براہمداغ بگٹی کی وجہ پسپائی:سیاسی حکمت یا حماقت

نود بندگ بلوچ

bb_52390_360
بلوچ قومی تحریک بدقسمتی سے کثیر گروہوں کا مجموعہ ہے، اس کثیر الجماعتی ہیت کی وجہ سے ایک سوال قابلِ بحث ہے کہ کیا اس تحریک کے قسمت کے بابت کوئی بھی گروہ یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ کب اسے رکنا یا ختم ہونا چاہیے ، کب سمجھوتہ کرنا چاہیے یا پھر کب تک ڈٹے رہ کر مقابلہ کرنا چاہیے؟ میرے خیال میں نہیں کیونکہ یہ تحریک از خود ایک فیصلہ ہے حصولِ آزادی کا اٹل فیصلہ اور جو بھی اس کا حصہ بنا ہے وہ اس فیصلے سے اتفاق کرتا ہے اور اگر اتفاق نہیں کرتا تو وہ اسکا حصہ نہیں، اسکو بدلنے کا استحقاق کوئی بھی نہیں رکھتا۔

اس تحریک میں گروہوں کی بساط یا حدِ اولیٰ محض اس فیصلے پر عمل کرتے ہوئے اسے کامیاب بنانا ہے ، ہاں منطقی انجام تک پہنچنے کیلئے کس راستے پر سے گذرا جائے اسکا حق شاید کوئی جماعت اپنے پاس رکھے لیکن اس فیصلے یعنی تحریک کے بابت کوئی فرد یا گروہ ردو بدل کا استحقاق نہیں رکھتا۔ قومی آزادی کا فیصلہ قبضے کے بعد وہ فطری فیصلہ ہے جس کا انجام مکمل بلوچ قومی آزادی ہی ہے۔ اگر آج سارے کے سارے گروہ بھی اس سے روگردانی کریں بھی تو یہ اپنی جگہ اٹل رہے گی اور کل کو جہاں سے یہ رکا ہوگا وہیں سے کچھ اور آشفتہ سر اس کو آگے بڑھائیں گے یہ تب تک جاری رہے گا جب تک اس دنیا کے نقشے پر بلوچ ایک آزاد قوم کے حیثیت سے نہیں ابھرتا۔

ہمارا ماضی اس بات کو یوں تقویت دیتا ہے کہ ماضی میں بلوچ جتنی بار بھی پسپا ہوئے ، سمجھوتے کر بیٹھے یا پھر رول بیک پر مجبور ہوئے ہر بار یہ تحریک کچھ وقت رکنے کے باوجود دوبارہ مزید شدت کے ساتھ سر اٹھا کر چلتا رہا ہے اور آج بھی زندہ ہے۔ عبدالکریم خان کا ہربوئی میں سمجھوتا ہو یا چوٹونک میں بابو نوروز کا قرآن پر سمجھوتا ،68 کی تحریک کا پارلیمنٹ کی خاطر سمجھوتا ہو یا 73 کے تحریک کا سویت یونین کے خاتمے پر رول بیک، وہ سارے کردار ، بڑے شخصیات ، بڑے گروہ یا تو آج بے اثر ہوئے یا نہیں رہے لیکن تحریک اپنے آب و تاب کے ساتھ تادمِ تحریر جاری ہے۔

اس تسلسل کو دیکھنے کے بعد یہ کہنے کی ہرگز ضرورت پیش نہیں آتی کہ براہمدغ بگٹی کے کسی قسم کے سمجھوتے سے اس تحریک پرکوئی اثر نہیں پڑے گا، اور نہ ہی براہمداغ کا سمجھوتہ، تھکن یا بک جانا تحریک کا سمجھوتہ تھکن یا بک جانا تصور ہوگا، لیکن انکے بی بی سی کو دیئے گئے۔ حالیہ انٹرویو کے پس منظر پر غور کرنا انتہاء ضروری ہے تاکہ یہ حقیقت طشت ازبام ہوکہ آیا یہ اس کی سیاسی حکمت ہے یا پھر حماقت، یا پھر اس موقف کو عالمی میڈیا میں پیش کرنے کا مقصد کچھ اور ہے؟

براہمدغ کے کردار کا شروع سے جائزہ لیں تو اکبر بگٹی کے شہادت سے لیکر آج تک نہ وہ اپنے قبائلی و گروہی حیثیت سے دستبردار ہوئے اور نہ ہی تحریک کے بابت اسکا اپروچ قومی یا دائمی رہا ہے۔ قومی تحریک کا حصہ بننے کا مطلب ہی قوم سے ادنیٰ جو بھی گروہ خاندان، شاخ یا قبیلے کی صورت میں وجود رکھتے ہیں انکے مفادات سے دستبردار ہونا ، لیکن کوئی لیڈر یا کارکن بھی دعویداری قومی مفادات کا کرے اور از خود اپنے گروہی ، خاندانی یا قبائلی مفادات سے دستبردار نہ ہو یہ اس کے کردار کو مشکوک بنانے کیلئے کافی سے بھی زیادہ ہیں ۔

اسی طرح براہمدغ کے سوچ و کردار کا ایک مختصر جائزہ لیا جائے توکچھ حقائق خود ہی طشت ازبام ہوتے ہیں جیسے بی ایل اے کے بجائے بی آر اے قائم کرکے اپنے جداگانہ وجود کا احساس دلانا بعد ازاں اسی وجود یا شخصیت کو نمایاں کرنے کیلئے بی آر پی و بی آر ایس او کا قیام، سب ظاہر کرتے ہیں کہ شروع دن سے اسکا مطمع نظر خود کو انفرادی و گروہی حوالے سے مضبوط کرنا تھا۔ یعنی اسکا عمل کردار اور اپروچ تحریک کی مضبوطی و فائدہ سے زیادہ ذاتی حوالے سے تھا اور اگر تحریک کو کوئی بھی جز وقتی ممکنہ فائدہ اس سے مل سکتا تو اس کیلئے براہمدغ کی شرکت تحریک میں لازمی تھی ، اگر وہ حصہ نہ بننے کا فیصلہ کریں تو اسکی جمع کی ہوء قوت تحریک کے ساتھ نہیں بلکہ اسکے ساتھ ہی رہے ۔

بالفرض وہ بی آر اے ، بی آر پی یا بی آر ایس او بنانے کا فیصلہ نہ کرتے تو کسی بھی وقت اسکا روگردانی محض اسکا ہی ہوتا کسی پارٹی یا مسلح تنظیم کا نہیں اور اگر وہ سمجھوتہ کرتے بھی تو اسکے پاس نہ کوئی موثر قوت ہوتی کہ سرکار سے اسکے بدلے کچھ مانگیں اور نا ہی پھر کوئی حیثیت رہتی۔ کہنے کا مقصد یہ کہ براہمداغ کے کردار سے یہ امر واضح ہوتا جارہا ہے کہ وہ شروع دن سے ہی تحریک کو نہیں بنا رہے تھے بلکہ تحریک کو استعمال کرتے ہوئے خود کو بناتے رہے ہیں۔ ابتداء میں اسکا یہ طرز عمل نیا تھا تو اس وقت اس پر سوائے خدشات کے کوئی اٹل رائے قائم کرنا قبل از وقت تھا لیکن براہمدغ کے بعد کا کردار یہ واضح کرتا ہے کہ اسکا طرز عمل کبھی بھی ایک لمبی اور قربانیوں سے بھری جنگ لڑنے جیسا نہیں رہا ہے۔ یعنی ذرا ان امور پر غور کریں کے بھلے حادثاتی یا قبائلی اثرو رسوخ کے تحت ہی جو قوت اسکے گرد مجتمع ہوئی انہوں نے کبھی بھی اس قوت کو قومی قالب میں ڈھالنے کی کوشش نہیں کی روز اول سے لیکر آج تک تنظیمی معاملات کو چلانے کا انکا طریقہ کار ایک قبائلی بہتارکا سا رہا ہے۔

براہمدغ جس طرح اپنے موقف اور نظریے سے پسپا ہورہے ہیں اس کے وجوہات پر نظر ڈالنا انتہائی ضروری ہے کہ وہ کونسے اعمال تھے جو انہیں پسپائی تک لے گئے۔ اگر حقائق کا جائزہ لے کر دیکھیں تو سب سے بڑی وجہ اسکی بڑھتی ہوئی تنہائی ہے، نواب صاحب کے شہادت کے بعد کثیر تعداد میں بگٹی قبیلے کے لوگ اسکے ہمراہ تھے لیکن اپنے قبائلی فطرت کو دہراتے ہوئے اس نے بگٹی قبیلے کے محض ایک شاخ کو زیادہ اہمیت دی اور ہر ذمہ داری انہیں دے دی ، جس کی وجہ سے بی آر اے میں موجود بگٹیوں کے بیچ مختلف شاخوں میں ایک نفرت اور کھینچا تانی شروع ہوگئی۔

کچھ لوگ شروع میں ہی اس وجہ سے اسے چھوڑ کر سرکار کو سلامی دے بیٹھے اور بہت سے لوگ کافی وقت تک ٹِکے رہے لیکن مسلسل نظرانداز ہونے اور قبائلی حوالے سے انہیں تنظیم میں کم حیثیت دینے کے وجہ سے ستار مسوری بگٹی کی طرح اس سے الگ ہوتے رہے، یہی ستار بگٹی جو حال ہی میں سرکار کے سامنے سرینڈر ہوا وہ گذشتہ طویل عرصے سے افغانستان میں دربدر بھٹک رہا تھا لیکن محض قبیلے کے ایک مختلف شاخ کے ہونے کی وجہ سے شیر محمد بگٹی جیسے لوگوں نے اسے بالکل تنہا کردیا جس کی وجہ سے بالآخر وہ دلبرداشتہ ہوکر سرکار سے مل گئے، صرف ستار بگٹی نہیں گذشتہ چند سالوں سے یہ سلسلہ جاری تھا،۔

یہاں یہ سوال ضرور اٹھایا جاسکتا ہے کہ اگر ستار بگٹی سمیت باقی سلامی دینے والوں میں مخلصی ہوتی تو وہ سرکار کے بجائے کسی اور تنظیم میں چلے جاتے لیکن اگر غور کریں تو اسکا ذمہ دار بھی مکمل طور پر براہمدغ ہے ، جس نے اپنے ساتھ لوگوں کو قومی تحریک کا نہیں بلکہ اپنا وفادار بنایا ہوا ہے ، اتنے سال گذرنے کے باوجود اس وقت آدھے سے زیادہ بی آر اے قومی سوچ سے عاری محض قبائلی جذبے اور ذاتی مفاد کیلئے ہمرکاب ہیں اور براہمدغ کو قومی سوچ کو وسعت دینے سے زیادہ اہم اپنا قبائلی رسوخ کو قائم کرنا ہی لگتا ہے۔

ستار مسوری بگٹی کے بعد براہمداغ بگٹی کے قابلِ بھروسہ اور ایماندار ساتھیوں میں ڈیرہ بگٹی میں شہید ہونے والے ستار بگٹی تھے جس کی شہادت کے بعد بی آر اے کو بہت بڑا دھچکا لگا اور بات یہاں تک نہیں رکی ، دریں اثناء بی آر اے کے دو اور کمانڈر جو باقی موجود کمانڈروں سے نا صرف زیادہ تجربہ کار تھے بلکہ مخلص بھی تھے ایک مصیبت میں پھنس گئے، لیکن تنظیم کے اندر قبائلی بنیادوں پر چلنے والے چپقلش کی وجہ سے بی آر اے نے انکی کسی قسم کی مدد نہیں کی اور وہ ضائع ہوگئے۔ ان نقصانات کے بعد مسلح محاذ کے بابت نہ صرف براہمداغ ایک تنہائی کے شکار ہوگئے بلکہ اس پر شدید دباو بڑھ گیا، اور دوسری طرف خاص طور پر ڈیرہ بگٹی میں بی آر اے نے عجیب کاروبار لگا دیا یعنی وہاں وہی کچھ لوگ بی آر اے سے امن لشکر اور امن لشکر سے بی آر اے میں ایسے پھلانگتے رہے ہیں جیسے دونوں میں کچھ فرق ہی نہیں۔

یعنی وہی لوگ آج بی آر اے کے ساتھ کام کررہے تھے تو کچھ دن بعد سرکار کی طرف سے زیادہ پیسوں کے آفر کے بعد امن لشکر میں چلے جاتے ہیں اور پھر بی آر اے اس بات کی پرواہ کیے بغیر سرکار سے زیادہ پیسہ دے کر انکی وفاداریاں دوبارہ خرید لیتا ہے۔ ان لوگوں کو صرف پیسے سے غرض تھا اور ہے لہٰذا انہوں نے بی آر اے کے اندر رہتے ہوئے ڈیرہ بگٹی کے لوگوں کو روز بھتے کی صورت میں ذلیل کردیا ، وہاں کوئی اگر بکریاں چراتا ہے تو اسکے بکریوں میں بی آر اے کا حصہ ہے کوئی اپنے فصل اٹھاتا ہے تو اس میں بھی بی آر اے کا حصہ، اس وجہ سے ڈیرہ بگٹی میں عوامی سطح پر یہ ہمدردی سے محروم ہوگئے۔

سیاسی حوالے سے شروع میں جذبات میں آکر جتنے لوگوں نے بی آر پی و بی آر ایس او میں شمولیت اختیار کی تھی وہ بہت جلد جھاگ کی طرح بیٹھ گئے ، بہت سے دوست بہت جلد براہمدغ کے قبائلی سوچ کو جان کر کنارہ کش ہونے لگے اور چند ہی سالوں میں بلوچستان سے بی آر پی کا وجود ہی مٹ گیا ماسوائے کچھ جی حضوروں کے، اسکے بعد یورپ کے سطح پر بی آر پی نے ایک عجیب کھیل شروع کردیا، سیاسی پناہ کیلئے یورپ آنے والے بلوچوں کو عموماً کسی پارٹی کا لیٹر ضرورت ہوتا ہے تو ان کے اس مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بی آر پی نے اس شرط پر لیٹر دینا شروع کردیا کہ وہ بی آر پی میں شامل ہوجائیں اور اسکے مظاہروں میں شرکت کیا کریں ،۔

اور مظاہرے بھی ایسے کہ اگر بالفرض جنیوا میں مظاہرہ ہورہا ہے تو پیسہ پانی کی طرح بہاتے ہوئے یورپ کے تمام ممبروں کو بلایا جاتا ہے۔ ان کے ہوٹلوں میں قیام و طعام کے خرچے اور گھومنے کا خرچہ بھی بی آر پی ادا کرتے ہوئے انہیں ساتھ رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور لوگوں کو سیاسی پناہ کی خاطر اپنی سیاسی حیثیت کو منوانے کیلئے ایک آدھ تصویروں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ انکو سیاسی پناہ مل سکے اور بی آر پی کو زیادہ تعداد کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ تصویریں میڈیا میں دے کر اپنا وجود ثابت کرسکیں۔ پھر رات گئی بات گئی کی طرح جیسے ان لوگوں کو سیاسی پناہ مل جاتا ہے تو وہ یورپ کی بھیِڑ میں گم ہوتے جاتے ہیں اور بی آر پی کو اپنے مظاہرے کرنے کیلئے کچھ نئے آئے ہوئے بلوچ مل جاتے ہیں اور یہ ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کا کاروباری تعلق چلتا رہتا ہے۔

اب اس طرز عمل سے بی آر پی چند ایک بڑے مظاہرے تو بیرون ملک کرلیتی ہے لیکن حقیقی معنوں میں وہ وہاں بھی وجود کھوچکی ہے ، کوئی بھی سیاسی شخصیت اسکے ساتھ نہیں جڑی ہے اور اپنا خرچہ پانی نکالنے کیلئے ایک ایسا خوشامدی حلقہ براہمدغ کو گھیرے ہوئے ہے کہ بی آر پی بیرون ملک بھی کسی وڈیرہ کا وتاخ کا ماحول پیش کرتا ہے۔ یہ سلسلہ اب سیاسی حوالے سے بھی براہمداغ کو مکمل تنہائی کا شکار کرچکا ہے۔

سب سے بڑا دھچکا براہمدغ کو اس وقت لگا ہے جب حال ہی میں اسکے دوغلے پالیسیوں کی وجہ سے اسکی مدد کرنے والے کچھ عالمی کھلاڑی اس پر سے اعتماد کھوبیٹھے ہیں۔ براہمدغ بگٹی ڈیرہ بگٹی میں گیس پائپ لائنوں کو اڑانے کیلئے کچھ عالمی قوتوں سے مدد حاصل کرتے رہے ہیں اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اس مد میں وہ بہت پیسہ بٹورتے رہے، یہی وجہ تھی کہ وہ سب سے زیادہ توجہ گیس پائپ لائنوں کو اڑانے پر ہی لگاتے رہے، لیکن ایک طرف وہ کچھ عالمی قوتوں سے پائپ لائنوں کو اڑانے کیلئے پیسے یا امداد لیتے رہے جو بری بات بھی نہیں تھی لیکن دوسری طرف سے اسے لالچ نے یوں گھیر لیا کہ اس نے حال ہی میں خفیہ طریقے سے ڈیرہ بگٹی سے گیس نکالنے والے کمپنیوں سے ٹیکس لینا شروع کردیا جس کے بدلے یہ معاہدہ ہوا ہے کہ وہ پائپ لائنوں کو نہیں اڑائیں گے۔

یعنی ایک طرف سے وہ پائپ لائنوں کو اڑانے اور دوسری طرف سے نہیں اڑانے کیلئے پیسے بٹورتا رہا جس کی وجہ سے بالآخر اسکی یہ حقیقت کھل گئی اور اس دوغلے کردار کی وجہ سے عالمی کمک کاروں نے اپنا ہاتھ اس سے کھینچ لیا، شاید براہمداغ نے عالمی قوتوں کو بھی شیر محمد بگٹی کی طرح ایسا نادان سمجھا ہوا تھا کہ وہ بس براہمدغ کے سوکھے باتوں سے ہی جی حضور کرتے ہوئے اس پر اندھا یقین کریں گے لیکن یہ ممکن نہیں ہوسکا اور عالمی سطح پر بھی براہمدغ تنہائی کا شکار ہوگیا۔

اپنے قبائلی روایتی ، لالچی اور فرسودہ سوچ کی وجہ سے آج براہمدغ نے نا صرف خود کو بلکہ اپنے شوکت کیلئے بنائے گئے تنظیموں کو بھی ایک بحران میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ اپنے نا اہلی اور سیاسی بدنیتیوں کی وجہ سے اب وہ سیاسی ، عسکری اور سفارتی سطح پر محض چند نالائق جی حضوروں کے بیچ پھنسے مکمل تنہائی کا شکار ہوچکے ہیں اور یہ گھیرا انکے گرد ہر محاذ پر تنگ ہوتا جارہا ہے، اب کیونکہ انکے پاس نہ وہ سیاسی سوچ ہے اور نا ہی نیت کے وہ ان معاملات کو سلجھا سکیں ، لہٰذا اب وہ دشمن کی طرف سے رحم کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ جیسے کے میں نے ایک گذشتہ تحریر میں ذکر کیا تھا کہ براہمدغ کا یہ حالیہ انٹرویو نہ غیر ارادی طور پر کہے ہوئے باتوں کا مجموعہ ہے اور نہ ہی یہ انکے موقف کے بدلنے کا آغاز ہے۔

بلکہ جیسا کہ وہ خود اپنے انٹرویو میں بیان کرتے ہیں کہ وہ تو ہمیشہ سے مذاکرات کے انتظار میں رہے ہیں لیکن کسی نے اس سے بات نہیں کی ہے۔ یہاں تک نہیں بلکہ شروع دن سے آپ دیکھیں براہمدغ کا تنظیمی معاملات بلکہ اس جہد میں حصہ داری کا طریقہ ایسا نہیں رہا ہے کہ وہ ادارے بنانا چاہتا ہو یا ایک لمبی جنگ چاہتا ہو، وہ اصل میں پاکستانی میڈیا کے زبان میں سیاسی سوچ رکھنے والے شخص ہیں یعنی چار دن بندوق چلائی ، سرکار کو بلیک میل کیا اور اپنے لیے طاقت کی مانگ کردی ، لیکن تحریک میں جڑنے کے بعد بہت جلد براہمدغ کو احساس ہوا کہ سنگت حیربیار کی صورت میں باقی آزادی پسند آزادی کے حوالے سے بہت سخت اور ناقابلِ ترمیم و تبدیل موقف رکھتے ہیں، لیکن وہ اس موقف کے ساتھ زیادہ دیر نہیں چلنا چاہتا تھا یا چل نہیں سکتا تھا ۔

لہٰذا یہی چیز اسے آہستہ آہستہ بی این پی مینگل کے قریب کرتی گئی، کیونکہ بی این پی مینگل کے سیاسی حکمتوں کے تحت آپ آزادی پسند اور جی ایچ کیو کے منظور نظر دونوں ٹھہر سکتے ہیں اور ہاں بیچ میں ہچکیاں آتی ہیں اور چند درجن کارکن مارے جاتے ہیں لیکن پھر تعلقات معمول پر آجاتے ہیں ، براہمدغ کے سوچ اور نیت کو بی این پی مینگل کی سیاست شروع سے ہی سوٹ کرتی تھی اسلئے بہت جلد اچھے تعلقات قائم ہوگئے اور پھر بہت جلد اسکے اثرات بھی واضح ہوتے گئے جیسے براہمدغ صاحب نے بی این پی کی خاطر بی این ایف کو توڑ دیا ، پھر کچھ دن بعد ریفرنڈم یا حق خودارادیت پر بھی اتر آئے اور حالیہ انٹرویو کے مندرجات پر غور کریں تو پتہ نہیں چلتا ہے کہ اختر مینگل بول رہا ہے یا براہمدغ ، یعنی ہم کمزور ہیں ، حقوق دے ، آپریشن بند کرے ، مذاکرات کیلئے تیار ہیں وغیرہ۔ اب وہی بی این پی اور کچھ کاروباری لوگ اس وقت براہمدغ اور پاکستان کے بیچ پْل کا بھی کردار ادا کرنے کی کوششوں میں ہیں۔

براہمدغ کے حالیہ انٹرویو کے وقت اور موقع کو دیکھ کر میرا یہ شک یقین میں بدلتا جارہا ہے کہ یہ الفاظ کسی اور کی مرضی سے ادا ہوئے ہیں ، شاید براہمدغ کے ممکنہ سمجھوتوں کیلئے اعتماد سازی کی کوئی شرط ہو لیکن نا دانستہ یا غالب گمان یہ کہ دانستہ طور پر براہمدغ نے یہ انٹرویو اور یہ موقف ایک ایسے وقت پیش کیا جب ریاست کو اسکی سخت ضرورت تھی۔ ذرا حالات پر غور کریں کے پاکستان نے بلوچستان میں ایک نفسیاتی جنگ شروع کیا ہوا ہے، وہ بلوچ جہد کاروں کو نفسیاتی طور پر توڑنا چاہتا ہے، ایک طرف واضح طور پر ہم ریاستی فوجی کاروائیوں میں بہت تیزی دیکھ رہے ہیں ، نا صرف جہدکاروں کے خلاف چین کی مدد سے بہت زیادہ پیسہ خرچ کرکے روازنہ بڑے بڑے آپریشن کررہا ہے بلکہ جو جہد کار اسکے دسترس سے باہر ہیں انکے خاندان والوں کو بھی نقصان دے رہا ہے یا پھر انکے گھر مال و اسباب نذر آتش کرکے انہیں معاشی و نفسیاتی طور پر اپاہج کرنا چاہ رہا ہے۔

صرف یہاں تک نہیں بلکہ ڈنڈے اور گاجر کی پالیسی اپنا کر ایک طرف سے ریاست اپنا ڈنڈا زوروں سے چلا رہا ہے تو دوسری طرف جہدکاروں کو نفسیاتی طور پر توڑنے کیلئے سرنڈروں کی صورت میں گاجر بھی دِکھا رہا ہے یعنی اگر کوئی ریاست کے ساتھ نہیں ہوگا تو اسکے خلاف بہت سخت ایکشن ہوگا اور اگر کوئی اسے سلامی ٹھوکے گا تو نا صرف سلامتی سے زندگی گذارے گا بلکہ مال و زر بھی عنایت ہونگے۔ اپنے اس نفسیاتی جنگ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ایک طرف سینکڑوں جعلی جہدکاروں کے ہتھیار پھینکنے کے مناظر اپنے چینلوں پر بار بار شہہ سرخیوں میں دِکھارہا ہے تو دوسری طرف بی آر اے ، بی ایل ایف اور یو بی اے کے غلط بھرتی پالیسیوں کی وجہ سے جو موسمی جہدکار شامل ہوئے تھے وہ بھی سلامیاں ٹھوک رہے ہیں۔

جو چیزیں قوم اور جہد کاروں کا حوصلہ بڑھاسکتے ہیں ان پر پابندی لگا ہوا ہے یعنی اب پاکستانی میڈیا کو اجازت نہیں کہ وہ بلوچستان کے اوپر کوئی پروگرام کرے سوائے منفی کے اور عالمی میڈیا کو تو کب کا یہاں سے بیدخل کردیا گیا، اوپر سے بی ایل ایف جیسے غیر ذمہ دار تنظیموں کی وجہ سے عوام کو جس طرح تنگ کرکے عوامی حمایت سے ہاتھ دھویا گیا یہ بھی پاکستان کے کام آرہا ہے۔ اسی طرح خان قلات جیسے بے حیثیت کردار کو اپنے میڈیا میں بڑھا چڑھا کر پیش کرکے اسے خریدنے کی مکمل کوشش کررہا ہے تاکہ ایک طرف سے سلیمان داود کو کوئی بڑا کردار ظاہر کرکے اسکی کوئی حیثیت بنائیں ، پھر اس کی کمزور شخصیت کا فائدہ اٹھا کر خوف و لالچ کے حربوں سے اسے خرید لیں تاکہ یہ تاثر جاسکے کے بلوچ تحریک اوپر سے ڈھ رہی ہے۔

اب ایسے ماحول میں جب پاکستان کا یہ نفسیاتی جنگ اپنے عروج پر ہے ایسے میں براہمدغ آکر عالمی میڈیا پر یہ موقف دیتا ہے کہ ، ہم کمزور ہیں وہ طاقتور ہے ہمارے ہاتھ کچھ نہیں جو بھی ایجنڈا وہ لائیں گے ہم اس پر بات کرنے کو تیار ہیں ، ہم تو جنگ نہیں مذاکرات چاہتے ہیں وغیرہ۔ اب براہمدغ اور اسکے پجاری ہزار بار ڈھٹائی کے ساتھ ان باتوں کو اپنا سیاسی حکمت گردانیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ حماقت کی انتہاء ہے، حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرکے دیکھا جائے تو ریاست کے اس نفسیاتی جنگ نے قوم کا حوصلہ اتنا پست نہیں کیا جتنا براہمدغ کے دس منٹ کے اس انٹرویو نے کردِکھایا۔ اب ذرا دیکھیں کہ جیسے ہی انٹرویو ہوتی ہے ۔پورے پاکستانی میڈیا پہلے سے تیار براہمدغ کے پسپائی اور آزادی سے دستبرداری کا اتنا پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ آج پورے بلوچستان میں ایک سراسیمگی اور مایوسی پھیل گئی ہے۔

اگر آپ باقی سب شکوک اور براہمدغ کے کردار ، نیت اور غلطیوں سے قطع نظر ہوکر صرف اس انٹرویو کو اسکے پالیسی کے تحت ہی دیکھیں تو اس شخص نے اپنے ایک انٹرویو سے قوم کے حوصلوں پر اتنی کاری ضرب لگائی ہے جتنا کہ پاکستان کے بمباریوں نے بھی نہیں لگائی کیا اس شخص پر شک کیے بغیر بھی اس پست ترین حماقت پر اسے کوئی لیڈر تصور کیا جاسکتا ہے؟۔ یہاں ایک اور بات پاکستانی میڈیا اور اسکے منظور نظر صحافیوں کا بھی کردار ہے جو پہلے سے تیار انٹرویو کے ہوتے ہی براہمدغ کو تحریک کا سب سے مضبوط اسٹیک ہولڈر ثابت کرنے اور سب سے زیادہ سیاسی سمجھ بوجھ کا مالک قرار دیکر اسکے پسپائی کا اعلان کرتے رہے ۔ صدیق بلوچ جیسے پاکستانی منظور نظر نشان امتیاز یافتہ صحافی براہمدغ کو سیاسی مدبر قرار دیکر اسے اکبر خان کا سیاسی جانشین قرار دیکر تعریفیں کرتے رہے۔ اس سارے میڈیائی مہم اور پروپیگنڈے کا مقصد قومی تحریک کے حوالے سے ایک پسپائی اور مایوسی کا تاثر دینا تھا جس میں وہ کسی حد تک کامیاب رہے اور براہمدغ اس میں ایک اہم کردار رہا ، اب براہمدغ کا یہ کردار کس حد تک مشکوک ہے اور کس حد تک نادانی میرے خیال میں اس پر مزید کہنے کی ضرورت نہیں۔

براہمدغ بگٹی کے اس انٹرویو کے وقت اور الفاظ کے چناو ، اسکے ماضی کے کردار ، اسکے سیاسی اپروچ اور سوچ ، اجتماعیت کو ہمیشہ کچل کر انفرادیت کی جانب رجوع کی روایت اور بی این پی جیسے پارٹی سے تعلقات اور مبینہ سمجھوتوں و موقف سے پسپائی کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ براہمدغ بگٹی کا اس تحریک میں دن زیادہ نہیں ہیں۔ جیسا کہ گذشتہ ایک تحریر میں عرض کیا تھا اور دوبارہ کرتا ہوں کہ اب ہمیں باریکیوں کو دیکھنا ہوگا کیونکہ جو بھی ممکنہ سمجھوتے ہونگے وہ غیر محسوس انداز میں سامنے آئیں گے ۔ ایسا نہیں ہوگا کہ اگلے دن براہمدغ جہاز میں بیٹھ کر سرفراز اور عالی دونوں کی نشستیں سنبھال لیں گے، بلکہ وہ اپنے موقف سے آہستہ آہستہ اتریں گے اور غیر محسوس انداز میں کچھ ریفرنڈم ، حق خودارادیت ٹائپ کا خچر نما موقف کے ساتھ ایک طرف سے تحریک کا رخ موڑنے کی کوشش کریں گے تو دوسری طرف سے کچھ سرکاری نرمیاں اور مراعات سے بھی درون خانہ مستفید ہونگے۔

درج بالا حقائق ، قیاسات اور خدشات سے ایک لمحے کیلئے قطع نظر ہوکر اگر اس انٹرویوں کے مندرجات پر ہی غور کریں تو یہ بات مکمل واضح ہوجاتی ہے کہ براہمدغ بگٹی محض محدود سوچ کے مالک ایک کٹر قبائلی ہی نہیں بلکہ سیاسی طور پر نابالغ نہیں بلکہ نااہل ہیں۔ پورے انٹرویو میں وہ ڈیرہ بگٹی کے ڈبے سے باہر نکلنے کی جرت ہی نہیں کرتے ، بار بار یہی کہتا رہا کہ ڈیرہ بگٹی میں یہ آپریشن ہوتا رہا یہ ظلم ہوتا رہا، پھر گھوم پھر کر میرے دادا ایسے تھے، 17 مارچ پر حملہ ایسے ہوا ، مضحکہ خیز حد تک اپنے کم علمی یا بغض کا اظہار کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ یہ جنگ 2006 سے جاری ہے یعنی جب تک ڈیرہ بگٹی میں جنگ نہیں چھڑی تھی اس سے پہلے بلوچستان میں جاری جنگ اس کیلئے جنگ ہی نہیں تھی۔

لیکن اس انٹرویو میں اسکے دو متنازعہ جملوں نے حقیقی معنوں میں ایک طرف اسکے کردار اور حیثیت کو کھول کر رکھ دی تو دوسری طرف کافی کھلبلی بھی مچائی ، اول یہ کہ وہ کہتے ہیں پاکستان جو بھی ایجنڈا لانا چاہے ہم اس پر بات کرنے کو تیار ہیں ہم کمزور ہیں ، اس جملے سے وہ عالمی سطح پر بلوچ موقف کو ایک گہرا نقصان پہنچا رہے ہیں کیونکہ اب تک دنیا کے ہر فورم پر بلوچوں نے خاص طور پر سنگت حیربیار مری یہ موقف رکھتا آرہا ہے کہ بلوچ اگر دشمن سے مذاکرات کریں گے تو اسکا ایجنڈا بلوچ آزادی ہوگا اور وہ بھی عالمی ضامنوں کے نگرانی میں ہی مذاکرات ہونگے۔

ذرا سوچیں براہمدغ بیرون ملک عالمی سفارت کاری اور دنیا کو تحریک کے بارے میں بتانے کے غرض سے ہی ہیں اور اس کیلئے میڈیا ایک بہترین ٹول ہے جہاں آپ اپنا موقف رکھتے ہو ، لیکن براہمدغ بی بی سی جیسے عالمی نشریاتی ادارے کے سامنے بلوچ موقف یہ پیش کرتے ہیں کہ ہمارا کوئی موقف اور ایجنڈا ہے نہیں، اور دنیا کے سامنے اپنی کمزوری تسلیم کرتے ہیں۔ میرے خیال میں عالمی سطح پر ہمارے موقف کو اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا تھا۔ جنگ میں ہر کوئی پروپیگینڈہ کرکے اپنی پوزیشن مضبوط اور دشمن کو کمزور ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ عالمی قوتیں انہیں کچھ سمجھیں اور انکی حمایت کریں کیونکہ دنیا طاقت کے پیچھے ہی جاتی ہے اور لنگڑے گھوڑے پر کوئی پیسے نہیں لگاتا۔

لیکن براہمدغ نے ایک طرف دنیا کے سامنے ہماری پوزیشن کمزور ثابت کرنے کی کوشش کی اور اوپر سے عالمی قوتوں کو یہ تاثر بھی دیتا رہا کہ بلوچ سمجھوتے کیلئے تیار ہیں۔ بہت سے سنگتوں کا تجزیہ سنتا آرہا ہوں کہتے ہیں کہ دنیا ہمیں کردوں جیسی کمک اس لیے نہیں ملتیکیونکہ انہیں ابتک بھروسہ نہیں کہ بلوچ واقعی ایک لمبی جنگ لڑیں گے یا پھر ماضی کی طرح سمجھوتہ کریں گے ، کیونکہ اگر کمک حاصل کرنے کے بعد بلوچ سمجھوتا کرتے ہیں تو اسکا نقصان انہیں ہی ہوگا۔ اسی لیئے وہ ابھی تک بلوچ تحریک کو پرکھ رہے ہیں، لیکن اس نواب صاحب نے دنیا کے خدشات یقین میں بدلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا۔

دوسری جگہ براہمدغ کہتے ہیں کہ اگر بلوچ عوام چاہیں تو وہ آزادی سے دستبردار ہوسکتے ہیں، مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے کہ کیا ایک لیڈر قوم کو بتاتا ہے کہ راستہ کونسا ہے یا قوم لیڈر کو بتاتا ہے کہ کس راستے چلنا ہے؟ کسی بھی سماج میں یا تحریک میں قومی یا عوامی مفادات کا تعین اسکے سیاسی سمجھ بوجھ کے مالک لوگ یا لیڈر کرتے ہیں اور اجتماعی مقصد کا تعین کرکے اسکے حصول کیلئے کوشش کرتے ہیں عوام کو سمجھاتے ہیں ، قائل کرتے ہیں اور اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں ، ورنہ بلوچستان ہو یا دنیا کا کوئی بھی ملک یا سماج ایک عام شہری اپنے انفرادی یا خاندانی مفادات سے آگے نہیں دیکھتا بقولِ ایک دوست کے کہ اگر آج بھی عام بلوچوں سے پوچھا جائے تو وہ روڈ نالی اور نوکری سے آگے نہیں سوچیں گے ، پھر ایسے عالم میں اس بات کا تعین آپ کیسے کرسکتے ہیں کہ فیصلہ عوام کرے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گی،

کیا تحریک میں شراکت داری کرتے وقت براہمدغ کو معلوم نہیں تھا کا مقصد کیا ہے؟ کمال کی بات ہے ایک لیڈر نہیں جانتا کہ مقصد کیا ہے پھر یہ 15 سالوں کی قربانیاں ، دربدری ، خون خرابہ کس لیے ہوا؟ ذرا ایک لمحے سوچیں کہ گذشتہ 15 سال کے دوران ہم نے کیسے کیسے نگینے کھوئے ہیں ، کیا عوام یا کوئی بھی لیڈر بلکہ سارے کے سارے لیڈر ملکر بھی یہ فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ بس ہے جو گیا وہ رائیگاں اب آزادی سے دستبردار ہوتے ہیں؟

گذشتہ تین سالوں کے دوران براہمدغ بگٹی یا اس کی تنظیموں پر جتنی تنقید کی گئی یا سوال اٹھائے گئے ، وہ انہی عوامل یا طرز سیاست پر تھے جن کا نتیجہ آج براہمدغ کا قومی آزادی کے نعرے سے بتدریج پسپائی کی صورت میں ظاہر ہورہا ہے، آج براہمدغ کے اس انٹرویو سمیت دوسرے کئی سنجیدہ مسائل جو اب سر اٹھا کر ہر آنکھ کو دِکھ رہے ہیں ان سب کو روکا ، ٹالا یا قبل از وقت سدھارا جاسکتا تھا لیکن پہلے سدھارنے کے کسی بھی کوشش کو درون خانہ اور بعد ازاں عوامی سطح پر تنقید کو جن بھونڈے اور غیر سیاسی طریقوں سے ٹالا گیا اسکی وجہ سے آج کے موجود مسائل نے اب ہمیں چاروں طرف گھیر لیا ہے۔ ابھی بھی وقت ہاتھوں سے نہیں نکلا ہے، ابھی بھی سدھار لایا جاسکتا ہے ، ابھی تک جیتنے کی ساری امیدیں روشن ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ ہم قومی سوچ کو مطمع نظر بناکر ، قومی مفادات کو مقدم جان کر ہر قسم کے گروہی و انفرادی خواہش سے مبرا ہوتے ہوئے ان مسائل پر غور کریں ، انہیں تسلیم کریں اور خود احتسابی کا آغاز کریں۔

One Comment