نہیں ملکی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہوتا ہے ۔مگر پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں طاقت کا اپنا نشہ ہوتا ہے جس کے لیے کسی اصول و ضابطہ کی اہمیت نہیں ہوتی ۔ لہذا جیسے جیسے وقت گذرتا ہے تو نئے آنے والے فوجی سربراہ کی سیاست میں دلچسپی گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔
جنرل راحیل شریف کے متعلق بتایا گیا کہ وہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے میں سنجیدہ ہیں اور قوم کو ایسٹیبلشمنٹ کی پچھلے چودہ سالوں کی دوغلی پالیسیوں سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔ وہ اچھے اور برے طالبان کی تمیز بھی ختم کر چکے ہیں۔لہذا نواز حکومت کی طرف سے طالبان کے خلاف کسی فیصلہ کن آپریشن میں لیت ولعل کے بعد انہوں نے اپنے طورسے جون 2014 میں آپریشن، ضرب عضب، شروع کر دیا۔
ذرائع ابلاغ نے جنرل راحیل کو پاکستان کے ایک نئے نجات دہندہ کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا ۔آپریشن ضرب عضب سے طالبان یا انتہا پسندی کا خاتمہ تو نہ ہوسکا الٹا سیاسی حکومت اور سیاستدانوں کو قابو کرنا شروع کر دیا اور جو سیاست دان مزاحمت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ان کے خلاف کرپشن اور بیڈ گورننس کا الزام لگا کر اپنے پرودرہ میڈیا کے ذریعے ان کے خلاف مہم شروع کر دی جاتی ہے۔اس مہم میں آزاد عدلیہ بھی اپنا کردار اداکرنا شروع ہو جاتی ہے۔ حال ہی میں نیب نے 150 کرپٹ سیاستدانوں کی فہرست سپریم کورٹ میں پیش کی ہے جن پر کرپشن کے تحت مقدمات قائم ہیں لیکن کسی میں اتنی جرأت نہیں کہ کسی جرنیل کی کرپشن پر ہی کوئی رپورٹ تیار کر لیں۔ کوئی بھی یہ سوال اٹھانے کو تیار نہیں کہ ایک ایسا ادارہ جس کی اپنی کارگردگی سوالیہ نشان ہو وہ بیڈ گورننس اور کرپشن کا واویلا کس حیثیت میں کرتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جب سے جنرل راحیل شریف نے آرمی چیف کا عہدہ سنبھالا ہے اس خطے میں امن کی بجائے غیر یقینی کی کیفیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ہمسایہ ممالک، افغانستان اور بھارت، کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی بجائے مخاصمت بڑھی ہے۔ نواز شریف کی طرف سے وزیر اعظم مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت طاقتور حلقوں کو ہضم نہ ہو سکی اور ہمیشہ کی طرح ایسی صورتحال پیدا کر دی گئی ہے کہ تعلقات میں بہتری کی بجائے مزید تلخی پیدا ہوگئی ہے۔ماضی کی طرح ایک بار پاکستان کی ہر خرابی کا ذمہ دار بھارتی ایجنسی راء کو ٹھہرا یا جا رہا ہے۔
پاکستان کی کشمیر اور افغانستان میں مداخلت کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ لشکر طیبہ یا جماعت الدعوۃ کشمیر میں دہشت گردی میں ملوث ہیں بلکہ کشمیر میں مرنے والے مجاہدوں کی لاہور میں غائبانہ نما ز جنازہ بھی ادا کرتے ہیں۔ حافظ سعید شہر شہر جہادیوں کی بھرتی کی منادی کراتے ہیں۔ ممبئی حملوں کا ماسٹر مائنڈ رہا ہو چکاہے۔مولانا مسعود اظہر بھی بہاولپور میں تبلیغ کررہے ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی بھی پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی پر طالبان کی پشت پناہی کا الزام لگا رہے ہیں ۔ افغان طالبان بدستور افغانستان میں اپنی کاروائیوں میں مصروف ہیں۔ جبکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ افغان طالبان نہ تو ہماری سرزمین پر موجود ہیں اور نہ ہی ان پر ہمارا کنٹرول ہے لیکن ہم انہیں مذاکرات کی میز پر لا سکتے ہیں۔حالیہ موسم گرما کے آغاز کے ساتھ ہی طالبان نے افغانستان میں حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔اطلاعات کے مطابق طالبان نے شمالی اور جنوبی افغانستان کے کچھ علاقوں میں پیش قدمی کی ہے لیکن کابل یا اس کے گرد ونواح کے حملوں میں افغان فورسز پسپا نہیں ہوئیں بلکہ انہوں نے پاکستان کے مقابلے میں افغان طالبان کو منہ توڑ جواب دیا ہے۔
افغان پارلیمنٹ پر حملے کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے انتہائی مایوسی کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے پچھلے چودہ سالوں سے افغانستان کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ جاری رکھی ہوئی ہے اور قیام امن کے لیے طالبان سے پہلے پاکستان سے بات چیت کی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ امن معاہدہ بھائی سے نہیں ہوتابلکہ ان سے ہوتا ہے جن کے ساتھ جنگ ہوتی ہے ۔ پاکستان نے پہلے ہی سے افغانستان کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ شروع کر رکھی ہے ۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم پاکستان کے ساتھ امن معاہدہ کریں تاکہ طالبان امن پر راضی ہوں‘‘ ۔ ایک اور موقع پر انہوں نے کہا کہ پاکستان اس خطے میں امن کے لیے سنجیدہ نہیں ہے۔اگر پاکستان واقعی افغانستان میں امن چاہتا ہے تو پشاور اور کوئٹہ میں موجود طالبا ن رہنماؤں کی سرگرمیوں پر پابندی لگائے اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی کرے۔
ان حالات و اقعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان اپنی نام نہاد دفاعی گہرائی کی پالیسی ترک کرنے کو تیار نہیں۔ افغان حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے کئی دورکر چکی ہے مگر طالبان کی سخت شرائط کی بدولت یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتے۔ طالبان کا یہ کہنا کہ امریکی فورسز افغانستان سے نکلیں اور امریکہ اور بھارت افغان فوجیوں کی تربیت نہ کرے ،افغان حکومت کے لیے ناقابل قبول ہیں۔
سترہ جون کو اوسلو میں امن کانفرنس میں افغان حکومت کے ساتھ ساتھ افغان طالبان کا وفد بھی شریک ہوا ۔ بی بی سی کے مطابق افغان طالبان کے نمائندے کا کہنا تھا کہ’’ ہم نے افغانستان میں بیرونی مداخلت کے خلاف جنگ کی ہے لہذا ہمارا اصرار ہے کہ بیرونی جارحیت ختم ہو( یعنی امریکی فوجیں یہاں سے جائیں اور بھارتی اداروں کا عمل دخل ختم کیا جائے) اور اتفاق رائے سے ایک اسلامی ، سیاسی اور اقتصادی نظام بنایا جائے تو معاملہ طے ہو سکتا ہے‘‘۔اب اسلامی ، سیاسی اور اقتصادی نظام کا مطلب جمہوریت کی نفی ہے۔جس کا مطلب اس خطے میں فساد برپا کیے رکھنا ہے۔طالبان کی یہ شرائط پاکستانی ایسٹیبلشمنٹ کی خواہشات ہیں جن کی وجہ سے یہ خطہ مسلسل جنگ کا شکار چلا آرہا ہے جس کا خمیازہ اس خطے کے غریب عوام قتل و غارت، بھوک اورننگ کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔
آپریشن ضرب عضب کو ایک سال سے زائد کاعرصہ ہو چکاہے یہ درست ہے کہ اندرون ملک دہشت گردی میں کمی ہوئی ہے لیکن پاکستانی طالبان کا انفراسٹرکچر اسی طرح مربوط و منظم ہے جیسا کہ آپریشن سے پہلے تھا اور ان کی تمام قیادت وقتاً فوقتاً اپنے بیانات جاری کرتی رہتی ہے۔یہ کہا جاسکتا ہے کہ آرمی نے انہیں کنٹرول کر لیا ہیکیونکہ ملک کے اندر کالعدم مذہبی تنظیمیں لشکر طیبہ، سپاہ صحابہ ، لشکر جھنگوی (زیادہ تر نام بدل کر) بدستور اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔بنیادی طور پر پاکستان کی مذہبی تنظیموں اور طالبان، پاکستانی ہوں یا افغان طالبان، نظریاتی طور پر ایک ہیں اور ان تمام کا آپس میں ایک نظریاتی رشتہ ہے اور آپس میں رابطہ موجود ہے۔
شاید پاکستانی عوام کو یادہو کہ پاک فوج نے کوئی آٹھ سال پہلے 2007 میں سوات میں بھی دہشت گردوں کے خلاف ایک بڑا آپریشن شروع کیا تھا اور اسی طرح کامیابی کے دعوے کیے گئے تھے جیسے کہ موجودہ آپریشن ضرب عضب کے متعلق کیے جارہے ہیں۔ مگر وقت نے یہ ثابت کیا کہ آپریشن کا مقصد طالبان یا انتہا پسندی کا خاتمہ نہیں بلکہ انہیں کنٹرول کرنا ہے تاکہ انہیں اپنی مرضی کے مطابق استعمال کیا جائے۔یہ درست ہے کہ طالبان کو سوات سے بھگا دیا گیا مگر ان کا تنظیمی ڈھانچہ یا انفراسٹرکچر بدستور قائم و دائم رہا۔ آپریشن صرف اس وقت ناگزیر ہو جاتا ہے جب وہ اپنے طور پر فیصلے کرنے لگ جائیں۔