ارشد لطیف خان
ابن خلدون کے نظریات
عبدالرحمن ابن خالد المعروف ابن خلدون 27مئی1332 میں تیونس میں پیدا ہوا۔ ابن خلدون کی عظمت کااندازہ مشہور مورخ پروفیسر ٹاٹن بی کے ان الفاظ سے لگایا جاسکتا ہے:۔
’’فلسفہ عمران میں ابن خلدون کا کوئی پیش رو نہیں ہے، اپنے مقدمہ تاریخ میں اس نے جو فلسفہ پیش کیا وہ اپنی نوعیت کا عظیم ترین فلسفہ ہے جس کی نظیر تاریخ میں کہیں نہیں ملتی‘‘۔
ٹائن بی کہتا ہے:۔
عربی لٹریچر ایک ہی آدمی کے نام سے روشن ہے اور وہ ہے ابن خلدون! عیسائی دنیا اس کی نظیر پیش نہیں کرسکتی۔ حتی کہ افلاطون‘ ارسطو اور آگسٹائن بھی اس خصوص میں اس کے ہم پایہ نہ تھے‘‘۔
رابرٹ فلنٹ کے الفاظ میں :۔
’’ازمنہ وسطیٰ میں ابن خلدون کو وہی مقام حاصل ہے جو شاعری میں دانتے کو اور تجرباتی سائنس میں راجر بیکن کو‘‘۔
ابن خلدون کے فکری کارناموں پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں اس کی شخصیت کی تین مختلف جہات نظر آتی ہیں۔ اول مورخ کی حیثیت سے‘ دوم فلسفہ تاریخ کے بانی کی حیثیت سے‘ سوم عمرانیات میں امام وپیشرو کے اعتبار سے۔
ابن خلدون نے نہ صرف تاریخی واقعات کو بیان کیا بلکہ ان واقعات میں ربط وتعلیل کا جو سلسلہ ہوتا ہے اس کو بھی دریافت کیا اور نہایت کشادہ دلی سے تمام واقعات کو بیان کرتا چلا گیا۔ قرون وسطیٰ کے عیسائی مورخین کی صلیبی جنگوں کے بعد لکھی گئی تاریخ کی کتابوں پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے کس درجہ حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی جبکہ ابن خلدون کی تاریخ نگاری میں ہمیں اس قسم کی کوئی بات دکھائی نہیں دیتی۔ اس کی اس خوبی کا اعتراف ڈوزی نے بھی کیا ہے:
قرون وسطیٰ کے عیسائی مورخین اس قابل نہیں ہیں کہ اس خصوص میں ان کوابنِ خلدون کے مقابلہ میں پیش کیا جاسکے‘‘۔
عمرانیات میں ابنِ خلدون کے فکری سرمایہ کو نظر میں رکھتے ہوئے بڑے بڑے مستشرقین کو بھی یہ مانتے ہی پڑی کہ ارسطو سے لیکر میکاولی اور مانیٹیسکو تک اس کا کوئی حریف نظر نہیں آتا۔
معاشرے کی ترقی کے بارے میں ابن خلدون لکھتا ہے: ۔
’’معاشرہ اپنی معنوی وجودی علتوں کا تابع ہے۔ اس لیے اس کا وجود اور ترقی بخت واتفاق پر منحصر نہیں وہ اپنے وجود اور ترقی کے ہر مرحلے پر معنوی رشتوں سے منسلک اور وابستہ رہنے پر پابند ہے اور نظم وضبط کے آئین وقوانین کا پابند ہو‘‘۔
قوموں کے عروج وزوال کے بارے میں اس کے یہ الفاظ گویا سونے کے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں:۔
’’جب کسی جماعت میں زندگی اور کائنات کے حقائق سے فائدہ اٹھانے کا ملکہ اور جذبہ باقی نہ رہے تو اس کا تنزل شروع ہوجاتا ہے۔ چوتھی صدی ہجری سے مسلمانوں میں تحقیق وانکشاف کی بجائے نقالی کا دور شروع ہوا جس کا نتیجہ ہبوط وپستی کی صورت میں ظاہر ہوا اور مرورزمانہ کے ساتھ پختہ تر ہوتا چلا جارہا ہے‘‘۔
معاشرے کے قوانین کے سلسلے میں لکھتا ہے:۔
’’نظم اجتماعی کے قائم ہونے کے لئے اعلیٰ درجے کی ذہنی قابلیت درکار ہے۔ اس کی بہترین تدبیر یہ ہے کہ معاشرہ تعلیمی طریقے سے کام لے اور اسے نظم اجتماعی کی نشوونما کا ذریعہ بنائے‘‘۔
ابن ارشد کی طرح ابن خلدون نے بھی حقیقت دوگونہ کا ایک نیا تصور پیش کیا۔اس نے کہا انبیاء کی تعلیمات کی ضرورت صرف انہی کاموں میں پڑتی ہے جس کا تعلق آخرت سے ہے۔ جہاں تک دنیاوی معاملات کا تعلق ہے انسان انبیاء کی تعلیمات کا محتاج نہیں ہے۔ اس دعوے کے ثبوت میں وہ یہ دلیل دیتا ہے کہ دنیا میں ایسی اقوام بھی ترقی کررہی ہیں جہاں کوئی پیغمبر نہیں آیا۔
ابن خلدون کے اس تصور کو فرانس میں قاموسیوں کے پیش رو ’’پائرے بیل‘‘ نے آگے بڑھایا اور سائنسی عقلیت پسندی کی بنیاد رکھ دی۔ جس پر سائنس کی عمارت تعمیر ہوئی۔ مگر ابن خلدون کی تعلیمات مسلمانوں میں جگہ نہ بناسکیں اور جس روشن خیالی اور وسعت نظر کی وہ تعلیم دیتا تھا اس کی چمک بھی کہیں دیکھنے کو نہیں ملتی۔
ابن سینا کے نظریات
ابن سینا عالم اسلامی کی ایسی زمانہ ساز شخصیت گذری ہے جس نے کئی صدیوں تک اپنا اثر جمائے رکھا مگر جہاں اس کے افکار ونظریات کی بات آتی ہے تو اس کی سوچ‘ ذہنی معیار اور عام مروجہ عقائد میں بہت فرق دکھائی دیتا ہے۔ ابن سینا کہتاتھا:۔
’’خدا کائنات سے بروئے زمانہ مقام نہیں ہے بلکہ بروئے منطق مقدم ہے ‘ یعنی خدا مرتبہ‘ماہیت اور سبب کے اعتبار سے مقدم ہے۔ کائنات کے وجود کاانحصار خدا پر ہے جو اسے سنبھالے ہوئے ہے لیکن خدا ہرکام اور واقعے کا براہ راست ذمہ دار نہیں ہے۔ اشیاء فلسفہ غایات (تھیالوجی) یعنی اپنی اندرونی غایت کی بنیاد پر نشونماپاتی ہے۔ یعنی کائنات کے تمام تغیرات کسی غایت یا مقصد سے ہوتے ہیں‘‘۔
ابن سینا بھی مابعد الطبیعات اور طبیعیات کے الگ الگ دائرہ کا قائل تھا وہ کہتا تھا کہ چند عقائد کو چھوڑ کر مظاہر واشیاء کی کنہ تک پہنچنے کا راستہ صرف عقل ہی ہے۔ اس کے علاوہ اس نے اپنی آپ بیتی میں جس طرح روز مرہ کے حقائق کا ذکر کیا ہے، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا داری اور مصلحت کوشی جیسی اصطلاحات کااس لغت میں نام ونشان تک نہ تھا۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے عقل پرستوں نے مذہب کو منقطع اور فلسفے سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی‘ وہ مذہب کی ایک جدید اور قرین عقل تشریح کے خواہاں تھے، اسی بناء پر انہوں نے مذہب کے روایتی پہلوسے انکار کیا۔ خرد مندوں کا سورج غروب ہونے کے جو نتائج سامنے آئے ان میں سے ایک یہ تھا کہ معتدل مزاج مذہبی ہاتھوں میں منطق اور فلسفے کا ہتھیار آگیا، ان لوگوں نے اپنے مطلب کی باتوں کو فلسفے اور منطق کی باہم آمیزش سے قرین عقل بنالیا اور یوں علم الکلام کی باقاعدہ بنیاد ڈال دی اور متکلمین کے گروہ کے گروہ وجود میں آنے لگے۔ جو اپنے مطلب کی باتوں کو قرآن وسنت‘ فلسفے اور منطق کے ذریعے منوانے لگے جس کے نتیجے میں ادعانیت زدہ ماحول کو ترقی حاصل ہوئی اور اختلاف رائے کی بالکل گنجائش نہ رہی۔
ایک دانش ور کا مقولہ ہے کہ’’مہذب ہونے کی سب سے بڑی پہچان ہی یہ ہے کہ کوئی معاشرہ کس حد تک اختلاف برداشت اور جذب کرتا ہے۔ دقیانوسی معاشروں کی واضح پہچان ہی یہ ہے کہ وہ اختلاف برداشت نہیں کرسکتے‘‘۔
اور درحقیقت ہوا بھی یہی کہ جب تک عقلی علوم کی ترویج وترقی کھلے دل ودماغ سے کی جاتی رہی، مسلمان اپنی فکری توانائیاں عقلی علوم پرصرف کرتے رہے جس کی بناء پر ترقی حاصل ہوئی۔ لیکن جونہی عقل کو پابند سلاسل کیا گیا اور نقلی علوم کی کھلی اشاعت ہونے لگی تو مسلمانوں کا سارا جوش وخروش نقلی علوم کی اشاعت پر خرچ ہونے لگا۔ جس کی وجہ سے وحدت ملی کی اکائی پارہ پارہ ہو گئی اور مختلف فرقے وجود میں لائے گئے اور نئے فرقوں کی مدد سے اپنی خود ساختہ تعلیمات ونظریات پھیلائے گئے۔
امام غزالی کی ایک مشہور تصنیف’’احیاء علوم الدین ‘‘ہے جس کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ علامہ ابن جوزی عالم اسلام کی ایک بڑی جیدومتقی شخصیت گزرے ہیں۔ انہوں نے احیاء علوم الدین کے رد میں ایک کتاب لکھی جس کا نام ’’اعلام الانبیاء باغلاط احیاء‘‘ ہے۔ اس کتاب میں امام غزالی کے افکار ونظریات کا بھرپور طریق پر ابطال کیا گیا تھا۔
امام غزالی نے ابن رشد کو کافر قرار دیا تھا۔ اسلامی تاریخ کی مشہور شخصیات ابن تیمیہ اور ابن قیم نے خود غزالی کو کافر قرار دے دیا۔ موجودہ دور میں مولانا مودودی صاحب کی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ کے رد میں مولانا مفتی عبدالحمید مدظلہ نے ایک کتاب ’’انکشافات‘‘ کے نام سے لکھی ہے جس نے انہوں نے مولانا مودودی کوکافر‘ زندیق اور کرسٹان قرار دیا۔
تبلیغی جماعت والوں کی بنیادی تعلیمات اور ان کی حقیقت جاننے کے لیے علامہ ارشد القادری صاحب کی کتابیں ’’زلزلہ‘‘ اور ’’تبلیغی جماعت‘‘ ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔تبلیغی جماعت والوں نے علامہ موصوف کی تعلیمات کے رد کے لئے اور ان کو کافر قرار دینے کے لئے کتنی کتابیں اور مقالے تحریر کیے اور ان کا راقم کو علم نہیں۔
نیز اہل حدیث‘تبلیغی جماعت‘ جماعت المسلمین‘ دیوبندی‘ بریلوی‘ وہابی‘ اہل قرآن‘ سنی‘ شیعہ، سپاہ صحابہ‘ تحریک امیر معاویہ‘ سپاہ محمد وغیرہ بھی ایک دوسرے کے باطل خیالات کے ابطال ہی کے لئے پیدا کی گئی ہیں۔
One Comment