فلسفہِ جمالیات اور آرٹسٹ

ارشد نذیر

seven-for-a-secret-still-with-trace-1-640x300
قدیم یونان میں ایک لفظ ’’ ایستھا نومیا‘‘ جو انگریزی میں’’ایستھیٹکس‘‘ ہو گیا جس کا مطلب کسی چیز کو اپنےحواس کے ذریعے محسوس کرنا ہے بولا جاتا تھا۔ اردو ادب میں اسے ذوقِ جمال یا جمالیاتی ذوق سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔

انسان کو خوبصورتی ، بد صورتی ، اچھائی اور برائی ہر دور میں متاثر کرتی رہی ہے۔ ہر دور میں انسان خوشی، غم، دکھ ، درد، رنج ، تکلیف جیسے جذبات سے متاثر ہوتا رہا ہے ۔ اُس کا موضوع انفرادی محسوسات بھی رہا ہے اور اجتماعی بھی۔ تاریخ کے ابتدائی ادوار میں انسان اجتماعی زندگی گزارتا تھا۔ لہٰذا اس کے ان محسوسات کا محور و مرکز اجتماعیت ہی تھا۔وہ اپنے ان جذبوں کا اظہار پینٹنگ، سنگ تراشی، مجسمہ سازی ، موسیقی ، شاعری اور رقص وغیرہ میں کرتا رہا ہے۔

ایک تخلیق کار کا ایسے جذبوں کا بیان کردہ کسی بھی شکل میں اظہار ہی دراصل ’’ایستھیٹکس‘‘ یا جمالیاتی ذوق کہلاتا ہے۔ آرٹسٹ کا یہ جمالیاتی ذوق کس طرح تربیت پاتا ہے اور وہ اپنے آرٹ میں کس چیز کا اظہار کرتا ہے۔ آرٹسٹ اور سماج کا آپس میں کیا رشتہ ہوتا ہے ۔ ایک آرٹسٹ اپنا شہ پارہ تخلیق کرنے کے لئے خام مواد کہاں سے حاصل کرتا ہے ۔ آرٹسٹ کا جمالیاتی ذوق عوامی سطح سے کس طرح بلند ہوتا ہے ۔ ان تمام سوالوں کے جواب خود آرٹسٹ اور فلسفی اپنے اپنے طور پر تلاش کرتے رہے ہیں۔

قرونِ وسطیٰ میں جمالیاتی ذوق کا منظم اندازمیں مطالعہ نہیں گیا لیکن حسن و جمال ، بد صورتی اور قبح، اچھائی اور برائی جیسے موضوعات اس دور کے فلسفیوں کے بھی زیرِ بحث رہے۔ تاہم اٹھارویں صدی کے جرمن فلسفیوں نے جمالیاتی فلسفے پر باقاعدہ اور منظم انداز میں کام کیا ۔

افلاطون اور ارسطو جیسے قرونِ وسطیٰ کے فلسفیوں نے اس بارے میں جو نظریات پیش کئے اُس سے آنے والے مفکرین کے نظریات کی راہ ہموار کی۔ ان مفکرین نے ’’تناسب‘‘، ’’روشنی‘‘ اور ’’علامات‘‘ جیسے عنوانات پر کام کیا۔ وہ روشنی کی ماہیت اور اس کے اثرات کے بارے میں بہت متجسس رہے۔ اسی طرح رنگ بھی اُن کی کشش کا باعث بنے رہے۔

علامات کے بارے میں ان کا نظریہ تھا کہ خالق یعنی خدا کی پہچان ہی مخلوق کے ذریعے ہوئی ہے ۔ اس لئے علامتی تخلیق بھی معنی کا اظہار کا ذرئع ہو سکتی ہے۔ کوئی علامتی شہ پارہ بھی اپنی تفہیم پیدا کر سکتا ہے اور با لخصوص ان پڑھ افراد کے لئے۔ جہاں تک کسی چیز کے اندر ’’ تناسب ‘‘ کا پائے جانے کا تصور ہے ۔ یہ خوبصورتی کا ایک لازمی عنصر ہے۔ ’’تناسب‘‘ چرچ وغیرہ کی تعمیرات میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ خیالات ان کے جمالیاتی ذوق کی تسکین کا باعث بنتے رہے ہیں۔

سینٹ آگسٹائن، سیوڈو ڈاؤنیسیس اور سینٹ تھامس اکیوینس ایسے فلسفی تھے جو افلاطونی اور نیو افلاطونی نظریات کے پرچارک تھے۔ افلاطون نے” فارم ” یعنی صورت یا شکل کے تصور کو اجاگر کیا تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ خوبصورتی کی ایک کامل شکل و صورت ہوتی ہے جس میں ہر عضو ایک خوبصورتی کے ساتھ شامل ہوتا ہے۔ یہی شکل و صورت کامل خوبصورتی کہلاتی ہے اور یہی خوبصورتی خدائی ذہین کا تصور گردانی جاتی ہے۔ یہ کائنات اسی خدائی تصور کا عکس گردانی جاتی ہے ۔

اس خیال کے مطابق تمام خوبصورت چیزیں تجریدی کائنات میں نہیں بلکہ خدا ئی خوبصورتی میں شامل ہوتی ہیں۔ افلاطون کا یہ نظریہ بھی اہمیت کا حامل ہے کہ چونکہ خوبصورتی دراصل خالق یعنی ’’خدا‘‘ کی خوبصورتی ہی کا عکس ہے اس لئے آرٹسٹ جب کسی خوبصورت شکل یا تصور کی نقالی کرتا ہے ، تو وہ دانشمندانہ نقالی تو ہو سکتی ہے ، تاہم حقیقت سے دوہرے طور پر دور ہوتی ہے۔

شاعری اور ڈرامے کے حوالے سے اُس کا خیال تھا کہ اس میں اگر بدکار انسان کو آخر میں خوش نصیب اور کامیاب دیکھا جائے ، تو اس سے نوجوانوں پر بڑے برے اثرات مرتب ہونگے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ شاعری اور ڈرامے کے بدکار کرداروں کو آخر میں ضرور سزا ملنی چاہئے۔ اس کے برعکس تھامس ارسطو کے خیالات سے متاثر تھا اور وہ اسے کی جمالیاتی نظریات پر یقین رکھتا تھا۔

ارسطو کا یہ نظریہ تھا کہ آرٹ صرف نقالی نہیں ہے بلکہ یہ فطرت کو مثالی بناتاہے اور آرٹ ہی اس میں موجود نقائص کو ختم کرتا ہے اور پھر اشیاء کو کاملیت اور تکمیل عطا کرتا ہے ۔ جب وہ اس طرح کا کوئی تصور قائم کر لیتا ہے ، وہ اپنی ہی اسی نقالی سے مسرت حاصل کرتا ہے جس انسان کا خاصاہے۔ فطرت ماسٹر آرٹسٹ ہے جس نے ہر چیز کو متوسط خوبصورتی کی حالت میں تخلیق کیا ہے ۔ اس طرح اُس کا کہنا ہے کہ ایک بیرونی صورت یا شکل میں حقیقی خیال یا تصور ہی کا سموناآرٹ ہے ۔ اس کا کہنا تھا کہ خوبصورت ہی مناسب ہوتا ہے۔ وہ ایک آرٹسٹ کو ایک مسافر آرٹسٹ گردانتا ہے اور فطرت کو ماسٹر آرٹسٹ کے طور پر دیکھتا ہے۔

فلسفیوں کے ہاں یہ نظریات بھی گردش کرتے رہے کہ محض تعقلیت‘‘ خوبصورتی کو بیان کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ، تاہم خوبصورتی میں ایسے عناصر موجود ہیں جن کی عقلی تشریح یا توضیح ممکن ہے۔ مثلاً ترتیب، ربط اور تناسب ایسے عناصر ہیں جو خوبصورتی کے بنیادی خصائص کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ ان کا مشاہدہ عقلِ محض نہیں کر سکتی بلکہ اس کو سمجھنے کے لئے وجدان کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔ انسانی جذبات اور احساسات ہی ان کا تجربہ کر سکتے ہیں۔ بس انسان کا جمالیاتی تجربہ خوشی، غصہ، رنج، غم اور دکھ جیسی کیفیات کا مرکب ہوتا ہے ۔

اٹھارویں صدی میں ’’ایستھیٹکس‘‘ یا جمالیاتی حس پر باقاعدہ اور منظم طور پر کا م کیا گیا اور اسے فلسفہ ہی کی ایک شاخ تصور کیا جانے لگا۔اس برانچ کے تحت آرٹ اوراس کے تجربات کا مطالعہ کیا جانے لگا ۔ یہ فلسفہ اٹھارویں صدیں کے یورپ میں ابھرا اور پھر اس نے انگلستان میں ترقی پاتے ہوئے شاعری، مجسمہ سازی ، موسیقی اور رقص جیسی اصناف پر اپنے اثرات مرتب کرنا شروع کر دیئے۔ اسی صدی میں پہلی دفعہ ہی ان تمام فنون کو آرٹ کے تحت یکجا کر دیا گیا۔لہذا شاعری، مجسمہ سازی ، موسیقی اور رقص کو آرٹ ہی کی مختلف شکلیں تصور کیا جانے لگا۔
ایمینوئل کانٹ ہی پہلا فلسفی تھا جس نے جمالیات کو فلسفہ کا باقاعدہ موضوع بنایا اور اس پر منظم انداز سے بحث کی۔کانٹ کا خیال تھا کہ خوبصورتی چیز کے افعال سے آزاد ایک خاصیت کا نام ہے ۔ مثلاً جب ہم یہ کہتے ہیں کہ گھوڑا خوبصورت جانور ہے ، تو اُس وقت اس بات کی کوئی وقعت و اہمیت نہیں رہ جاتی آیاکہ یہ دوڑ میں جیتتا بھی ہے یا نہیں۔

اُس کایہ بھی خیال تھا کہ علم کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کے حصول کے لئے صرف بیرونی ذرائع ہوتے ہیں بلکہ ہماری فطری تشکیلات بھی علم کی تخلیق میں کارآمد ہوتے ہیں۔ اس سے قرونِ وسطیٰ میں پائے جانے والے اس نظرئیے کہ خیال صرف وجدان کی پیداوار ہے میں ایک تبدیلی رونما ہو گئی۔
جمالیاتی ذوق پر فیصلہ صادر کرنے کے لئے کانٹ نے آٹھ خصوصیات بیان کی ہیں۔ اس فیصلہ میں خوشی اور کرب کی کیفیات ہونی چاہیں۔ ایک فن پارہ کیونکہ پیچیدہ بھی ہوتا ہے اور اس پر فیصلہ صادر کرنے کے لئے وقت درکار ہوتا ہے ۔ پہلی مرتبہ’’ ذوق ‘‘کا تصور وضاحت کے ساتھ پیش کیا۔ کوئی فن پارہ اپنے قاری یا سامع کو ایک جامد تصور سے آزاد کر کے نئے تصورات قائم کرنے کی آزادی فراہم کرتا ہے ۔ اس کے اندر ذاتی دلچسپیوں سے ماورا ایک کیفیت بھی ہوتی ہے ۔ پھر وہ جمالیات کا تصور : جمالیاتی چیز اور جمالیاتی محاکمہ، جمالیاتی رویہ اور جمالیاتی تجربہ جیسے تصورات بھی پیش کرتا ہے۔
پھر جدید دور میں علمِ نفسیات اور علمِ بشریات نے خاصی ترقی کی جس کے اثرات’’ جمالیات‘‘ اور ’’جمالیاتی ذوق‘‘ پر بھی مرتب ہوئے۔ یہاں سے انسان سے متعلق تمام فلسفوں کو ایک جست لگائی ۔ اب انسانی افعال ، اُس کی ترقی و ارتقاء اور اُس کے محسوسات کا جائزہ انسان کی اپنی نشوونما اور پرورش میں لیا جانے لگا۔ آفاقی اور ماورائی قوتوں کو انسانی زندگی سے تقریباً بے دخل کر دیا گیا۔

فرائڈ اور اُس کے شاگرد یونگ جیسے نفسیات دانوں نے انسان کے تمام جذبوں کو اس کے فطری اور جبلی جنسی محرکات کی پیداوار قرار دیا اور اپنے سائنسی تجربات سے اس حقیقت کو کافی حد تک ثابت کر دیا۔ اسی طرح علمِ بشریات میں اس بات پر تحقیق شروع ہو گئی کہ تاریخ اپنی ترقی اور ارتقاء کے سفر میں کچھ قوانین کی پیروی کرتی ہے۔
اس زمانے میں ہمیں مارکس اور اینگلز جسے فلسفی بھی ملتے ہیں جنہوں نے سماج کی ترقی اور ارتقا ء کا جدلیاتی انداز سے جائزہ لیا۔ مارکس اور اینگلز کے سماج کے مطالعے کی اس جدلیاتی سائنس نے آرٹ ، خوبصورتی اور جمالیات جیسے فلسفوں کو بھی متاثر کیا۔ مارکس اور اینگلز کا یہ ماننا ہے کہ معاشی اور سماجی حالات اور بالخصوص طبقاتی تعلقات جو انہیں معاشی اور سماجی حالات کے تحت جنم لیتے ہیں انسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو متاثر کرتے ہیں۔ ان حالات کے اثرات مذہب، قانون اور ثقافتی ڈھانچوں سب پر مرتب ہوتے ہیں۔

ان حالات میں ایک آرٹسٹ کا کام ان حالات کی صرف تصویر کشی کرنا نہیں ہے بلکہ ان کو بہتر بنانے میں اپنا حصہ ڈالنا ہے ۔ جدید صنعتی سماج میں انسان کی حیثیت پر بات کرتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ سرمایہ دارانہ سماج میں جدید صنعتی پیداوار میں محنت کش کی زندگی کا کنٹرول اُس کے اپنے ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور وہ ایک مشینی پرزہ بن کر رہ جاتا ہے جس میں اس کے انسانی جذبات و احساسات کچل کر رہ جاتے ہیں۔

محنت کش سے جب اس طرح کام لیا جاتا ہے ، تو کچھ عرصے کے بعد وہ اس سارے نظام میں ایک مشینی پرزے کی طرح ردِعمل کرنا شروع کر دیتا ہے اور اپنے انسانی جذبات کے حوالے سے سماج سے کٹ کر رہ جاتا ہے ۔ جس کو وہ فلسفہِ بیگانگی کہتا ہے۔ اس نظام میں نامیاتی خرابی ہے جو کہ منافع اور شرحِ منافع کی ہوس کی صورت میں سامنے آتی ہے ۔ اس نامیاتی خرابی کی موجودگی میں انسان کی عظمت و وقار کی بحالی ایک ڈھکوسلا ہے ۔ انسان کو حقیقی آزادی حاصل ہو ہی نہیں سکتی جب تک اس نظام کو سوشلزم سے نہیں بدل دیا جاتا۔
اس کے بعد ما بعد از جدیدیت کا دور شروع ہوتا ہے جس میں ناقدین نے آرٹ کے تصورات پرنئے سرے سے اعتراضات اٹھانا شروع کر دیئے اور یہ کہا جانے لگا کہ آرٹ جیسی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے اگر کوئی چیز وجود رکھتی ہے تو وہ صرف اور صرف آرٹسٹ ہوتا ہے ۔ آرٹ کے مورخین بھی یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ آرٹ جیسی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے اگر کسی چیز کا وجود ہے تو وہ صرف آرٹسٹ ہے۔ ما بعد از جدیدیت والوں نے یہ سوالات اٹھانا شروع کر دیئے کہ آیا آرٹ کو جامعات میں پڑھایا بھی جانا چاہئے یا نہیں۔

پھر کیا ہمارے پاس کوئی ایسا معیار اور پیمانہ ہے ، جس کی بنیاد پر ہم تمام تاریخی ادوار ، ان کی ثقافتوں اور تہذیبوں میں پیدا ہونے والے آرٹ پر محاکمہ کر سکیں؟ یہی وجہ ہے کہ وہ آرٹ کی جامعات میں تعلیم کے تصور کے خلاف ہیں۔ اس پر ان کے اپنے استدلال موجود ہیں۔ اُن کا پہلا استدلال یہ ہے کہ آرٹ کی بہت ساری اقسام ہیں جو ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ ان کی تفہیم کے لئے کوئی ایک تھیوری یا نظریہ کافی نہیں ہے۔

’’جمالیات ‘‘ ، ’’جمالیاتی ذوق‘‘ اور آرٹ کا تاریخی جائزہ لینے کے بعداس کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔
آرٹسٹ کسی انسان یا سماج کے لطیف جذبوں اور اُس کی جذباتی اور ہیجانی کیفیات کا اظہار اپنے فن میں کرتا ہے ۔ فن اپنے اظہار کے ذرائع خود تخلیق کرتا ہے ۔ اظہار کا ذرئع خواہ کچھ ہی ہو لیکن اس میں ہمیشہ دوبنیادی چیزیں دیکھی جاتی ہیں۔ اول یہ کہ آرٹ یا تخلیق کو مکالماتی یعنی کمیونیکیٹو ہونا ہوتا ہے۔ دوئم یہ کہ آرٹ اپنے اظہار کی کوئی سی شکل کیوں نہ اختیار کر لے ، وہ اپنا مواد ماضی سے حاصل کرے یا اپنے سماج سے یا پھر کوئی تصوراتی دنیا تخلیق کر ڈالے، لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ اُس میں اپنے سماج کے معیارات پر عدم اعتماد اور عدم اطمنان کا اظہار کر رہا ہوتا ہے ۔ وہ اپنے سماج کے خوبصورتی ، بد صورتی ، اچھائی اور برائی کے معیارات کو چیلنج کر رہا ہوتا ہے۔ اُس کی یہی بے چینی اور بے قراری اُسے ایک بڑا تخلیق کار بنا دیتی ہے۔

ہاں! البتہ آرٹسٹ سماج کے اجتماعی شعور اور لاشعور میں موجود سکون و اطمینان اور بے چینی و بے قراری کا ادراک عام آدمی کی نسبت زیادہ رکھتا ہے ۔ وہ سماج کے ثقاقتی عناصر کے قبیح اور حسین پہلوؤں سے بہت اچھی طرح واقف ہوتا ہے ۔ وہ اپنے جمالیاتی ذوق کی آبیاری کے لئے عام انسان سے قدرے زیادہ متجسس اور متحیر رہتا ہے ۔ اُس کا مطالعہ اور مشاہدہ سماج کی بے چینیوں کے درجہ حرارت کو محسوس کرنے والا تھرما میٹر ہوتا ہے۔ اس طرح ایک عام انسان ہونے کے باوجود بھی وہ پورے سماج کے اجتماعی شعور کا نمائندہ ہوتا ہے۔ سماج میں اس کا کردار انفرادی بھی ہوتا ہے اور بطور آرٹسٹ بھی۔ اُس کی تخلیق یا فن پارہ اس کے اجتماعی شعور کا اظہار ہوتا ہے۔ لہٰذا آرٹسٹ اور اس کی تخلیق دو مختلف چیزیں ہوتی ہیں جن کا تجزیہ مختلف انداز سے کیا جانا چاہئے ۔

جہاں تک ما بعد از جدیدیت کے اس استدلال کا تعلق ہے کہ آرٹ جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی صرف آرٹسٹ ہی کا وجود ہوتا ہے ، تو اس سلسلے میں یہ استدلال پیش کیا جا سکتا ہے کہ آرٹ بہرحال آرٹسٹ سے علیحدہ اپنا وجود رکھتا ہے۔ آرٹسٹ اپنی تمام تر مسرتوں اور خوشیوں ، رنج و آلام کے ساتھ فنا ہو جاتا ہے ۔ اُس کے فنا ہونے پر اُس کے تمام تر محسوسات اور جذبات بھی بے وقعت ہو کے رہ جاتے ہیں۔ پھر وہ کون سی چیز ہے جو اُس کی موت کے بعد بھی زندہ رہتی ہے ۔

بلاشبہ یہ اُس کا فن ہوتا ہے جو موت کے بعد بھی زندہ رہتا ہے ۔ اگر اس میں آفاقی سچائیاں ، جن پر ہم ذیل میں مفصل گفتگو کریں گے ، موجود ہوں تو وہ ایک آرٹسٹ کو بھی امر کر جاتی ہیں۔ اب ہم آرٹ کی تعلیم کے امکانات پر بات کر لیتے ہیں ۔اس حد تک یہ با ت درست ہے کہ ’’حقیقی آرٹ‘‘ سماج کے لئے ، سماج کے ذریعے اور سماج کے اندر تخلیق ہوتا ہے ایک مصنوعی ماحول میں آرٹ سے متعلق پڑھایا تو جا سکتا ہے لیکن آرٹ تخلیق نہیں کرا یاجا سکتا۔

یہی وجہ ہے کہ ہم جامعات میں آرٹ سے متعلق پڑھ اور سیکھ سکتے ہیں لیکن آرٹ تخلیق نہیں کر سکتے کیونکہ جامعات میں کسی شہ پارے اور اس کے خالق اور سماج کے درمیان جذباتی وابستگیوں جیسے جذبات کو محسوس کرایا جاسکتا ہے اور نہ اُن کے حسن و قبح کے معیارات کو سمجھا جا سکتا ہے۔
تاہم جدید علوم کی ترقی اور ارتقا ء کے بعد اس استدلال کے برعکس بھی استدلال اُٹھایا جا سکتا ہے۔ علمِ بشریات اور علمِ نفسیات کی ترقی کے بعد آج ہمارے حسن ، بد صورتی ، اچھائی اور برائی ، روحانی اور ماورائی قوتوں سے متعلق تصورات میں خاصی تبدیلی آئی ہے۔ اب ہم نے خوشی، غمی ، رنج، دکھ ، درد، اذیت اور تکالیف جیسے جذبات کے بارے میں ماضی سے کہیں مختلف مگر منطقی انداز میں ردِعمل شروع کر دیا ہے۔

ذہنی امراض جو کبھی ماورائی بد روحوں کی کار ستانیاں سمجھی جاتی تھیں ، آج ہمارے احاطہِ علم میں ہیں۔ توہم پرستی کو بھی شدید ضرب لگی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان نے اجتماعی طور پر سیکھا ہے ، علم کی افضلیت کو دل سے مانا ہے ۔ اس پر عمل کیا ہے ۔ اسی وجہ سے یہ تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ انسان اور سماجوں کا یہ سفر ایک تاریخی ورثہ ہے ۔ وہ اس کو پڑھ بھی سکتا ہے اور اس سے کچھ نہ کچھ سیکھ بھی سکتا ہے۔ وہ ماضی کے انسان اور اس کے آرٹسٹ کے فن پارے کے بارے میں ادراک کر سکتا ہے۔ آج کا قاری ماضی کے آرٹسٹ کی بے چینی اور بے قراری کا کسی حد تک اندازہ لگا سکتا ہے۔

لہٰذا اس تناظر میں وہ آرٹ ، اس کی آفاقیت، اُس کی زمان و مکاں سے آزاد معروضی حیثیت کے بارے میں جو سیکھتا ہے اور پھر اُسے اپنے تخلیقی کام میں منتقل کرنے کی کوشش کرتا ہے ، تو یہ نقالی بھی تخلیق ہی کے زمرے میں آئے گی کیونکہ اس تمام تر مطالعہ میں اُسے آرٹ اور آرٹسٹ کے درمیان معروضی تعلق قائم کرنے کی تربیت حاصل ہوتی ہے ۔ اگرچہ یہ بھی ایک قسم کی نقالی ہے ، تو اس قسم کی نقالی سے فطری سائنسز بھی مبرا نہیں ہیں۔ جامعات میں پڑھایا گیا یہ آرٹ ممکن بھی ہے اور اس سے آرٹسٹ پیدا بھی ہو سکتے ہیں۔
اب ہم آرٹ پر محاکمہ کرنے والے پیمانے یا معیار کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ یہ کہا جانا کہ تاریخ کے تمام ادوار ، نسلوں اور قوموں کی تہذیب و ثقافت کی جانچ کے لئے کوئی معیار اور پیمانہ نہیں ہے اس لئے آرٹ کے بارے میں فیصلہ ہی صادر نہیں کیا جاسکتا ۔ اِس کا کوئی معیار اور پیمانہ مقرر ہی نہیں کیا جاسکتا ۔

اسی طرح یہ کہنا کہ کیونکہ آرٹ مختلف علاقوں اور قوموں میں مختلف انداز اور مختلف شکلوں میں جنم لیتا رہا ہے ، لہٰذا اس کے لئے کوئی تھیوری یا نظریہ ہو نا چاہئے ، جس کے معیار اور پیمانے پر دنیا میں پیدا ہونے والے تمام آرٹ کو بلاامتیاز ماپا جا سکے اور اُس پر فیصلہ صادر کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں یہ عرض ہے کہ چند ایک آفاقی سچیائیاں ہیں جن کو بلا امتیاز رنگ و نسل ، جنسی امتیاز، قوم، زبان ، ثقافت اور تہذیب کے امتیازات سے بالا ہو کر تسلیم کیا جاتا ہے ۔ یہ سچائیاں پوری دنیا میں یکساں طور پر تسلیم بھی کی جاتی ہیں۔

زندگی کا حق، انسان کی شخصی ، شہری اور سیاسی آزادیوں کا حق ، آزادیِ اظہار کا حق، یہ ایسے حقوق ہیں جن کو انسان ، نسلوں اور قوموں کے لئے آفاقی سچائیں تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ اگر انسان کو حقیقی معنوں میں یہ آزادیاں نصیب ہو جائیں ، تو اُس کے ذوقِ جمال کی بھی تسکین ہو گی اور اُس کے اندر کا آرٹسٹ خوشی، مسرت ، لذت ، کیف و سرور کے بے پناہ نئے طریقے تراش لائے گا اور اُس کے لئے حسن و قبح کے معنی بھی بدل جائیں گے ۔

اگر کوئی آرٹسٹ معروضیت کے ساتھ اِن مقاصد کے حصول کا خواں ہے اور اُس کی تخلیق خواہ وہ کسی بھی میڈیم میں کیوں نہ ہو، انہی مقاصد کی طرف رواں دواں ہے ، تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اُس کی تخلیق آقاقی معیارات پر پوری اتر رہی ہے۔ نظری طور پر یہ بات بالکل درست ہے کہ اِن آزادیوں کو تمام مہذب ممالک بلاتفریق تسلیم بھی کرتے ہیں ۔ نظریاتی طور پر یہ بات بھی درست ہے کہ یہ انسان کی فطری آزادیاں ہیں اور انہیں بغیر کہے اور مانگے حاصل ہونا چاہئے تھا۔ پھر آخر یہ انسان کو کیوں حاصل نہیں ہیں، یا یہ کس طرح ، کب اور کیوں اُس سے چھین لی گئیں۔

یہ تمام سوالات محض ادبی نہیں ہیں ، یہ سب سوالات اپنی نوع میں سیاسی ہیں اور ان کے چھن جانے ، واپس نہ دیئے جانے اور آج تک ان کی بازیابی کے لئے جاری کشمکش سب سیاسی عمل ہے ۔ اس سیاست کے پیچھے طاقت ور ممالک جنہیں سامراج کہا جاتا ہے، بھی ہیں اورطاقتور طبقے بھی۔ ریاست اور ریاستی مشنری بشمول عدلیہ بھی ان حقوق کے غصب کئے جانے میں برابر کے حصہ دار ہیں۔

جدید دور میں آزاد منڈی کی معیشت میں تو ریاستوں سے بھی زیادہ طاقتور کارپوریٹ کلچر اور کارٹلز نے جنم لیا ہے جن کی منافع خوری کی حرص اور ہوس نے استحصال کی نئی شکلیں اختیار کی ہیں۔ اس طرح پوری دنیا کا سماج استحصالی اور استحصال زدہ طبقوں میں بٹ کر رہ گیا ہے۔ ایک طرف اشرافیہ کا ایک فیصد طبقہ ہے ، دوسری طرف پورا سماج ہے ۔ اس استحصالی طبقے نے انسان اور سماجوں میں محرومی ، غربت ، جہالت، بے بسی اور گمراہی کو جنم دیا ہے ۔

استحصالی طبقہ منافع خوری کی اس ہوس میں سماج کو قومی ، نسلی ، گروہی، مذہبی اور ثقافتی بنیادوں پر تقسیم کرتا ہے ، اُن کو جمہوریت اور انسانی حقوق کے خواب دکھاتا ہے ، اور اس آڑ میں اپنے منافع خوری کے مفادات حاصل کرتا ہے ۔ یہی استحصالی سرمایہ داری نظام جدید سائنسی ایجادات کی راہ میں رکاوٹ ڈالے کھڑا ہے۔ یہ نظام سائنسی ترقی کو بلاامتیاز سب انسانوں ، قوموں اور نسلوں تک نہیں پہنچنے دے رہا۔

بلکہ اس کے برعکس آج اسلحے کا کاروبار عروج پر ہے۔ اس سیاسی عمل نے بڑے پُرفریب اور مکارانہ طریقے سے انسان سے اس کی عظمت و وقار کو چھین لیاہے۔ کوئی بھی حقیقی آرٹسٹ سماج میں اپنے حسن و قبح کے ذوق اور خوشی اور غم کے جذبات کے اس طرح چِھن جانے کے عمل سے غافل رہ سکتا ہے اور نہ ہی اس پر ردِعمل کئے بغیر رہ سکتا ہے۔ یہ صورتحال ہر حساس ذہن پر اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج کوئی بھی آرٹسٹ دنیا میں ہونے والے اس ظلم و بربریت سے لاتعلق رہ کر محض جام و سبو، گل و بلبل اور مناظر کی خوبصورتیوں سے دل نہیں بہلا سکتا۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے ، تو یہ حقیقت سے فرار تو ہو سکتا ہے ، لیکن یہ حقیقت نگاری ہے اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی آفاقی ہوتی ہے۔ اس طرح کی جمالیات ذوق وقتی اور لمحاتی ہو سکتا ہے ۔ اور ایسے فن پارے کی کوئی دیر پا تاثیر نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں اس طرح کے جمالیاتی ماحول کے اثرات بھوکے پیٹ اور بھرے ہوئے پیٹ کے شخص پر بیک وقت مختلف ہوتے ہیں۔
جہاں تک آرٹ میں جمالیاتی اظہار کا تعلق ہے ، توآرٹ ماضی میں بھی انسانی جذبات و احساسات اور تہذیب و تمدن کا اظہار کرتا رہا ہے اور مستقبل میں بھی یہ ہر خطہ ، ملک اور چھوٹے بڑے علاقے میں جنم لیتا رہے گا۔ آرٹ اور جمالیات لازم و ملزوم ہیں۔ آرٹ کسی انسان اور سماج کی شعوری اور لا شعوری جذباتی کیفیات کا اظہار رہا ہے اور مستقبل میں بھی ایسا ہی رہے گا۔

آرٹ ماضی میں اپنے اظہار کے ذرائع تخلیق کرتا رہا ہے ۔ جدید علوم آرٹ کے ذرائع کو تیز ی سے بتدیل کر رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ مستقبل میں کوئی گلوبل کلچر تخلیق پا جائے جس کی اپنی کوئی زبان ہو، اور اُس کے اظہار کے ذرائع بھی مکمل طور پر جدید دور کی الیکٹرانکس ڈیوائیسز پر مبنی ہوں ۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے ، تو پھر بھی جب تک اس کرہِ ارض سے دکھ ، درد ، تکالیف کے پیدا ہونے کی وجو ہات ختم نہیں ہوتیں، اُس وقت تک آرٹ کا منبع و مرکز انسان اور سماجوں کے جذبات ہی رہیں گے۔

خوشی اور مسرت کے جذبات اپنی شکلیں بدل سکتے ہیں لیکن محسوسات وقت اور زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتے ہیں۔ قدیم دور میں بھی خوشی اور مسرت کے محسوسات ویسے ہی تھے جیسے یہ آج ہیں۔ دورِ حاضر میں بھی یہ ویسے ہی ہیں اور مستقبل میں بھی ویسے ہی رہیں گے۔ اگر گزشتہ صدیوں کے انسانی علم کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ انسانی علم نے شہری ثقافت کو بالخصوص اور دیہی ثقافت کو بالعموم کافی حد تک متاثر کیا ہے ۔ اس کے اثرات تمام قوموں، قبیلوں، نسلوں، اور گروہوں پر پڑے ہیں۔

لیکن علم و آگہی جو انسان کا مشترکہ ورثہ ہے کو تمام سماجوں میں یکساں اور بلا تفریق نہیں پھیلایا گیا۔ مختلف سماجوں اور ثقافتوں میں غیر مساوی اور ناہموار ترقی بھی انسان کی خوشیوں اور مسرتوں کی قاتل رہی ہے ۔ لیکن ان کے ماحول اور وسائل پر ہاتھ صاف کرنے اور انہیں پسماندہ رکھنے میں اس استحصالی نظام کا ہاتھ ہے ۔ کیا اسی صورتحال میں جمالیاتی ذوق اور جمالیات کو جِلا حاصل ہو سکتی ہے؟

ایسی صورتحال میں علم کو پھیلنے سے روکا جاتا ہے ۔ طرح طرح کی غلط فہمیوں اور سازشوں کو جنم دیا جاتا ہے ۔ سچ اور جھوٹ کو خلط ملط کر دیا جاتا ہے۔ یہاں تعلیم اور تعلم ایک بے ہودہ سیاست کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں۔ پھر علم کو برائے ترقیِ انسانیت استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ اسے سرمایہ کار کی لونڈی بنا دیا جاتا ہے ۔ جہان گزشتہ چار صدیوں میں سماج میں فلسفیانہ ، سائنسی اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے آرٹسٹ کو متاثر کیا ہے ۔ اُس نے انسان کے ذوقِ جمالیات کی آبیاری بھی کی ہے ۔ اُس نئی فکر اور سوچوں کے دریچے کھولے ہیں ، تاریخ گواہ ہے کہ انسان ترقی کی شاہراہ پر گامزن رہا ہے

لیکن موجودہ حالات اور ماحول کا جائزہ لینے کے بعد آج ہمارے آرٹسٹ کے سامنے یہ سوال ہے کہ آیا وہ سماج کو کوئی نئی سوچ دے رہا ہے یا نہیں آیا وہ جمالیات کے اس تاریخی سفر میں ایک جست لگانے کی پوزیشن میں ہے یا نہیں۔ جمالیات اور جمالیاتی فلسفے کو ایک نئی جست دینے کے لئے ہمارے آج کے آرٹسٹ کو موجودہ نظام میں انسانی عظمت و وقار کے حقیقی معنوں میں تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کا جواب آج کے ہر آرٹسٹ کو تلاش کرنا ہوگا۔

One Comment