سبط حسن
انارکے چھے دانے۔۔۔ ایک یونانی کہانی
سینکڑوں سال پہلے کی بات ہے ، یونان میں بہت سے دیوتااور دیویاں رہا کرتی تھیں۔ ان میں سے ایک دیوی کا نام بھاگوان تھا۔ بھاگوان، زمین پر اُگنے والے ہر قسم کے پودوں اور درختوں کا خیال رکھتی تھی۔ بلکہ اس کی مرضی کے بغیر کوئی پودا اُگ ہی نہ سکتا تھا۔ وہ سورج کے نکلنے کا بندوبست کرتی اور بادلوں کو حکم دیتی کہ وہ پانی لے کر آئیں اور زمین پر جہاں ضرورت ہو، برس جائیں۔ پودوں پر کوئی پھل، سبزی یااناج اس کی مرضی کے بغیر نہیں لگ سکتاتھا۔
بھاگوان ہمیشہ خیال رکھتی کہ اس کے ذمے تمام کام ٹھیک طریقے سے ہوتے رہیں تاکہ انسانوں کی ضروریات پوری کرنے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ پڑے۔ وہ بڑے ہی اچھے دل والی تھی اور سب لوگ اسے پسند کرتے تھے۔
ایک دفعہ بھاگوان کی ساتھی دیوی، جمیلہ کسی وجہ سے بھاگوان سے ناراض ہوگئی ۔ ناراض دیوی جمیلہ غصے میں ایک پہاڑ کے اوپر بیٹھ گئی۔اس نے بھاگوان کو تکلیف پہنچانے کے طرح طرح کے منصوبے بنائے۔ بہت سے منصوبوں پر عمل بھی کیا، مگر کامیاب نہ ہوسکی۔
وہ غصے اور بے بسی کی حالت میں پہاڑ کے اوپر گھاس پر بیٹھی تھی۔ اس کے اردگرد اس کا بیٹا قیس اپنے گلے میں تیر اور کمان ڈالے کھیل رہا تھا۔ بھاگوان کی بیٹی آسیہ، وہیں پہاڑ کے دامن پر اُگے پھول چن رہی تھی۔ اتنے میں ایک ہیبت ناک دیوتاپلوٹو، اپنی رتھ پر سوار، نمودارہوا۔
یہ سب منظر دیکھ کر جمیلہ کے ذہن میں ایک خیال آیا ۔ اس نے اپنے بیٹے قیس کواپنے پاس بلوایا ، اور اس سے کہنے لگی: ’’بیٹا، اپنا جادوئی تیر نکالو اور نشانہ لگا کر پلوٹو کے دل پر چلادو۔ اگر یہ تیر اس کے دل میں اتر گیا تو وہ جس لڑکی کو دیکھے گا ، اسے پسند کرنے لگے گا۔ اس وقت یہاں ایک ہی لڑکی ،آسیہ ہے۔ وہ آسیہ کو دیکھے گا اور اسے پسند کرنے لگے گا۔۔۔‘‘
قیس نے ویسے ہی کیا، جیسے اس کی ماں نے کہا تھا۔ تیر چلا اور سیدھا ، پلوٹو کے دل میں اتر گیا ۔ پلوٹو کی نگاہ جونہی آسیہ پر پڑی ، وہ اسے پسند کرنے لگا۔پلوٹو نہ صرف ہیبت ناک دیوتاتھا بلکہ وہ نہایت ظالم بھی تھا____وہ جو کچھ بھی کرنا چاہتاتھا، پوراکرکے ہی دم لیتا تھا۔ اس نے جب اپنے دل میں بھاگوان کی بیٹی آسیہ کے لیے پیار محسوس کیا تو اس نے آسیہ سے پوچھنے کی بھی زحمت نہ کی۔ وہ اپنی رتھ کو اڑاتاہوا، آسیہ کے پاس آیا، اسے اپنے بازوؤں میں اٹھایااور رتھ کو اڑاتا ہوا ، نظروں سے غائب ہوگیا۔
پلوٹو کے گھوڑے بالکل سیاہ کالے مگر چمکدار جلد والے تھے۔ وہ طوفان سے بھی زیادہ تیز بھاگتے تھے۔ پلوٹو، زمین کے نیچے ، اندھیروں کی بستی میں رہتاتھا۔ گھوڑے زمین کے نیچے اتر تے چلے گئے اور آخر کار پلوٹو کے گھر کے دروازے کے سامنے آکھڑے ہوئے۔
پلوٹو کے گھر کے دروازے کے سامنے بڑے بڑے کتے بندھے تھے۔ سیاہ کالا رنگ اور ہر ایک کے تین تین منہ تھے۔ وہ اپنے تینوں مونہوں سے بھونک رہے تھے۔ بھونکنا ایسا کہ جیسے کالے بادل گرج رہے ہوں۔ تینوں کتے سخت غصے میں تھے۔ وہ جن زنجیروں سے بندھے ہوئے تھے، ان کوبہت زور زور سے کھینچ رہے تھے ۔ لگتاتھا کہ وہ زنجیریں توڑ کر آسیہ پر حملہ کردیں گے اور اسے کاٹ کھائیں گے۔
پلوٹو نے کتوں سے بات کی تو وہ سب ایک دم خاموش ہوگئے ۔محل کا دروازہ کھلا اور پلوٹو اندرداخل ہو گیا۔ ہرطرف اندھیرا تھا۔ اندھیرے میں صرف چمکتی ہوئی آنکھیں نظر آرہی تھیں۔ یہ آنکھیں ان بھوتوں کی تھیں جو محل میں پہرہ دیتے تھے۔ آسیہ نے ایسی خوفناک جگہ کبھی نہ دیکھی تھی۔ وہ سخت ڈری ہوئی تھی۔ ڈر کی وجہ سے اس کے جسم میں ذرا برابر بھی طاقت نہ تھی۔ اس سے چلنا مشکل ہورہاتھا ۔ پلوٹو نے آسیہ کو محل کے اندر آنے کا کہا ۔ آسیہ نے اٹھنے کی کوشش کی مگر خوف کے مارے وہیں گر پڑی۔ پلوٹو نے آسیہ کو اپنے بازوؤں پر اٹھایا اور اسے محل کے اندر لے گیا۔
’’اس محل میں موجود ہر چیز تمھاری ہوگی۔۔۔ اگر تم اسی طرح مجھے پسند کرو جیسے میں تمھیں پسند کرتاہوں‘‘پلوٹو نے آسیہ سے کہا۔ وہ اسے محل کی سیر پر لے گیا۔ محل بہت خوبصورت تھا۔ شیشے کے فرش تھے اور ان کے نیچے پانی بہہ رہا تھا ۔ پانی اس قدر صاف شفاف تھا کہ اس میں تیرتی رنگ برنگی مچھلیاں آسانی سے دیکھی جاسکتی تھیں۔ برتن، سونے یا چاندی کے تھے اور ان پر خوبصورت پتھر لگے ہوئے تھے۔ جگہ جگہ پھولوں کی پھلواڑیاں تھیں اور رنگ برنگے خوبصورت پھولوں سے دھیمی دھیمی خوشبو آرہی تھی۔ محل میں جگہ جگہ خوبصورت لباسوں میں، خوبصورت لڑکیاں کھڑی تھیں۔
آسیہ سخت سہمی ہوئی، کسی چیز کی طرف نہیں دیکھ رہی تھی۔ وہ مسلسل رو رہی تھی ۔ پلوٹو یہ دیکھ کر تھوڑا سا پریشان ہوا۔ وہ آسیہ کو اپنے کمرے میں لے آیا۔ کمرے میں پھول ہی پھول تھے اور ان کے بیچ ایک بستر تھا ۔ پلوٹو نے آسیہ کو بستر پر بٹھایا اور خادماؤں کو حکم دیا کہ وہ بہترین کھانے لے کر آئیں۔ آسیہ کو خوش کرنے کے لیے رقاصائیں بلوائی گئیں۔ تھوڑی ہی دیر میں طرح طرح کے خوشبودار کھانوں کا دستر خوان بچھ گیا۔ مگر آسیہ نے ایک لقمہ تک نہ لیا۔ موسیقی اور رقص سے اس کے دِل کابوجھ ہرگز ہلکا نہ ہوا ۔ وہ اب بھی اداس تھی اور اپنی ماں کو یاد کرکے رو رہی تھی۔
II
شام ہو گئی ۔ بھاگوان اپنے گھر میں بیٹھی، اپنی بیٹی کا انتظارکررہی تھی ۔ جب اندھیرا چھانے لگا تو بھاگوان گھبرا گئی۔ وہ فوراًاٹھی اور پہاڑ پر چلی آئی۔ وہ پہاڑ پر اُگی پھلواڑی تک آئی۔ وہاں ایک طرف پھولوں کی مالائیں گری ہوئی تھیں۔ آسیہ ہر روز، پھولوں کی مالائیں بناتی تھی اور شام سے پہلے، انھیں اپنے گلے اور سر پر سجائے گھر لوٹ آتی تھی۔
مالاؤں کو دیکھ کر بھاگوان کا دل لرزا ۔ اس نے ادھر اُدھر بھاگنا شروع کردیا۔ وہ سخت بے قر ار ہو رہی تھی اور چیخنے کے انداز میں اپنی بیٹی کو پکار رہی تھی۔ اسے کسی طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔ بھاگوان پسینے میں ڈوبی،سوچنے لگی کہ ہو نہ ہو اس کی بیٹی کہیں گم ہوگئی ہے۔
رات رونے میں کاٹی۔ صبح ہوئی تو بھاگوان نے زمین کی کوئی جگہ نہ چھوڑی ، جہاں وہ اپنی پیاری بیٹی کو ڈھونڈنے نہ گئی ہو۔ وہ جہاں جاتی، روتی پیٹتی ، اپنی بیٹی کو بلاتی مگر آسیہ کا کچھ بھی پتانہ چلا ۔بہت دن گزر گئے۔ بھاگوان ، سارادن روتی رہتی اور پہاڑ کے ایک کونے میں بیٹھی رہتی۔ ایک دن وہ اسی حالت میں بیٹھی تھی کہ ایک ننھی سی بچی اس کے پاس آئی اور اس سے کہنے لگی:
’’آپ کیوں اداس ہیں؟ چلیے ، ہمارے گھر، میری ماں آپ سے مل کر خوش ہوگی اور آپ کو کھانے کے لیے مزیدار چیزیں دے گی۔۔۔‘‘
بچی نے اس قدر پیار سے بھاگوان سے بات کی کہ پہلی دفعہ اس کا دھیان اپنی بچی سے ہٹ کر کسی اور طرف گیا۔ بچی نے ایسی میٹھی باتیں کیں کہ بھاگوان اس کے ساتھ چلنے پر مجبور ہو گئی۔ وہ اس بچی کے ساتھ، اس کے گھر چلی آئی۔
بھاگوان بچی کے گھر میں داخل ہوئی اور کیادیکھتی ہے کہ اس بچی کے امی ابوسخت پریشان ہیں۔ ان کے سامنے بستر پر ایک بچہ لیٹاتھا اورسخت بخار میں تپ رہا تھا ۔ ماں باپ، دونوں ہی بڑی بے بسی سے بچے کو دیکھ رہے تھے۔ انھیں کچھ سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ وہ اپنے بچے کی جان بچانے کے لیے کیا کریں۔ بھاگوان نے جب بچے کی یہ حالت دیکھی تو فوراًفکرمند ہوگئی۔ وہ تو خود ہر پودے کو اُگاتی تھی۔ اسے ہر پودے کی تاثیر معلوم تھی۔ اس نے فوراًایک درخت کے نرم نرم پتے توڑے، ان کو پیسا اور پانی میں ملاکربچے کو پلادیا۔ دوا کابچے کے حلق میں اترنا تھا کہ بچہ بالکل ٹھیک ہو گیا ۔ وہ اٹھ بیٹھا اور اپنی بہن کے ساتھ کھیلنے لگا ۔ یہ سب دیکھ کر بچے کے ماں باپ بہت خوش ہوئے۔
بہت سے دن گزرگئے مگر آسیہ کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ ہوا۔ بھاگوان ہر وقت سوچتی رہتی کہ معلوم نہیں اس کی بچی کہاں ہے، کس حال میں ہے____معلوم نہیں زندہ بھی ہے کہ نہیں۔۔۔! اس دوران اس نے ہر طرح کے کام کرنا چھوڑ دیے۔ اس کا دل کسی کام کے لیے تیار نہ تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ پودوں نے اُگنابند کردیا ۔ بادلوں نے بارش برساناچھوڑ دیا اورپانی نہ ملنے کے باعث تمام اجناس کے پودے مرنے لگے۔ سورج نے بھی طلوع ہوناترک کردیااور اس کی وجہ سے درختوں پر لگے پھل کچے ہی رہ گئے۔ زمین پر ہر طرف لوگ بھوکے مرنے لگے۔
دوسرے دیوی دیوتا، زمین پر ہونے والی یہ بربادی دیکھ کر پریشان ہونے لگے۔ وہ سب ایک جگہ پر اکٹھے ہوئے۔ انھوں نے فیصلہ کیاکہ فوراًکچھ کرنا ہوگا، ورنہ زمین برباد ہو جائے گی۔ انھوں نے بھاگوان کے اس طرح اداس رہنے کہ وجہ معلوم کی۔ انھیں جمیلہ اور پلوٹو کی سب کارستانیوں کی خبر ہوگئی تھی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ جمیلہ کے غصے کو کیسے ٹھنڈا کیاجائے۔ پلوٹو جیسے ظالم دیوتا سے آسیہ کو کیسے چھڑایا جائے ۔ سب سے بڑامسئلہ یہ تھا کہ بھاگوان کو کیسے بتایاجائے کہ اس کی بیٹی پلوٹو کی قید میں ہے۔
آخر ایک دیوتا نے ہمّت کرکے بھاگوان کو سارا قصہ کہہ سنایا۔ بھاگوان نے یہ سب سنا اور سیدھی جیوپیٹرکے پاس چلی آئی۔ جیوپیٹر ، تمام دیوی دیوتاؤں میں سب سے طاقتورتھا ۔ وہ پلوٹو سے بھی طاقتور تھا مگر پلوٹو کے پاس جادو کی طاقت تھی۔ جادو کی طاقت کے سامنے جیوپیٹر بھی اپنے آپ کو کمزور محسوس کرتاتھا۔ جیوپیٹر نے بھاگوان کی بات سنی اورپھر کہنے لگا:۔
’’دیکھو بھاگوان، مجھے تمھاری بیٹی کے اغوا کا اتناہی دکھ ہے جتنا کہ تمھیں ہواہے۔ میں اسے پلوٹو کی قید سے رہائی دلا سکتاہوں مگر اس کی ایک شرط ہے ۔ شرط یہ ہے کہ اگر آسیہ نے پلوٹو کے محل میں رہتے ہوئے، اب تک ایک نوالہ بھی نہیں کھایاتومیں اسے قید سے چھٹکارا دلادوں گا۔۔۔‘‘
’’مگر اتنا عرصہ آسیہ کیسے بھوکی رہ سکتی ہے؟‘‘ بھاگوان نے پوچھا۔
’’بات دراصل یہ ہے کہ پلوٹو کاجادوبہت طاقتور ہے ۔ اگر آسیہ نے پلوٹو کادیا ہوا ایک نوالہ بھی کھالیا تو سمجھ لو کہ آسیہ ایک مہینہ لازماًاس محل میں رہے گی۔ اسی طرح اگر اس نے دو نوالے کھالیے تو کوئی بھی اسے دو ماہ، محل میں رہنے سے نہیں روک سکتا____ یعنی ہر نوالے کامطلب ایک ماہ کے لیے محل میں لازمی قید ۔۔۔!!‘‘جیوپیٹر نے کہا۔
بھاگوان کی پریشانی دیکھ کر جیوپیٹر نے فوراًمشتری دیوتا سے کہا کہ وہ پلوٹو کے پاس جائے اور اسے سب دیوی دیوتاؤں کی طرف سے حکم دے کہ وہ فوراً آسیہ کو آزاد کردے۔ مشتری کے بڑے بڑے پر تھے اوروہ بڑی تیزی سے اڑسکتاتھا۔ وہ بہت کم وقت میں زمین کے نیچے توچلاآیا مگر وہاں سخت اندھیرے کے باعث پلوٹو کے محل تک پہنچنے میں اسے بہت وقت لگا۔ مشتری کے آسیہ کے پاس پہنچنے سے چند لمحے پہلے، آسیہ نے پلوٹو سے کھانے کے لیے انار لے لیاتھا۔آسیہ کئی دنوں سے بھوکی تھی اور اس نے کھانے کا ایک ذرا بھی اپنے منہ سے نہ لگایاتھا۔ اس دن تھک ہارکراس نے پلوٹو سے انار کا تھوڑا ساحصہ لے لیا اور مشتری کے پہنچنے تک منہ میں انار کے چھے دانے ڈال کر ان کا رس حلق سے نیچے اتار لیاتھا۔
مشتری نے پلوٹو کو دیوی دیوتاؤں کا پیغام دیا اورساتھ ہی اس کی منت سماجت بھی کی کہ اپنی بیٹی کے بغیر بھاگوان سخت پریشان ہے۔ پریشانی میں وہ کوئی کام نہیں کرپاتی اور اس کی سزا زمین پر بسے لوگوں کو بھگتناپڑرہی ہے۔ پلوٹو نے یہ سب باتیں سنیں اور اونچی آوازمیں قہقہے لگا نے لگا ۔ وہ کہہ رہا تھا :
’’ان سے کہہ دو کہ وہ آسیہ کوبھول جائیں ۔ اب آسیہ میرے پاس ہی رہے گی۔۔۔‘‘
’’دیکھو ، ایسانہ کرو، اس بچی کو واپس زمین پر جانے دو____ سب کا یہی کہناہے ____نہیں توجیوپیٹر جو تم سے بھی زیادہ طاقتورہے تمھیں سیدھا کردے گا۔۔۔‘‘ مشتری دیوتا نے پلوٹو کو سمجھایا۔
مگر پلوٹو کو معلوم تھا کہ آسیہ نے انار کے چھے دانے کھالیے ہیں اور اس کا جادوئی اثر یہ ہوگا کہ اسے ہر دانے کے لیے ایک مہینہ محل میں گزارنا ہوگا۔اس نے مشتری دیوتا کو کہاکہ وہ آسیہ کو اپنے ساتھ لے جائے ۔ اسے معلوم تھا کہ جادو کی وجہ سے آسیہ ہر صورت، اس کے پاس واپس چلی آئے گی۔
مشتری دیوتانے آسیہ کو اپنے پروں پر بٹھایا اور اسے بھاگوان کے پاس لے آیا۔ بھاگوان اپنی بیٹی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ اس کے دل میں جب خوشی کی لہر آگئی تو فوراًاس کا دھیان اپنے کاموں کی طرف جانے لگا۔ پودے پھر سے اُگنے لگے۔ سورج پھر سے نکلنے لگا اور اس کی گرمی سے پھل پکنے لگے۔ بادلوں نے پانی برسانا شروع کردیا اور ہرطرف ہریالی نظر آنے لگی۔ زمین پر بسے لوگ خوش ہوگئے۔ انھیں ہر چیز فراوانی سے ملنے لگی۔
چھ مہینے گزرگئے اور وہی ہوا جس کے بارے میں پلوٹو نے پیش گوئی کی تھی۔ آسیہ کوپھر سے زمین کے نیچے اندھیروں میں بنے محل میں واپس آنا پڑا۔ بچی کی جدائی میں بھاگوان پھر سے اداس رہنے لگی۔ اداسی کے باعث اس نے پھر سے اپنے کاموں کی طرف دھیان دینا چھوڑ دیا۔سورج میں اتنی گرمی نہ رہی کہ پودے پھول پھل سکیں۔ گھاس خشک ہونے لگی اور درختوں کے پتے، پیلے ہو کر گرنے لگے۔ گرمی ختم ہو گئی اور زمین سرد ہونے لگی۔
جب آسیہ ، اپنی ماں کے پاس چلی آئے تو زمین پر گرمیوں کا موسم شروع ہو جاتاہے۔ بارش برستی ہے اور ہرطرف ہریالی ہوجاتی ہے۔ جب وہ واپس پلوٹو کے پاس زمین کے اندھیروں میں چلی جائے توسردی آجاتی ہے اورپودوں پر پت جھڑ آجاتاہے ۔ اسی طرح آسیہ کے اپنی ماں اور پلوٹو کے پاس آنے جانے سے ہماری زمین پر موسم بدلتے رہتے ہیں____ سر دی پھر گرمی____ پھر سردی اور اس کے بعد پھر گرمی۔۔۔۔
♥