مہرجان
ول ڈیورنٹ کی شہرہ آفاق تصنیف “تہذیب کی کہانی“پڑھتے ہوئے نہ جانے کیوں اک احساس دل میں بار بار ابھرتا ہے کہ ہم ابھی تک تہذیب کے ابتدائی دور ہی سے گزر رہے ہیں ۔وہی دقیانوسی سوچ وہی ریاستی بول وہی طاقت کا خمار۔اگرچہ سائنس کی ترقی اپنی جگہ لیکن ذہنی ترقی فقط اتنی ہوئی ہے کہ سامراج کا طریقہ واردات بدل گیا اور جو اس پر بولنے لگے تو اسی طرح خاموش کیا جاتا ہے جیسے پہلے کیا جاتا تھا۔
فقہیہ شہر نےکہا بادشاہ سے
بڑا سنگین مجرم ہےآقا
اسے مصلوب ہی کرنا پڑیگا
کہ اس کی سوچ ہم سے مختلف ہے۔
نہ جانے کیوں ریاستی, جمہوری, لبرل دانشور اس فریب میں مبتلا ہے کہ یہ ریاست جو کہ اک خام نظریہ کے بنیاد پہ بنا ئی گئی اک مارشل اسٹیٹ سے جمہوری اقدار کو اپنا کر فلاحی ریاست کا روپ دھاریگی جبکہ زمینی حقائق بالکل ہی مختلف ہیں۔ تشکیل ریاست کیونکر ممکن ہوئی خود اک بہت بڑا سوال ہےاور الحاقات کیسے ہوئے اس کا جواب طاقت کے جواز کے علاوہ اور کوئی بھی جواز تاریخ کے اوراق میں نہیں ملتا اور یہی طاقت آج تک اپنے آپ کو مختلف طریقوں سے منوانے پر تلی ہوئی ہے۔
آج اس کا منظر پنجاب کے علاوہ کہیں پر دیکھا اور سنا جا سکتا ہے اور یہ سب جمہوریت کے پردے میں کیا جارہا ہےلیکن قربان جاوں ان دانشورں پہ جو اب تک جمہوریت کا راگ الاپ رہے ہیں۔ آج جہاں بلوچستان میں بقول ریاست ترقی ا پنے عروج پر ہے جہاں شہد اور دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ جہاں جشن آزادی ایوب اسٹیڈیم میں بڑے پر جوش انداز میں منایا جاتا ہے۔ جہاں بلوچ قوم کے دل اب اہل پنجاب کے ساتھ دھڑکتےہیں۔
جہاں خون کشت اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے جہاں آزادی کی تحریکیں داستا نیں بنتی جارہی ہیں۔ اس کے باوجود ریاست کو اک انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز میں اک درویش خدا مست میر علی احمد تالپور اور محمد تقی کے ہفتہ وار کالم سے خوف محسوس ہو رہا ہے اور انکے قلم سے نکلے ہوئے لفظوں کو پاپند سلاسل کرنا چارہے ہیں اور راشد رحمان جو کہ ڈیلی ٹائمز کے ایڈیٹر ہے احتجاجاّ مستعفی ہونا پڑتا ہے۔
پتہ نہیں کیوں ریاست ابھی تک 70کے دہائی سے نکل ہی نہیں پارہی کہ اب یہ دور فقط مطالعہ پاکستان اور پی ٹی وی کا دور نہیں رہا۔ اب لوگ سوال اٹھارہے ہیں اورتاریخ تخریب کے عمل سے گزر رہی ہے ۔ اک کالم پہ فقط پاپندی لگانے سے سوچ کی رفتار کو نہیں روکا جاسکتا۔
سبین محمود اک نہتی لڑکی کو بلوچستان بولنے پر قتل کیا جاتا ہے اور آج بلوچستان پر لکھنے کو جرم ٹھہرایا جاتا ہے اگر بلوچستان واقعی بدل رہا ہے کیمرہ کی آنکھ سے لے کر قلم نوک تک ۔بندوق قلم کیمرہ سب ریاستی بیانیہ ہی کو آگے بڑھارہے تو پھر یہ خوف کیوں اور یہ سوچ کیسی۔۔
بس حسن مجتبیٰ کے اس نظم کے ساتھ کہ
بول کے لب آزاد نہیں ہے
بول کہ سچ زنجیریں پہنیں
سنگینوں کے سائے میں غائب شدہ ہے
بول کہ لب تیرے پہ تالے ہیں
بول کہ گیتوں پہ پہرے ہیں
بول کہ لب آزاد نہیں ہے
بول کہ بلوچستان کہنا جرم ہے ٹھہرا
بول کہ گولی اسکی گواہی
پانچوں گولی اسکی گواہی
جسم جواں میں پیوستہ ہے
بول کہ لب آزاد نہیں ہے
بول بلوچستان کے اب کے
پیارے پختونستان کے اب کے
میرے مہران کہ اب کے
بول کہ اک پلڑا ہے
جس میں بھاری بھرکم بوٹ پڑے ہیں
اس میں سارے جھوٹ پڑے ہیں
بول کے لب آزاد نہیں ہے
♣
2 Comments